اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہد حسین، ابوبکر خان ) پاکستان میں اسکواش کے کھیل کے عروج کے بعد زوال کی بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں۔
ایک وہ زمانہ بھی تھا جب اسکواش کے کھیل میں دنیا کے تمام بڑے ٹورنامنٹس کے فائنل میں ایک ہی ملک سے تعلق رکھنے والے دو کھلاڑی ایک دوسرے کے مقابل ہوتے۔ پہلی اور دوسری پوزیشن پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا تھا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے آغاز پر ہی تسلیم کر لیا کہ وہ تو پاکستانی کھلاڑیوں کی پہلی اور دوسری پوزیشن کا مقابلہ دیکھنے آئے ہیں اور صرف پاکستانی کھلاڑیوں کو فائنل میں پہنچنے میں مدد دینے کے لیے اس ٹورنامنٹ میں کھیلیں گے۔
پاکستان کے سہیل عدنان نے برٹش جونیئر اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیت لی
ہم انویسٹی گیٹس نے اسکوائش کے زوال پرتحقیق کرتے ہوئے اس کی وجواہات جاننے کی کوشش کی ہے، پوری دنیا کے اسکواش کھلاڑی کئی دہائیوں تک سکواش کو پاکستانیوں کا ہی ورثہ سمجھتے رہے ، ہاشم خان سے لے کرروشن خان، گوگی علائوالدین ، قمر زمان، جہانگیر خان اور جان شیر خان تک دنیا کے ہر کونے میں اس کھیل کے کورٹس میں اسکواش کی بال پاکستانی شاہینوں کے پنجے میں رہی۔
دنیا میں اسکواش کھیلنے والے پروفیشنل کھلاڑی وہ چھوٹے چھوٹے ٹورنامنٹس جیتتے رہے جن میں پاکستانی چمپئینز شرکت نہ کرتے۔ یو ایس اوپن،آسٹریلین اوپن، ورلڈ چیمپئین شپ، برٹش اوپن اور اِن جیسے بین الاقوامی معیار کے درجنوں ٹورنامنٹس صرف پاکستانی کھلاڑیوں میں انعامات کی تقسیم کی تقریبات کے ساتھ ختم ہوتے۔
نوے کی دہائی میں یہ شاندار ماضی دھندلانے لگا اور 1993 میں جان شیر خان کی ساتویں مرتبہ ورلڈ چیمپئین شپ کے ٹائٹل کی جیت کے ساتھ ہی پاکستانی اسکواش کا زوال شروع ہو گیا ،کئی برسوں تک نمبر ون رہنے والے پاکستانی کھلاڑیوں نے ناکامیاں سمیٹنا شروع کیں اور آج یہ سفر یہاں پہنچا ہے کہ دنیا میں اسکواش کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 136 واں ہے اور اُن ممالک کے سکواش کھلاڑیوں کا نمبر پاکستانی کھلاڑیوں سے کہیں اوپر ہے جن کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔
پاکستان کو انڈر 23 ورلڈ اسکواش چیمپئن شپ کی میزبانی مل گئی
1981 سے 1986 تک مسلسل 555 مقابلوں میں جہانگیر خان ناقابل شکست رہے۔ 1975 میں برٹش اوپن سکواش چیمپئین شپ کے فاتح قمرزمان نے آسڑیلیا کے ناقابل شکست جیف ہنٹ کو اسکواش کی تاریخ کے طویل ترین میچ جو دو گھنٹے سترہ منٹ جاری رہا میں شکست دی ، جان شیر خان نے آٹھ مرتبہ ورلڈ اوپن جیت کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ جان شیر خان کو اسکواش کی دنیا ایک طاقتور اور تیکنیکی طور پر سب سے بہترین کھلاڑی کے طور پر یاد کرتی ہے۔
پاکستان دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ورلڈ چیمپئن، ناقابل شکست کھلاڑی اور سب سے بڑھ کر سب سے زیادہ انٹرنیشنل مقابلے جیتنے والے کھلاڑیوں کا ملک ہے، جہاں بین الاقوامی معیار کے اسکواش کورٹس موجود ہیں ، جہاں بہتر برس کے چاق و چوبند سابق ورلڈ چیمپئن قمرزمان آج بھی روزانہ اسکواش کورٹ میں نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت دیتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف گیارہ برس کے ہرماس علی راجہ روزانہ گھنٹوں اسکواش کی تربیت حاصل کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں انڈر الیون یو ایس اوپن چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا ہے اس کے باوجود اسکواش کے میدان میں پاکستان کہیں بہت دور کھڑا ملتا ہے۔
آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسکواش کے کھیل میں بہت پیسہ ہے۔ پاکستان میں اس کے کھیل کا سب سے بڑا ٹرننگ پوائنٹ وہ تھا جب مقامی کھلاڑیوں کی اسپانسر شپ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس کھیل کے سب سے بڑے اسپانسرز میں پی آئی اے کا ادارہ صف اول میں کھڑا ملتا ہے ، پاکستان میں اسکواش کے کھیل اور کھلاڑیوں کی بہبود کے لیے امریکہ میں مقیم درد دل کے حامل پاکستانی احمرعباس اپنے وسائل وقف کیے ہوئے ہیں ، احمر عباس اسکواش میں پاکستان کی موجودہ رینکنگ سے بہت افسردہ ہیں ، اُنہوں نے ایک عام پاکستانی کھلاڑی کے لیے ایک چارٹ بھی ترتیب دیا ہے کہ کس طرح ایک پاکستانی نوجوان کھلاڑی اپنے آپ کو اسکواش رینکنگ میں موجود رکھ سکتا ہے، اس کے لیے کون کون سے ٹورنامنٹس کھیلنا ضروری ہے اور کتنے وسائل درکار ہیں۔
عشب عرفان نے بھارتی کھلاڑی کو شکست دیکر کینسو اوپن اسکواش چیمپیئن شپ جیت لی
نوے کی دہائی میں پاکستان میں اس کے کھیل کی حالت بگڑنے لگی، اس میں کئی عوامل شامل تھے ، کھیل کے بنیادی ڈھانچے پر کئی سوال اُٹھائے گئے، مالی وسائل کی کمی اور کھلاڑیوں کے لیے جدید ٹریننگ کی سہولتوں کا فقدان اور خاص طور پر حکومتوں کی طرف سے اس کھیل کو نظر انداز کرنا بھی ایک اہم وجہ تھی، اسکواش کی عالمی رینکنگ میں مصر ایک ایسے ملک کے طور پر اُبھرا جس نے اس کھیل میں شاندار فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔
اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان پاکستان میں اسکواش کو پیشہ ورانہ طریقے سے ہینڈل کرنے کی ضرورت اور نوجوانوں کی نشوونما، مناسب تربیت اور نظم و ضبط پر توجہ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
اسی طرح، لیجنڈری جان شیر خان کا کہنا ہے کہ اسکواش میں جہاں جسمانی فٹنس بہت ضروری ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس بہت اچھا ٹیلنٹ ہے لیکن کامیابی کے لیے درکار نظم و ضبط اور لگن کی کمی ہے۔ موجودہ اسکواش فیڈریشن پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ جہانگیر خان اور قمر زمان جیسے ماہر کھلاڑیوں کو کوچنگ کے لیے استعمال نہیں کر رہے۔
اسکواش میں سابق عالمی چیمپئن قمر زمان خان نے جہانگیر خان، جانشیر خان اور قمر زمان جیسے لیجنڈ کھلاڑیوں کی کامیابیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ کس طرح مختلف کوششوں کے باوجود پاکستان سے ابھرنے والے نئے چیمپئنز کی کمی ہے۔ قمر زمان اس کی وجہ کھلاڑیوں کی موجودہ نسل میں نظم و ضبط، لگن اور محنت کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
قمر زمان نے اسپانسرشپ کی کمی اور پاکستان کی اسکواش رینکنگ میں گراوٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نظم و ضبط اور تربیت پر زیادہ توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔