Getty Imagesجرائم پیشہ گروہ سخت موسم میں سمندر عبور کرنے کے لیے معصوم لوگوں کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں (فائل فوٹو)
رواں ماہ 11 فروری کو جب لیبیا کے ساحل کے قریب کشتی الٹنے کا ایک واقعہ پیش آیا تو یہ گذشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والا اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا جس میں پاکستانیوں کی ہلاکت ہوئی ہو۔
11 فروری کو پیش آنے والے اس واقعے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا کہ اُس کشتی میں 63 پاکستانی سوار تھے، جن میں سے 37 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا جبکہ 16 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق ہلاک ہونے والے 16 افراد میں سے چھ افراد کی میتیں 27 فروری (جمعرات) کو پاکستان پہنچائی جائیں گی۔
جنوری 2025 میں پیش آئے ایک ایسے ہی واقعے میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند افراد کی کشتی مراکش کے ساحل پر حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں 13 پاکستانی شہریوں کی موت واقع ہوئی تھی۔
اسی طرح گذشتہ برس کے آواخر میں یونان کے ساحل پر پیشِ آنے والے ایک اور حادثے میں تقریباً 40 پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران غیرقانونی تارکین وطن کی کشتیاں الٹنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اہم سوال یہ ہے کہ یہ واقعات خاص طور پر موسمِ سرما میں ہی کیوں تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں؟
سپین میں تارکینِ وطن کے مسائل پر کام کرنے والے ادارے ’کمیناندو فرونتیرس‘ (واکنگ بارڈرز) کے مطابق سنہ 2024 میں سمندری راستوں سے سپین پہنچنے کی کوشش میں 28 ممالک سے تعلق رکھنے والے کم از کم 10 ہزار 457 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان سمیت کئی ممالک سے نوجوان ایجنٹس کو لاکھوں روپے دے کر غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے لیے جن خطرناک راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، ان میں لیبیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
یورپ پہنچنے کے لیے کون سے سمندری راستے استعمال ہوتے ہیں؟Getty Images’غیرقانونی کراسنگز ہمیشہ ہی خطرناک ہوتی ہیں لیکن موسمِ سرما میں یہ اور بھی خطرناک ہو جاتی ہیں‘ (فائل فوٹو)
جنوری 2025 میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اپنی ٹریول ایڈوائزری میں نشاندہی کی تھی کہ لیبیا اُن 15 ٹرانزٹ ملکوں میں شامل ہے جو انسانی سمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
ایف آئی اے کی فہرست میں لیبیا کے علاوہ سعودی عرب، مصر اور ترکی کے نام بھی شامل ہیں۔
پاکستانی ایئرپورٹس کو غیر قانونی سمگلنگ روکنے کے لیے یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اِن ملکوں میں جانے والے مسافروں کی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جائے جن میں ویزا، ریٹرن ٹکٹس اور ہوٹل بُکنگ وغیرہ شامل ہیں۔
شمالی افریقہ کا ملک لیبیا اُن تارکین وطن کے لیے ایک اہم منزل ہے جو بحیرۂ روم کے مرکزی روٹ کا استعمال کرتے ہوئے مشرقی یورپ میں اٹلی یا یونان کے ساحلوں تک غیرقانونی طور پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس روٹ میں تیونس، مصر اور الجزائر سمیت دیگر آپشنز بھی موجود ہیں لیکن عدم استحکام کا شکار لیبیا کئی پناہ گزینوں کو لے جانے والے ایجنٹوں کے لیے زیادہ پُرکشش ہے۔
دوسری طرف بحیرۂ روم کے مغربی روٹ کے ذریعے تارکین وطن سپین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں یا مشرقی زمینی روٹ کے ذریعے جنوب مشرقی یورپ کے بلقان خطے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کشتی حادثے میں 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق: انسانی سمگلر اپنے ’شکار‘ کو پہلے لیبیا کیوں بھیجتے ہیں؟یورپ جانے والے تارکین وطن: ’شوہر 12 برس قبل بیرون ملک گئے اور ابھی تک نہیں آئے، اب ان کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں‘ڈنکی سے یورپ جانے کا خواب: ’پاکستان میں بھوکے رہ لو، میں بیٹا گنوا بیٹھی ہوں‘ ’پاکستان میں کیا رکھا ہے، اگر یورپ پہنچ گیا تو مستقبل محفوظ ہوجائے گا‘
رپورٹس کے مطابق گذشتہ دہائی کے دوران یورپی یونین کی سختیوں کے باعث مغربی روٹ کے استعمال میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے جبکہ لیبیا سے گزرنے والے مرکزی روٹ پر ٹریفک ڈرامائی طور پر بڑھی ہے۔
یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی ’فرنٹیکس‘ کے مطابق سنہ 2024 کے دوران اگرچہ تیونس اور لیبیا سے پناہ گزینوں کی روانگی میں کمی آئی ہے تاہم سینٹرل روٹ سے قریب 67 ہزار کراسنگز ہوئیں جو اسے غیرقانونی تارکین وطن کے گزرنے کا دوسرا سب سے زیادہ فعال راستہ بناتی ہیں۔
پاکستان میں ایف آئی اے نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور گذشتہ چند ہفتوں کے دوران سامنے آنے والے سرکاری بیانات کے مطابق اس کام میں ملوث درجنوں افراد پکڑے بھی جا چکے ہیں۔
تحقیقاتی ادارے کے بیانات کے مطابق انسانی سمگلنگ روکنے میں غفلت برتنے پر ایف آئی اے کے کچھ اہلکاروں کو نوکری سے برخاست اور کچھ کو معطل بھی کیا گیا ہے جبکہ ایئرپورٹس پر مسافروں کی سکریننگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
غیرقانونی سمندری سفر موسمِ سرما میں مزید خطرناک کیوں ہوتا ہے؟Reuters’موسم سرما میں سمندر میں خراب حالات مشکل میں پھنسی کشتیوں کے ریسکیو کی کارروائیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں‘ (فائل فوٹو)
یورپی یونین کی بارڈر اور کوسٹ کارڈ ایجنسی ’فرنٹیکس‘ کے مطابق سمندر میں غیرقانونی کراسنگز ہمیشہ ہی خطرناک ہوتی ہیں لیکن ’موسمِ سرما میں یہ اور بھی خطرناک ہو جاتی ہیں۔‘
فرنٹیکس کے ترجمان کرزتوف بوروسکی نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’موسم سرما میں بپھرا ہوا سمندر، سخت موسمی حالات اور اکثر دو، تین منزلہ عمارتوں جتنی بلند لہریں اِس سفر کو مزید خطرناک بنا دیتی ہیں۔‘
بوروسکی کے مطابق ایسے پرخطر سفر اور شدید موسمی حالات کے برعکس استعمال ہونے والی کشتیاں ’قابلِ بھروسہ نہیں ہوتی ہیں، اُن میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہوتے ہیں اور وہاں کھانے، پانی اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات بھی نہیں ہوتیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان اور دیگر ممالک سے لوگ سمنددری بارڈر عبور کرنے کے لیے سردیوں کے مہینے کا ہی انتخاب کرتے ہیں اور ایسا اکثر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جرائم پیشہ گروہ اتنے سخت موسم میں سمندر عبور کرنے کے لیے معصوم لوگوں کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔‘
’یہ جرائم پیشہ گروہ منافع کو انسانی زندگیوں پر فوقیت دیتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لالچ ہی ہے جو ایسے جان لیوا سمندری سفر کو جنم دیتا ہے۔‘
اقوامِ متحدہ کے ادارے ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن‘ کے ترجمان رائن شروئڈر کہتے ہیں کہ ویسے تو دنیا بھر میں سمندر کے ذریعے غیرقانونی سفر کی زیادہ تر کوششیں موسمِ گرما میں ہی ہوتی ہیں لیکن موسمِ گرما ہو یا موسم سرما موسم کی درست پیش گوئی کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا۔
انھوں نے سنہ 2023 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگر کوئی طوفان آ جائے یا سمندر بپھرا ہوا ہو (جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب اکثر ہوتا ہے) تو انسانی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ موسم کی خرابی بھی انسانی سمگلروں کو لوگوں کی جان خطرے میں ڈالنے سے نہیں روک پاتی۔
انھوں نے وضاحت کی کہ گذشتہ سال لیمپیڈوسا جزیرے کے قریب بہت سے کشتیاں ڈوبیں جنھیں اس بات سے قطع نظر سفر پر روانہ کیا گیا کہ سمندر کے حالات اچھے نہیں تھے اور سفر کے قابل نہیں تھے۔
انھوں نے کہا کہ موسم سرما میں سمندر میں خراب حالات مشکل میں پھنسی کشتیوں کے ریسکیو کی کارروائیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تصور کریں کہ فضا سے ایک چھوٹی کار کو برطانیہ کے رقبے جتنے علاقے میں تلاش کرنا کتنا مشکل ہو گا۔ اور اب تصور کریں کھلے سمندر میں چھوٹی کشتی پر سوار چند درجن افراد کو تلاش کرنا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ بحیرہ روم میں ایک مشکل چیلنج ہوتا ہے۔ خاص کر ایک ایسے وقت جب بےرحم سمندر میں موسم خراب ہو جائے۔ جیسا کہ ہم نے حالیہ دنوں میں دیکھا ہے۔‘
’پاکستان میں کیا رکھا ہے، اگر یورپ پہنچ گیا تو مستقبل محفوظ ہوجائے گا‘ڈنکی سے یورپ جانے کا خواب: ’پاکستان میں بھوکے رہ لو، میں بیٹا گنوا بیٹھی ہوں‘ یورپ جانے کا خواب جس نے دو دوستوں کو ایرانی اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسا دیایورپ جانے والے تارکین وطن: ’شوہر 12 برس قبل بیرون ملک گئے اور ابھی تک نہیں آئے، اب ان کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں‘کشتی حادثے میں 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق: انسانی سمگلر اپنے ’شکار‘ کو پہلے لیبیا کیوں بھیجتے ہیں؟بھوک، پیاس اور سمندر میں پھینکے جانے کا خوف: پاکستانی تارکین وطن کے لاوارث کشتی پر گزرے 13 دن