فلسطین پر اسرائیلی حملے سے تباہی اور مکینوں کی حالت زار کی عکاسی کرتی فلم نے آسکر ایوارڈ جیت لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ’نو ادر لینڈ‘ ایسے کارکنوں کی جدوجہد پر مبنی ہے، جو لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اتوار کو 97ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں اس کو بہترین ڈاکیومینٹری کا انعام دیا گیا۔ یہ فلم فلسطین اور اسرائیل کے فلمسازوں کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ جس میں مغربی کنارے کے اس علاقے کی عکاسی کی گئی ہے جہاں اسرائیلی فوج کی جانب سے لوگوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں اور لوگوں کو جبری طور پر بے دخل کیا جا رہا ہے۔
اس فلم میں انسانی حقوق کے ایک ایسے کارکن کو دکھایا گیا ہے، جو اس علاقے میں ہونے والی تباہی کا کاغذی ریکارڈ رکھنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے جس کو اسرائیلی فوجی ایک ٹریننگ زون کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم اس کی کوششیں تب تک بے ثمر ہی رہتی ہیں جب تک ان کی ایک اسرائیلی صحافی سے دوستی نہیں ہو جاتی جو ان کو اپنی کہانی سامنے لانے میں مدد دیتا ہے۔
ایوارڈ حاصل کرنے پر فلم کے فلسطینی شریک ہدایت کار باسل عدرا اور بووال ابراہام نے عالمی برداری سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطین میں جاری انسانی بحران کی طرف توجہ دے۔
باسل عدرا نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد کہا کہ یہ فلم ہمارے ان حالات کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا ہم کو دہائیوں سے ہے۔
ان کے مطابق ’تقریباً دو ماہ قبل میں والد بنا اور میری خواہش ہے کہ میری بیٹی ویسی زندگی نہ جیے جیسی کہ میں گزار رہا ہوں۔ جہاں ہر وقت تشدد، حملوں اور گھر منہدم کرنے اور جبری طور پر کہیں اور منتقل کرنے کے خطرات موجود رہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطین میں نسل کشی کو روکا جائے۔‘
اسی فلم کے شریک فلمساز یووال ابراہام نے کہا کہ ’میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے اسرائیل کے لوگ صرف اس صورت میں ہی محفوظ رہ سکتے ہیں، جب فلسطینی لوگ بھی محفوظ اور آزاد ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، ہم کو ایک ایسا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جہاں کسی قسم کا امتیاز نہ ہو۔‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ’نو ادر لینڈ‘ کی جانب سے آسکر جیتے جانے کو اہم کامیابی قرار دیا گیا اور فلسطینیوں کے لیے آواز نہ اٹھانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
’نو ادر لینڈ‘ کو فلم فیسٹیول میں بہت سراہا گیا، یہ ٹاپ لیول تک پہنچی تاہم ابھی تک امریکہ کے کسی فلم ڈسٹریبیوٹر نے توجہ نہیں دی۔