’میڈیا پر جنگ، میدان میں ٹھنڈ‘: ماضی میں سنسنی سے بھرپور پاکستان انڈیا کا میچ جو اب ٹکر کا مقابلہ نہیں رہا

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

Reuters

بھرے ہوئے سٹینڈز، چہروں پر نیلے اور سبز رنگ کا پینٹ لگائے تماشائیوں کا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور ہر کونے میں لہراتے قومی پرچم جیسے کہ کوئی جنگ ہونے والی ہو۔

یہ دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے ٹاکرے انڈیا بمقابلہ پاکستان پر مبنی نیٹ فلیکس کی نئی دستاویزی فلم دی گریٹیسٹ رائیولری کا ابتدائی منظر ہے۔

انڈیا کے سابق کرکٹر وریندر سہواگ یہ کہتے ہوئے کہ 'یہ صرف گیند اور بلے کا کھیل نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔' ماحول کو مزید بڑھا گرما دیتے ہیں۔

اس کے بعد چند میچز کے سنسی خیز مناظر دکھائے جاتے ہیں، واہگہ بارڈر، تقسیم کے وقت پناہ گزینوں کے مناظر جب ایک قوم دو قوموں میں بٹ گئی لیکن یہ ہمیشہ کے لیے کرکٹ کے ذریعے جڑ گئی۔

سابق پاکستانی کرکٹر وقار یونس بنا کسی ہچکچاہٹ کے کہتے ہیں کہ 'میں اس مقابلے کو سب سے اوپر رکھتا ہوں۔ انڈیا بمقابلہ پاکستان جیسا کوئی میچ نہیں ہے۔'

انڈیا کے کرکٹر آر اشون اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے کہ یہ مقابلہ ایشز سے بھی بڑا ہے۔'

پاکستان کے رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ 'یہ سیاسی رنگ ہے جو اس روایتی کرکٹ دشمنی کو عالمی معیار کا بناتی ہے۔'

جنگوں، سرحدی بندشوں اور دہشت گرد حملوں کے باوجود انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ دشمنی دونوں ممالک کی تاریخ اور قومی فخر کی وجہ سے برقرار رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب سیاست کی وجہ سے دو طرفہ سیریز میں تعطل آتا ہے تو بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ٹورنامنٹس اس جوش کو زندہ رکھتے ہیں اور ہر میچ کو ایک ایسے بڑے مقابلے میں تبدیل کر دیتے ہیں جس سے کروڑوں لوگوں کی توقعات جڑی ہوتی ہیں۔

Getty Imagesپاکستان کو میچ ہرانے کے بعد کوہلی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے

لیکن اتوار کو دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے میچ میں انڈیا کے ہاتھوں پاکستان کی بدترین شکست کے بعد اس سوال نے ایک بار پھر جنم لیا ہے کہ کیا اس روائتی دشمنی کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا جاتا ہے؟ جس میں 'وار مائنس دی شوٹنگ' جیسے جملوں سے ہوا دی جا رہی ہے، یہ اصطلاح جو جارج آرویل نے 1945 میں کھیلوں میں ضرورت سے زیادہ قوم پرستی دکھائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے متعارف کروائی تھی۔

کیا یہ اب بھی کرکٹ مقابلوں میں چوٹی کا مقابلہ ہے؟ یا یہ محض ڈرامائی ہے؟ کیا اس نے اپنی مسابقتی برتری کھو دی ہے، یا اب اس میں کھیل کی شدت سے زیادہ تاریخ کا عمل دخل ہے؟

ذرا یہ دیکھیں کہ سنہ 2018 میں آٹھ وکٹوں سے شکست دینے سے لے کر 2023 میں 228 رنز کی تباہی تک، انڈیا نے پاکستان کے خلاف آخری آٹھ ون ڈے انٹرنیشنلز میں سے چھ میں فتح حاصل کر کے غلبہ حاصل کیا۔ 2017 چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل، پاکستان کی آخری فتح؟ بڑھتی ہوئی یکطرفہ دشمنی میں مدھم پڑتی یاد ہے۔

پاکستان کے ایک معتبراخبار ڈان نے تازہ ترین شکست کے بعد واضح طور پر سوال اٹھایا کہ کیسا ٹاکرا؟ جبکہ انڈیا ٹوڈے میگزین نے شہہ سرخی لگائی کہ کرکٹ کی جنگ جو اب فقط ایک بے جوڑ مقابلہ بن گئی ہے۔

ڈان اخبار کے زوہیب احمد مجید کے مطابق، ہار کو قبول کرنا آسان ہوتا اگر پاکستان کم از کم جان مار کر ہارتا۔

مجید کا خیال ہے کہ دونوں ہمسایوں کے درمیان مشکل سیاسی صورتحال ہی واحد چیز ہے جس نے اس روائتی کرکٹ دشمنی کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ایک طرح سے ہمیں اس دشمنی کو زندہ رکھنے کے لیے ان دونوں ممالک کے سیاستدانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، کیونکہ کرکٹرز، خاص طور پر ہماری طرف سے، یقینی طور پر ایسا کھیل پیش کرنے سے قاصر ہیں جو اسے قابل تحسین بنائے۔

وہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اگر ان میچوں میں لفظی گولہ باری اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی اصل جنگوں کی ایک طرف رکھیں تو آپ کے پاس اس ٹاکرے میں ایک پیشہ وارانہ کرکٹ ٹیم بمقابلہ ایسی بے ربط ٹیم ملے جسے آخری وقت میں اکٹھا کیا گیا ہو۔

’جہاں تک خالص کرکٹ کے معیار کی بات ہے تو دونوں ٹیموں کا کوئی مقابلہ نہیں۔‘

چیمپیئنز ٹرافی 2017: وہ میٹنگ جس نے پاکستان کے لیے ٹورنامنٹ کا رخ موڑ دیااحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےپاکستان چیمپیئنز ٹرافی کے چھٹے روز ایونٹ سے باہر: ’اب اگر مگر سے بات بہت آگے بڑھ گئی ہے، بس اب آرام سے گھر بیٹھیں‘یہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہے یا کوئی فرنچائز کمپنی؟

انڈیا ٹوڈے نے بھی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کوئی رحم نہیں برتا۔

سندیپن شرما نے لکھا کہ 'حالیہ برسوں میں انڈیا کی پاکستان کے خلاف یکطرفہ فتوحات کی تاریخ اور پاکستان کرکٹ کا تیزی سے گرتا معیار اور ایسے میں جب تک یہ رجحان نہیں بدلتا، پاکستان کا انڈیا سے مقابلہ کرنے کا خواب جلد ہی کرکٹ شائقین کے لیے مذاق میں بدل سکتا ہے۔'

سچ کہیں تو پاکستان کرکٹ کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ وہ پچھلے تین ورلڈ کپ مقابلوں میں فائنل فور مرحلے سے باہر ہو چکی، ٹی 20 ورلڈ کپ کے گروپ مرحلے میں بھی آؤٹ ہو چکی ہے اور اب چیمپئنز ٹرافی کے میزبان کے طور پر وہ اس کرکٹ میلے سے باہر ہے۔

سنہ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم کی بس پر حملے کے بعد سے پاکستان کرکٹ نے عالمی تنہائی، سیاسی بحران، کرکٹ بورڈ کے عدم استحکام، کوچنگ میں مسلسل تبدیلیوں اور سلیکشن کے تنازعات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور ان سب نے اس کی مشکلات کو مزید بڑھایا ہے۔

جبکہ دوسری طرف سرحد پار انڈیا کرکٹ کی دنیا میں ایک طاقتور ترین ٹیم بن کر ابھری ہے جس کا ڈومیسٹک کرکٹ سٹریکچر بھی مضبوط ہے اور اس کی کرکٹ لیگ آئی پی ایل دنیا کی امیر ترین کرکٹ لیگ بن چکی ہے۔

پاکستانی کرکٹ تجزیہ کار عثمان سمیع الدین نے بھی اپنے ملک کے کرکٹرز میں 'تنہائی'کے احساس کو نوٹ کیا، جو آئی پی ایل اور اس کے فرنچائز ایکو سسٹم سے باہر ہیں۔

واضح رہے کہ 2009 کے بعد سے کوئی پاکستانی کھلاڑی آئی پی ایل میں شامل نہیں ہوا، کیونکہ ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

انھوں نے ایک پروگرام میں کہا کہ 'میرے خیال میں وہ انڈین کرکٹرز اور دیگر مثلاً آسٹریلوی اور انگلش کرکٹرز کو کرکٹ کے اس میلے میں حصہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں جس سے انھیں باہر رکھا گیا ہے۔'

اس سب نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی تیزی سے کم ہوتی کارکردگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اتوار کے میچ کے بعدای ایس پی این کریک انفو میں سدھارتھ مونگا نے لکھا کہ 'یہ سوچنا فضول ہے کہ کیا یہ پاکستان کی کرکٹ کی اب تک کی سب سے بری کارکردگی ہے۔ تاہم ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس سے بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور تب انھوں نے ایک ایسے انداز میں کیا تھا جو اس ٹیم کی غیر متوقع کارکردگی کی نشاندہی کرتا تھا مگر اس بار تو ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔'

'یہ سب کچھ کسی سست زوال کی مانند لگتا ہے۔ کھلاڑی آپس میں لڑ نہیں رہے، کوئی پس پردہ سازش نہیں ہے، ٹیم میں کوئی گروہ بندی نہیں ہے جو کپتان کو معزول کرنے کی سازش کر رہا ہو، کوئی مزاح کن رن آؤٹ یا مس فیلڈنگ نہیں ہے، کسی جیتے ہوئے میچ میں اچانک سے ہار نہیں ہے۔'

ایک وقت تھا جب دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلے کو 'بندوقوں کے بغیر جنگ' کا نام دیا جاتا تھا۔ خاص طور پر اس دور میں جب عمران خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم، وسیم اکرم اور وقار یونس کے خوفناک پیس اٹیک سے لیس تھی اور جاوید میانداد اور انضمام الحق جیسے سٹار بلے باز مسلسل انڈیا سے بہتر کارکردگی دکھایا کرتے تھے۔

Getty Images

پاکستانی مصنف اور کالم نگار، ندیم فاروق پراچہ نے مجھے بتایا کہ 'کرکٹ جنگ کا بیانیہ 2000 کی دہائی کے اوائل تک سچ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اصل شائقین نے ایسا ہی محسوس کیا تھا۔ لیکن جلد ہی اسے ملٹی نیشنلز اور میڈیا نے ہائی جیک کر لیا تاکہ ان سب کے حد سے زیادہ جذبات کو کیش کیا جا سکے۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'دونوں فریقوں کے درمیان کرکٹ کا معیار اب ویسا نہیں رہا جیسا ہوا کرتا تھا۔ انڈین کرکٹ بدستور بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ درحقیقت، میرے خیال میں یہاں زیر بحث بیانیے نے پاکستانی ٹیم پر زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ وہ اس کو کم سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔'

کرکٹ بورڈز اور براڈکاسٹرز اس دشمنی کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اور آئی سی سی اس جوش و ولولے کو کم نہیں کرنے والا، کرکٹ کی حد سے زیادہ نمائش، محدود ستاروں اور فرنچائز کرکٹ کے مقابلے کے دور میں یہ بہت قیمتی ہے۔

یہ کھیل ایک مالی سرگرمی بن چکا ہے ، جہاں بھی یہ کھیلا جاتا ہے، دبئی، لندن، احمد آباد، ان شائقین کو کھینچتا ہے جو صرف وہاں جانے کے لیے کافی پیسے خرچ کرتے ہیں۔ کرکٹ پر لکھنے والے گوتم بھٹاچاریہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ٹیلنٹ ہے، لیکن مقابلہ اب زیادہ نفسیاتی محسوس ہوتا ہے۔‘

Getty Imagesپاکستانی ٹیم گذشتہ کئی برسوں سے انڈیا سے شکست کا سامنا کر رہی ہے

برانڈ کنسلٹنٹ سنتوش دیسائی کے مطابق روایتی حریفوں کے درمیان اصل مقابلہ کرکٹ کے میدان سے باہر ہوتا ہے اور 'مقابلہ حقیقت سے زیادہ تخیل میں پروان چڑھتا ہے۔'

دیسائی نے مجھے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان عدم توازن ہی جوش کو ہوا دیتا ہے۔

انڈیا کا پاکستان کرکٹ ٹیم پر غلبہ ہی اسے مارکیٹ کرنے کے لیے آسان بناتا ہے، ایک ایسی جنگ جس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ محسوس ہوتا ہو۔ اگر پاکستان مسلسل فتوحات سمیٹتا ہے تو مارکیٹنگ کی یہ اپیل ختم ہوجائے گی۔ اس کرکٹ دشمنی کی طاقت انڈیا کے غلبے میں مضمر ہے۔

ایک ایسا سکرپٹ جسے توثیق کے لیے لکھا گیا ہے غیر یقینی صورتحال کے لیے نہیں۔

انڈیا کے نائب کپتان شبمن گل نے اوور ہائپنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا مقابلہ قرار دیا جسے شائقین دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

انھوں نے اتوار کے میچ کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک دلچسپ مقابلہ ہوتا ہے جب دونوں ٹیمیں کھیلتی ہیں۔ ہر کوئی اسے دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اگر اتنے سارے لوگ میچ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، تو ہم کون ہیں یہ کہنے والے کہ یہ کم ہے یا اوور ہائپ ہے۔'

گل کی بات بھی ممکنہ طور پر درست ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے میچ کی ٹکٹس ابھی بھی منٹوں میں بک جاتی ہیں۔ یہ حیران کن ہے کہ 600 ملین سے زیادہ ناظرین نے انڈین سٹریمنگ پلیٹ فارم جیو ہاٹ سٹار پر اتوار کو میچ دیکھا اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہو گیا۔

مگر فی الحال تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کہ کرکٹ پر لکھنے والے ایاز میمن کہتے ہیں کہ 'ہائپ خود کرکٹ میچ سے زیادہ سنسنی خیز ہے۔‘

پاکستان چیمپیئنز ٹرافی کے چھٹے روز ایونٹ سے باہر: ’اب اگر مگر سے بات بہت آگے بڑھ گئی ہے، بس اب آرام سے گھر بیٹھیں‘ابرار احمد کے ایکشن پر ٹرولنگ اور دہلی پولیس کا طنز: ’پڑوسی ملک سے ابھی کچھ عجیب سی آواز سُننے میں آئی ہے‘پاکستان اپنی ہی پارٹی سے باہر ہونے کے قریب: سست بیٹنگ، بے اثر بولنگ اور کوہلی کی سنچری کی بدولت انڈیا سے چھ وکٹوں سے شکستکروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More