’بیوی بچوں کی تصویریں دیکھ کر رونے لگتے ہیں‘: چار ماہ سے ممبئی کے پولیس سٹیشن میں مقیم پاکستانی تاجر نیپال سے انڈیا کیسے پہنچے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

BBC65 سالہ نادر کریم خان عجیب و غیریب حالات میں نیپال سے غیرقانونی طور پر انڈیا پہنچے تھے

گذشتہ چار مہینوں سے جنوبی ممبئی کی کرافورڈ مارکیٹ کے اندر واقع ایم آر اے پولیس سٹیشن کے صحن میں سر پر ٹوپی پہنے ہوئے ایک شخص اکثر نظر آتا ہے اور اب آس پاس کے لوگ بھی انھیں پہچاننے لگ گئے ہیں۔

لیکن یہ شخص نہ تو پولیس اہلکار ہے اور نہ ہی انڈین شہری۔ ان کا نام نادر کریم خان ہے اور یہ ایک پاکستانی شہری ہیں۔

65 سالہ نادر کریم خاننیپال سے غیر قانونی طور پر انڈیا پہنچے تھے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے نادر کہتے ہیں کہ ’میں پاکستان کا شہری ہوں، کراچی میں پیدا ہوا تھا اور وہیں میرا گھر اور خاندان ہے۔ تین سال ہو گئے ہیں میں اپنی بیوی بچوں کو نہیں دیکھ سکا ہوں۔ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے،رات میں نیند بھی نہیں آتی۔‘

نادر پچھلے چار مہینوں سے ممبئی کے اس پولیس سٹیشن میں ہی رہ رہے ہیں اور یہی اب ان کا عارضی گھر بن چکا ہے۔ وہ یہیں کھاتے پیتے ہیں اور یہیں سو جاتے ہیں کیونکہ انھیں پولیس سٹیشن سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

نادر کہتے ہیں کہ لوگوں کا برتاؤ ان کے ساتھ بہت اچھا ہے۔ مگر وہ اپنی بڑھتی عمر کے باعث کچھ فکر مند ہیں۔

’لیکن اب میں 65 برس کا ہو گیا ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے جلد میرے وطن بھیج دیا جائے۔‘

نادر انڈیا کیسے پہنچے؟BBCنادر سے نہ صرف پولیس نے تفتیش کی بلکہ انڈیا کی انسدادِ دہشتگردی فورس، انٹیلی جنس بیورو اور خفیہ ادارے را کے اہلکاروں نے بھی ان سے سوالات پوچھے

نادر غیر قانونی طور پر انڈیا میںداخل ہونے کے جُرم میں چھ مہینے قید کی سزا کاٹ چُکے ہیں اور اب انھیں پاکستان جانے کا انتظار ہے۔

نادر خان ممبئی کیسے پہنچے یہ ایک تکلیف دہ داستان ہے۔

انھوں نے ممبئی پولیس کو بتایا کہ وہ لیدر جیکٹس کے تاجر ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں کئی ممالک جا چکے ہیں۔

ان کے مطابق نومبر2021 میں انھوں نے نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ایک ایکسپو نمائش میں شرکت کی جہاں ان کی ملاقات بعض مقامی تاجروں سے ہوئی جنھوں نے نادر سے تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کی جیکٹس خریدیں۔

پولیس تھانے میں ریکارڈ کیے گئے نادر کے بیان کے مطابق نیپالی تاجروں نے انھیں جو چیک دیا وہ باؤنس ہو گیا اور اس حوالے سے انھوں نے نیپال کے مقامی پولیس سٹیشن میں رپورٹ بھی درج کروائی لیکن وہاں انھیں اس مقدمے میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔

نادر نے ممبئی پولیس کو بتایا کہ نیپالی تاجروں نے نہ صرف انھیں پیٹا بلکہ ان کا پاسپورٹ بھی چھین لیا اور اس دوران ان کے ویزے کی مدت بھی ختم ہو گئی جس کے بعد نیپال حکومت نے ان پر بھاری جُرمانہ بھی عائد کیا۔

نادر ان حالات سے پریشان ہو گئے اور انھوں نے نیپال سے انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔

پولیس کے مطابق وہ سونولی بارڈر کے راستے گورکھپور سے ہوتے ہوئے دلی پہنچے۔

نادر نے دعویٰ کیا کہ دلی میں انھوں پاکستانی ہائی کمیشن سے بھی رابطہ قائم کیا لیکن سفارتخانے کے عملے نے ان کی بات نہیں سنی وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ دلّی سے ممبئی آ گئے اور اپنی تمام کہانی پولیس کو بتائی۔

تاہم ان کے اس دعوے کے متعلق بی بی سی نے نئی دہلی میں واقع پاکستان ہائی کمیشن سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا نادر خان نے ہائی کمیشن سے کبھی رابطہ کیا تھا؟ کیا انڈیا کی حکومت یا ممبئی پولیس نے نادر خان کی ملک بدری کے سلسلے میں ان سے رجوع کیا ہے؟

پاکستان ہائی کمیشن سے تحریری طور پر یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا ہائی کمیشن نے نادر کی پاکستانی شہریت کی تصدیق کی ہے؟ اور کیا پاکستان ہائی کمیشن نے نادر کے ساتھ نیپال میں ہونے والے مبینہ دھوکے کے بارے میں نیپالی حکام سے کوئی بات کی تھی؟

ہائی کمیشن کے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان سوالوں کے بارے میں متعلقہ حکام سے معلومات لے کر جواب دیں گے تاہم اس مضمون کی اشاعت کے وقت تک پاکستان ہائی کمیشن سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اے آئی ایپ، ناقابل یقین منافع اور چینی ملزمان: وہ سٹاک فراڈ جس میں پاکستانی شہری کروڑوں روپے گنوا بیٹھےجبری شادیاں: پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے سر کی قیمتانڈیا میں ایک پاکستانی شہری کے خلاف مقدمہ: وہ تنازع جس میں ایک برطانوی خاتون اور آئی ایس آئی کا نام بھی لیا جا رہا ہےپاکستانی شہریوں کو متحدہ عرب امارات کے ویزے کے حصول میں پریشانی کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟

نادر سے نہ صرف پولیس نے تفتیش کی بلکہ انڈیا کی انسدادِ دہشتگردی فورس، انٹیلی جنس بیورو اور خفیہ ادارے را کے اہلکاروں نے بھی ان سے تفتیش کی۔ حکام کے مطابق ان کی سُنائی گئی کہانی دُرست پائی گئی اور انھیں صرف انڈیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے جُرم میں سزا سُنائی گئی۔

دلی میں انسداد دہشت گردی سیل کے سب انسپکٹر انیل راٹھور نے میڈیا کو بتایا کہ ’عدالت نے انھیں (نادر کو) ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخلے ہونے اور رہائش اختیار کرنے پر چھ مہینے کی سزا دی۔ وہ 11 اکتوبر 2024 کو اپنی سزا پورے کرنے کے بعد رہا ہوئے ہیں اور عدالت نے انھیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔‘

نادر کی جیل سے رہائی کے بعد اعلیٰ پولیس افسران کو یہ مشکل تھی کہ انھیں بنا پاسپورٹ یا سفری دستاویزات کے ملک بدر ہونے تک کہاں رکھا جائے؟ اسی وقت پولیس کی سپیشل برانچ نے انھیں ایم آر اے پولیس سٹیشن منتقل کر دیا جہاں وہ گزشتہ چار مہینے سے رہ رہے ہیں۔

انیل راٹھور کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ان (نادر) کے معاملے پر وزارت خارجہ اور دلّی میں پاکستان کے ہائی کمیشن سے بھی رجوع کیا ہے۔‘

مقامی حکام اور فارینرز ریجنل رجسٹریشن آفس کی ہدایت کے تحت نادر ایم آر اے روڈ کے پولیس سٹیشن کے احاطے سے باہر نہیں نکل سکتے اور انھیں کسی کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

نادر خان کہتے ہیں کہ ’میرے دو بیٹے ہیں، چھوٹا بیٹا 14 برس کا تھا جب میں نیپال آیا تھا، اب وہ 17 برس کا ہو گیا ہو گا۔ میں تعلیم یافتہ ہوں، میں نے گریجویشن کراچی سے کی اور ایم بی اے مصر سے کیا ہے۔‘

’اس سے پہلے میں کاروبار کے سلسلےمیں کئی ممالک کا سفر کر چکا ہوں ۔ لیکن اس طرح کی صورتحال کا سامنا کبھی نہیں ہوا۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ سے جب نادر خان کی انڈیا میں گرفتاری سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو تحریری طور پر بتایا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو یکم جولائی 2024کو انڈین حکام کی طرف سے مشترکہ قیدیوں کی فہرست کے ذریعے نادر کریم خان کی گرفتاری کے بارے میں باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا تھا۔

اس فہرست میں نادر خان کی تاریخ گرفتاری 12 اپریل 2024 ظاہر کی گئی تھی۔

دفتر خارجہ کے مطابق اس وقت سے مشن قونصلر رسائی کے لیے انڈین حکام سے رابطے میں ہے۔ تاہم قونصلر رسائی کی منظوری کا انتظار ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن قونصلر رسائی کی منظوری اور نادر خان کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق کے بعد ہی سفری دستاویزات جاری کرے گا۔

BBCنادر کا خاندان ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

ممبئی پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ 'سینئیر پولیس افسروں کے حکم کے سبب ہم نادرکو کراچی میں ان کے خاندان سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ نادر نے اپنی فیملی سے آخری بار نومبر 2024 میں بات کی تھی جب انھوں نے اپنی فیملی کو بتایا تھا کہ وہ خیریت سے ہیں اور ممبئی پولیس کے پاس ہیں۔‘

پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ’ہم اکثر دیکھتے ہیں وہ اپنا فون دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کی سکرین پر ان کی بیوی اور دونوں بچوں کی تصویریں ہیں اور تصویریں دیکھتے دیکھتے وہ اکثر رونے لگتے ہیں۔‘

دوسری جانب کراچی میں مقیم نادر کے صاحبزادے سفیان کہتے ہیں کہ ان کے والد نے تقریباً ایک دہائی قبل دوسری شادی کرلی تھی جس کے بعد ان کی والدہ بھی نادر سے خُلا لے چکی ہیں۔

’ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں، 2013 یا 2014 میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ دُبئی چلے گئے ہیں اور پھر وہ 2016 یا 2017 میں واپس آئے۔‘

سفیان کے مطابق ان کے والد کا صرف ان سے کبھی کبھی فون رابطہ رہتا تھا لیکن بڑے عرصے سے وہ بھی نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’گذشتہ برس جب انھوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں انڈیا میں ہوں۔ میں یہ سُن کر حیران رہ گیا تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ سفارتخانے والے تمہیں فون کریں گے، ذرا انھیں میری تفصیلات کی تصدیق کر دینا اور بتا دینا کہ میں تمہارا باپ ہوں۔‘

تاہم سفیان کا کہنا ہے کہ ان سے اب تک پاکستانی یا انڈین حکام میں سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

سیٹھ ناؤمل ہوت چند جن کی مدد سے انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا’امید ہے فلموں میں بھی کام کرنے کا موقع ملے گا‘: ’یوٹیوب گاؤں‘ جہاں سینکڑوں لوگ ویڈیوز بنا کر پیسے کما رہے ہیںپنجاب میں مردہ بزرگوں کے مجسمے: ’لوگوں کے لیے یہ ایک بت ہے لیکن میرے لیے یہ ماں ہے‘پاکستانی چاول کی برآمد میں بڑے اضافے کے بعد اچانک کمی کے پیچھے انڈیا کا کیا کردار ہے؟انسانی بالوں کی اربوں ڈالر کی انڈسٹری: ’لوگ پھینک دیتے ہیں لیکن یہ تو سونا ہے‘غیر قانونی طور پر مقیم ہزاروں انڈین شہری امریکہ کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More