نوکری کے جھانسے میں فراڈ مرکز تک پہنچنے والے پاکستانی: ’1000 ڈالر کمانے پر دس فیصد کمیشن جبکہ ناکامی پر تشدد ہوتا تھا‘

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

Getty Imagesنصیب ساجد جب کمبوڈیا پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ اُن کا کام لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنا ہو گا (فائل فوٹو)

’جب میں پاکستان میں تھا تو بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈیٹا انٹری کا کام ہے۔ مگر جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کال سینٹر کا کام ہے اور کچھ ہی دنوں میں یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ اگر کام سیکھ لیا اور ماہانہ ایک ہزار ڈالر کما کر دو گے تو اس پر دس فیصد کمیشن ملے گا۔ جب میں یہ کام نہیں سیکھ سکا تو انھوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم نے تمھیں ایجنٹ سے خریدا ہے، وہ پیسے واپس کرو۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی نصیب ساجد کا جنھیں گذشتہ سال کے آواخر میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔

لیکن ساجد واحد پاکستانی نہیں جو اس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر کمبوڈیا میں پھنس گئے تھے۔

اتوار (23 فروری) کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے ایک مرکز سے 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بازیاب ہونے والوں میں 50 پاکستانی، 48 انڈین اور 109 تھائی شہری شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر فراڈ کے یہ مراکز کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو سمگل کر کے انھیں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں قائم فراڈ کے مراکز اور غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان غیر قانونی آپریشنز میں ہر سال اربوں ڈالر کا سائبر فراڈ ہوتا ہے اور لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جاتا ہے۔

فیصل آباد کے رہائشی احمد علی کی کہانی بھی ساجد سے ملتی جلتی ہے جنھیں بیرون ملک نوکری کا جھانسہ دے کر کمبوڈیا پہنچایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کمبوڈیا پہنچے تو انھیں کہا گیا کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لوگوں کے بینک اکاؤئنٹس اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات حاصل کرنی ہیں۔ اُن کے مطابق اس سینٹر میں موجود بہت سے لوگ ایسا کرنے میں یعنی لوگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اُن سے یہ کام نہیں ہو سکا۔

احمد علی بھی گذشتہ سال کے آخر میں کمبوڈیا سے ڈی پورٹ ہو کر واپس پہنچے ہیں۔ احمد علی اور نصیب ساجد کی واپسی کے لیے اُن کے اہلخانہ کو بہت کوششیں کرنی پڑی تھیں۔

’ایجنٹ نے کمبوڈیا بھجوانے کے تین لاکھ روپے لیے‘Getty Imagesتھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے مشترکہ کارروائی میں 215 غیر ملکیوں کو سائبر فراڈ سینٹر سے بازیاب کروایا گیا ہے جس میں 50 پاکستانی ہیں (فائل فوٹو)

نصیب ساجد بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلے بھی ان کے علاقے کے کافی افراد ایک ایجنٹ کے ذریعے کمبوڈیا جا چکے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ مذکورہ ایجنٹ سرکاری سکول میں استاد ہیں اور لوگ اُن پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں۔

’مجھے پاکستان میں روزگار نہیں مل رہا تھا اور جب سُنا کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر اور ڈیٹا انٹری کی ملازمتیں دستیاب ہیں تو میں نے اُن سے رابطہ کیا اور تین لاکھ روپے میں ہمارا معاملہ طے ہوا۔ انھوں نے مجھے کمبوڈیا کا ویزہ لگوا کر دینا تھا جبکہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست مجھے خود کرنا تھا۔‘

اُن کے مطابق وہ ستمبر کے مہینے میں کمبوڈیا پہنچے۔ ’کمبوڈیا میں مجھ سے یہ کہ کر پاسپورٹ لے لیا گیا کہ اس پر ایک ماہ کا سیاحتی ویزہ لگا ہوا ہے جسے مستقل ویزہ میں تبدیل کروانا ہے۔‘

ساجد نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں دارالحکومت نوم پنہ کے نواحی علاقے لے گئے جہاں بڑی بڑی عمارتیں موجود تھیں۔

اُن کے مطابق جس عمارت کے کمرے میں انھیں رکھا گیا وہاں پہلے سے چار پاکستانی موجود تھے جبکہ عمارت کے دیگر کمروں میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاوہ وہاں انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر ممالک کے شہری بھی موجود تھے۔

اُن کا کہنا ہے کہ وہاں پہنچ کر انھوں نے محسوس کیا کہ ایک خوف کا عالم تھا۔ ساجد بتاتے ہیں کہ ’پہلے سے موجود پاکستانی کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ میرے کمرے میں موجود پاکستانیوں نے بھی بات نہیں کی، مجھے صرف یہی کہا گیا کہ کچھ دن یہاں رہو تو سب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔‘

’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ دو‘

دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘

’میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘

وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے چند روز مزید کوشش کی مگر دھوکا دہی کا کام نہیں سیکھ سکے جس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

’دھوکا دینے پر کمیشن ملتا تھا‘

انھوں نے بتایا کہ وہاں لائے گئے کئی افراد دھوکا دہی کے اس کام میں ماہر ہو چکے تھے۔ ’اُن کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ اُن میں مختلف ممالک کے لوگ تھے۔‘

ان کے مطابق ’کال سینٹر‘ میں کام کرنے والوں کو کوئی باقاعدہ تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی تھی بلکہ کمیشن ملتا تھا۔ ’ایک ہزار ڈالر پر دس فیصد کمیشن ملتا تھا۔ جو اُن کو کمائی کر دیتا وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے اور اس کو کھانا پینا بھی بہتر دیا جاتا تھا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں روزانہ بریفنگ ہوتی تھی اور بتایا جاتا کہ اب وہ کس ملک کے لوگوں کو کال کریں گے اور کس بینک یا کاروباری ادارے کے نمائندے بنیں گے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ عموماً کم پڑھے لکھے اوربڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان کی جانب سے کیے گئے فراڈ کا شکار بن جاتے تھے جبکہ کئی لوگ انعامات کے لالچ میں بھی پھنس جاتے تھے۔

Getty Imagesاختر علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اوربڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے تھےیہ سب کام کیسے ہوتا تھا؟

اختر علی کے مطابق کال سینٹر سے کی جانے والی کالیں خودکار نظام کے تحت ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں۔

’جیسے ہے کوئی شخص فریب میں آ کر اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاؤئنٹ یا دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔‘

نصیب ساجد کا کہنا ہے وہاں کام کرنے والے کچھ لوگ تجربے کی بنیاد پر اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ وہ شکار کی آواز سُن کر بتا دیتے تھے کہ یہ شخص پھنسے گا یا نہیں۔

’جس کے بارے میں انھیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ نہیں پھنسے گا تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔‘

رہائی کیسے ممکن ہوئی؟

اختر علی بتاتے ہیں کہ کال سینٹر والوں نے انھیں بعدازاں بتایا کہ انھیں ایجنٹ سے دو ہزار ڈالرز میں خریدا تھا۔

’ایک روز انھوں نے بتایا کہ اب تک تم پر پانچ ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، لہذا یہ رقم واپس کرو۔ وہ مجھے اور دیگر کچھ اور افراد کو جو کام نہیں سیکھ پا رہے تھے، سونے نہیں دیتے تھے اور تشدد بھی کرتے تھے۔‘

علی نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں فون دیتے اور گھر والوں کو کال ملانے کا کہتے۔ ’جب ہم فون کرتے تو وہ ہمیں کرنٹ لگاتے اور گھر والوں سے کہتے کہ جلدی پیسے بھجوائیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے پریشان ہو کر وہ پیسے بھجواتے مگر وہاں موجود افراد یہ کہہ کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے کہ ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔

نصیب ساجد کہتے ہیں کہ ناکام ہونے پر انھیں بھی تشدد کا بنایا گیا۔

’اس ہی دوران وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان چلا گیا تھا۔ اُن کی کینیڈا میں موجود ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رضوان خالد چوہدری نے مدد کی تھی۔ اس نے جاتے جاتے پروفیسر کا رابطہ نمبر ہمیں دے دیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نمبر اپنے گھر والوں کو دیا اور انھوں نے پروفسیر ڈاکٹر رضوان کے ذریعے کمبوڈیا کی پولیس سے رابطہ قائم کیا۔

ساجد کے مطابق پہلے انھیں گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا اور پھر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔

Getty Images’جیسے ہے کوئی شخص اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاوئنٹ اور دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاونٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا‘’لڑکیاں بھی مجرموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں‘

پروفیسر ڈاکٹر رضوان یونیورسٹی آف واٹر لو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔

اُن کا کمبوڈیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر سائبر فراڈ کے مراکز میں پھنسے والے افراد سے رابطہ اپنے ایک شاگرد کی توسط سے ہوا جس کا بڑا بھائی اس گروپ کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ کچھ سال قبل اپنے شاگرد کے بھائی کو چھڑانے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک پچاس کے قریب لوگوں کو اس گروہ کے چنگل سے چھڑا چکے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے مگر اس میں انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ گروہ ملازمت اور کام کے بہانے لوگوں کو بلا لیتے ہیں۔ ’جو سائبر فراڈ کر سکتا ہے وہ اسے رکھ لیتے ہیں اور باقاعدہ کمیشن دیتے ہیں مگر جو لوگ اُن کے کام کے نہیں ہوتے وہ اُن کے گھر والوں سے تاوان وصول کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر رضوان کے مطابق ان کی اطلاعات کے مطابق ان سینٹرز میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی خواتین بھی موجود ہیں۔

طاقتور جرائم پیشہ گروہ

ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ اس گروہ کے افراد اپنے جال میں پھنسنے والے غیر ملکی افراد پر اپنی قانونی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’آنے والے شخص سے ایئر پورٹ ہی پر ایک معاہدے پر دستخط کروا لیے جاتے ہیں جس میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کا مقروض ہے۔‘

اُن کے مطابق عموماً لوگ ایئر پورٹ پر اس معاہدے کو غور سے نہیں پڑھتے۔

ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ ان افراد کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جبکہ مضبوط قانونی پوزیشن کے باعث پاکستان سمیت کسی بھی ملک کا سفارتخانہ اس بارے میں اپنے شہریوں کی زیادہ مدد نہیں کر پاتا۔

اُن کا کہنا کہ جن افراد کے بارے میں انھیں اطلاع ملتی ہے وہ ان کی بازیابی کے لیے کمبوڈیا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے علاوہ مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کچھ کینیڈین ارکان پارلیمنٹ کی بھی مدد لیتے ہیں۔

ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ کچھ مرتبہ پاکستانی سفارتخانے کی مدد سے بھی وہاں پھنسے افراد کی رہائی ممکن ہوئی تھی لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے سفارتخانے عموماً اس معاملے میں بے بس ہی ہوتے ہیں۔

اُن کے مطابق ان سینٹرز سے بازیابی کے بعد عموماً اِن افراد کو ویزہ وغیرہ کی خلاف ورزی کے الزام میں جیل جانا پڑتا ہے اور بعدازاں انھیں ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے یہ ایک انتہائی طاقتور گروہ ہیں جو یہ سب دھندا چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق یہ گروہ آبادی سے دور جنگل میں اپنے مراکز قائم کرتے ہیں اور یہ اتنے بااثر ہیں کہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے مشکل سے ہی ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

پاکستانی حکام کا کیا کہنا ہے؟

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کمبوڈیا اور اس کے دارالحکومت نوم پنہ کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر وہاں ملازمتوں کے حوالے سے ایک انتباہی پیغام جاری کر رکھا ہے۔

اس الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے علم میںآیا ہے کہ پاکستان میں کچھ ایجنٹ نوجوانوں کو کمبوڈیا میں ملازمتوں کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی بھی ملازمت کی آفر قبول کرنے سے پہلے کمبوڈیا میں پاکستان کے سفارتخانے سے کمپنی کی لازمی تصدیق کروائیں۔‘ سفارتخانے نے اس ضمن میں ای میل ایڈریس اور فون نمبر بھی فراہم کیے ہیں۔

الرٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی کمپنیاں جعلی ملازمتوں کی تشہیر آن لائن کرتی ہیں جس میں یہ ڈیٹا انٹری، کال سینٹر،مارکیٹنگ اور آن لائن کام وغیرہ کے عوض بہت اچھی تنخواہ کی پیشکش کی جاتی ہے۔

الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ایجنٹ کمبوڈیا کے ویزے کا انتظام کرتے ہیں اور پاکستان سے کمبوڈیا کے فضائی سفر کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور نوم پنہ پہنچنے پر معاہدے پر دھوکے سے کروائے جاتے ہیں اور پھر افراد کو فراڈ کی کمپنیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

ویب سائٹ پر مزید بتایا گیا ہے کہ اس نوعیت کی فراڈ کمپنیوں میں ملازمین سے آن لائن مالیدھوکہ دہی کروائی جاتی ہے اور ایسے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو دھوکا دہی کرنے سے انکار کرتے ہیں جبکہ جو ملازمیں واپس جانا چاہتے ہیں ان سے ہزاروں ڈالرز کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق کسی بھی ایسی نوکری پر آنے سے قبل سفارتخانے سے کمپنی کی ضروری تصدیق لازمی کروائی جائے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More