Getty Imagesڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو حماس کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو ’آخری وارننگ‘ دیتے ہوئے غزہ میں یرغمال بنائے گئے تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر جاری ایک پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں اسرائیل کو ہر وہ چیز مہیا کرنے جا رہا ہوں جو اس کام (حماس کو شکست) کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے، اگر جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا نہ ہوا تو حماس کا ایک بھی رکن نہیں بچے گا۔‘
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی تاہم امریکی صدر نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی کہ وہ اسرائیل کو کس قسم کی مدد فراہم کرنے جا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے کہ امریکہ حماس سے قیدیوں کی رہائی کے لیے براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکہ حماس سے براہ راست مذاکرات سے اجتناب کرتا آیا ہے۔ عرصہ دراز سے امریکی انتظامیہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم سے براہ راست بات چیت نہیں کرتے جسے انھوں نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہو۔
53 ارب ڈالر، 20 لاکھ فلسطینیوں کی منتقلی: عرب ممالک کا غزہ کو ’بحیرۂ روم کا دبئی‘ بنانے کا منصوبہ کیا ہے ؟غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟سابق اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے تجویز کردہ وہ نقشہ جو مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا وعدہ لے کر آیا تھا’قیدیوں کا سردار‘: اسرائیلی جیل میں 45 سال گزارنے والے نائل البرغوثی جنھیں رہا کیے جانے کا امکان ہے
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’تمام یرغمالیوں کو رہا کریں، بعد میں نہیں ابھی اور ان تمام افراد کی لاشیں فوراً واپس کی جائیں جنھیں آپ نے قتل کیا، ورنہ آپ کا کھیل ختم۔‘
’(حماس کی) قیادت کے لیے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ غزہ سے نکل جائے۔‘
انھوں نے غزہ کے رہائشیوں کوبظاہر دھمکاتے ہوئے کہا کہ ایک بہترین مستقبل ان کا منتظر ہے لیکن اگر یرغمالیوں کو چھپائیں گے تو آپ مارے جائیں گے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہو۔ اس سے قبل انھوں نے دسمبر میں کہا تھا کہ اگر ان کے عہدہ سنبھالنے تک تمام یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
ٹرمپ کا حالیہ بیان وائٹ ہاؤس میں ان کی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی پانے والے یرغمالیوں سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے براہِ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے آغاز سے قبل اسرائیل سے اس بارے میں مشاورت کی گئی تھی۔
کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ ہر وہ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں جو امریکیوں کے حق میں ہے۔
اں کا مزید کہنا تھا کہ یرغمالیوں کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی جانب سے نک نیتی سے کی گئی کوششیں امریکی عوام کے فائدے کے لیے تھی۔
ایک فلسطینی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس اور امریکی حکام کے درمیان دو براہِ راست ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس سے قبل متعدد رابطے بھی ہوئے تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب بھی غزہ میں 59 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 24 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ ان قیدیوں میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے سب سے پہلے خبر نشریاتی ادارے ایگزیوس نے دی تھی۔ ان کے مطابق فریقین کی قطر میں ملاقات ہوئی تھی جس میں امریکی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ جنگ ختم کرنے کے معاہدے پر بھی بات ہوئی تھی۔
Getty Imagesامریکی انتظامیہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم سے براہ راست بات چیت نہیں کرتے جسے انھوں نے دہشت گرد قرار دیا ہو
مشرق وسطیٰ کے لیے سابق امریکی نائب معاون وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کو اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے ’زیادہ متحرک‘ ہونے کی ضرورت ہے۔
مک ملرائے، جو سی آئی اے افسر بھی رہ چکے ہیں، نے مزید کہا کہ اگر اس سلسلے میں اسرائیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے کام نہ لیا لیا گیا تو اُنھیں اپنے شہریوں کو واپس لانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست بات چیت کے حوالے سے ’اپنا موقف سامنے رکھ دیا ہے‘ لیکن اس بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بوہلر نے حالیہ ہفتوں میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
یاد رہے کہ 2012 سے دوحہ میں حماس کا دفتر موجود ہے۔ مبینہ طور پر وہاں یہ دفتر اوباما انتظامیہ کی درخواست پر قائم کیا گیا تھا۔
قطر ایک چھوٹی لیکن بااثر خلیجی ریاست ہے جو امریکہ کے کلیدی اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ وہاں ایک بڑا امریکی فضائی اڈہ بھی موجود ہے اور اس نے ایران، طالبان اور روس سمیت کئی اہم سیاسی مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
امریکا اور مصر کے ساتھ ساتھ قطر نے بھی غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بات چیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہغزہ کی تقسیم اور فلسطینی ریاست: مصر اور عرب دنیا کا منصوبہ جس کا دارومدار حماس کے مستقبل پر ہو گا’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیںاسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟وہ گاؤں جو اسرائیل نے 200 مرتبہ تباہ کیا مگر آج بھی آباد ہےوحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ