Reutersٹرمپ کے منصوبے کا متبادل مصر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جو 91 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں دلکش اماراتی ڈیزائنز ہیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف غزہ کی تعمیر نو کے ایک متبادل منصوبے کی منظوری متوقع ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے غزہ سے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی عرب ممالک میں منتقلی کا منصوبہ پیش کیا تھا۔
ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل مصر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جو 91 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں دلکش اماراتی ڈیزائنز ہیں۔
خیال رہے کہ عرب ممالک نے امریکی منصوبے کی مذمت کی تھی۔
تو کیا تباہ حال غزہ کو اس عرب حمایت یافتہ منصوبے کے ذریعے'بحیرۂ روم کا دبئی' بنایا جائے گا یا امریکی پلان کے تحت غزہ کو 'مشرق وسطیٰ کی ساحلی تفریح گاہ' بنایا جائے گا؟
قاہرہ کا منصوبہ اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس میں محض پراپرٹی کی تعمیر کی بات نہیں کی گئی۔ اس کے بینرز سیاسی نوعیت کے ہیں اور اس میں فلسطینیوں کے حقوق کی بات بھی کی گئی ہے۔
بی بی سی کو منصوبے کے لیک شدہ مسودے کا بیان موصول ہوا ہے جس میں یہ درج ہے کہ غزہ عرب ریاستوں اور فلسطینیوں کی ملکیت ہے۔
اس میں درج ہے کہ یہ منصوبہ 'مصر نے فلسطین اور عرب ممالک کے تعاون سے پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد جامع عرب پلان کے طور پر غزہ کی جلد بحالی اور تعمیر نو کے حوالے سے ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام پر ہونے والی تحقیقات پر رکھی گئی ہے۔'
اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ رہائشیوں کو اپنی اس زمین پر رہنے کا حق دیا گیا ہے جسے ان کے خاندان کی کئی نسلیں اپنا گھر کہتی ہیں۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کو حیرت ہے کہ فلسطینی 'نقل مکانی کیوں نہیں کرنا چاہیں گے؟' وہ غزہ کو ایک تباہ شدہ مقام کے طور پر بیان کرتے ہیں جسے 16 ماہ تک جنگ نے نقصان پہنچایا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد گھر تباہ ہو گئے ہیں یا انھیں بھاری نقصان پہنچا ہے۔ روزمرہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے سکول، ہسپتال، نکاسی آب کا نظام اور بجلی کی لائنز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
لیک شدہ مسودے میں صدر ٹرمپ کے غزہ پر 'قبضے' کے منصوبے کا براہ راست ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کا امریکی پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایسے کسی منصوبے سے مزید تباہی ہو گی۔
اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 'فلسطینیوں کو (غزہ سے) بے دخل کرنے یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی بدنیتی پر مبنی کوششوں سے لڑائی کے نئے مرحلے شروع ہو سکتے ہیں جس سے استحکام کے مواقعوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس سے لڑائی خطے کے دیگر ملکوں میں پھیلے گی اور یہ مشرق وسطیٰ کی امن کی بنیادوں کے لیے واضح خطرہ ہے۔'
BBCکیا تباہ حال غزہ کو اس عرب حمایت یافتہ منصوبے کے ذریعے'بحیرۂ روم کا دبئی' بنایا جائے گا یا امریکی پلان کے تحت غزہ کو 'مشرق وسطیٰ کی ساحلی تفریح گاہ' بنایا جائے گا؟
جب سے امریکی صدر نے اپنے منصوبے پر بات کی ہے تب سے عرب ریاستوں پر شدید دباؤ ہے کہ وہ نہ صرف متبادل پلان پیش کریں بلکہ اس پر عملدرآمد کریں۔
پراپرٹی ڈیویلپرز کو معلوم ہے کہ پریزنٹیشن معنی رکھتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر غزہ کی تعمیر و ترقی سے متعلق مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ویڈیو شائع کی تھی جس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس ویڈیو میں ٹرمپ کا مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس میں ان کے قریبی اتحادی ایلون مسک ساحل پر بیٹھے سنیکس سے لطف و اندوز ہو رہے ہیں۔ ویڈیو میں وہ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو دھوپ سینک رہے ہیں اور ویڈیو میں یہ جملہ درج ہے کہ 'ٹرمپ کا غزہ بالآخر آ گیا ہے۔'
ایک مغربی سفارتکار نے تبصرہ کیا ہے کہ 'ان کے ذہن میں صدر ٹرمپ ضرور ہوں گے۔' وہ قاہرہ میں وزارت خارجہ میں مصری منصوبے کی بریفنگ میں شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ 'چمک دمک سے بھرپور منصوبہ ہے جسے اچھے طریقے سے تیار کیا گیا۔'
قاہرہ کے ترتیب کردہ یہ تعمیر نو کے پلان، جو بی بی سی کو موصول ہوئے، میں سرسبز علاقوں اور اونچی عمارتوں کی تصاویر شامل ہیں۔ خیال ہے کہ اس منصوبے کے لیے ورلڈ بینک میں استحکام و ترقی کے ماہرین اور دبئی کے ہوٹل ڈیویلپرز سے مشاورت کی گئی ہے۔
اس میں ایسے شہروں سے سبق سیکھا گیا جو تباہی کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے، جیسے ہیروشیما، بیروت اور برلن۔
یہ ڈیزائنز مصر کے اپنے تجربات سے بھی متاثرہ ہیں جس کے تحت 'نیا قاہرہ' تعمیر کیا گیا۔ یہ ایسا میگا پروجیکٹ تھا جس میں صحرائی علاقے میں نیا انتظامی دارالحکومت تعمیر کیا گیا اور اس میں تعمیراتی مہارت استعمال ہوئی۔
غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ٹرمپ کا غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ کا منصوبہ: ’یہ پلان کام نہیں کرے گا لیکن اس کوشش کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں‘ متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہغزہ کی تقسیم اور فلسطینی ریاست: مصر اور عرب دنیا کا منصوبہ جس کا دارومدار حماس کے مستقبل پر ہو گا
لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے رقم کہاں سے آئے گی، یہ بڑا مسئلہ ہے۔ مصر نے تجویز دی ہے کہ جلد از جلد بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ تعمیر نو ممکن ہو سکے۔
بظاہر امیر خلیجی ریاستیں اس خطیر رقم کے لیے کچھ حصہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اقوام متحدہ کا انداز ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے قریب 50 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
تاہم کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تب تک تیار نہیں جب تک انھیں یقین نہ ہو جائے کہ ایک اور جنگ میں تمام نئی تعمیرات کو گِرا نہیں دیا جائے گا۔
غزہ میں ایک کمزور جنگ بندی، جو خاتمے کے دہانے پر ہے، اس ہچکچاہٹ کو بڑھائے گی۔
مصر کے وزیر خارجہ بدر عبد العاطی نے اتوار کو کہا کہ 'ہم بڑے ڈونر ممالک سے مشاورت کریں گے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ دنیا بھر کے دارالحکومت اس کے لیے پیسے جمع کرنے میں مدد کریں گے۔
EPAاس نئے منصوبے کے لیے عرب رہنماؤں سے منظوری حاصل کرنا آسان حصہ ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرا حساس پہلو یہ ہے کہ لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کا انتظام کس کے پاس ہو گا۔
ڈرافٹ کے متن کی لیک ہونے والی تفصیلات اور ذرائع کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے ایک عبوری انتظام کی تجویز دی گئی ہے اور ’ایک ایسی کمیٹی بنانے کی بھی جسے فلسطینی حکومت کی چھتری تلے غزہ مینجمنٹ کمیٹی کا نام دیا جائے گا۔‘
بنیامن نیتن یاہو صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو دور رس قرار دیتے ہیں اور بارہا حماس اورفلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی مستقبل میں کسی بھی کردار کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
دستاویز کے مطابق ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی امن دستے تعینات کرے جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔‘
اس نئے منصوبے کے لیے عرب رہنماؤں سے منظوری حاصل کرنا آسان حصہ ہو سکتا ہے۔
حماس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قبول کر چکی ہے کہ غزہ کو چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہو گا، تاہم یہ تنظیم اب بھی غزہ میں فوجی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہے۔
کچھ عرب ریاستیں اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ دوسروں کا خیال ہے کہ ان فیصلوں کو فلسطینیوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ حماس خود کہتی ہے کہ انکے گروپ کو غیر مسلح کرنا ان کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے۔
جہاں تک صدر ٹرمپ کا تعلق ہے، انھوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو کسی پر ’زبردستی‘ مسلط نہیں کریں گے لیکن پھر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان کا منصوبہ وہی ہے جس پر ’واقعی عمل کیا جا سکتا ہے۔‘
غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟سابق اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے تجویز کردہ وہ نقشہ جو مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا وعدہ لے کر آیا تھاحسن نصر اللہ کی تدفین میں ہزاروں حامیوں کی شرکت: وہ شیعہ عالم جنھوں نے حزب اللہ کو لبنان کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور بنایا’قیدیوں کا سردار‘: اسرائیلی جیل میں 45 سال گزارنے والے نائل البرغوثی جنھیں رہا کیے جانے کا امکان ہےیحییٰ سنوار: حماس کے سابق سربراہ کی لاش جسے اسرائیل ’پریشر کارڈ‘ کے طور پر استعمال کر سکتا ہےغزہ کی تقسیم اور فلسطینی ریاست: مصر اور عرب دنیا کا منصوبہ جس کا دارومدار حماس کے مستقبل پر ہو گا