کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے خواہش مندوں کے لیے اچھی خبر سامنے آئی ہے اور اب وہ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر (تقریباً تین کروڑ پاکستانی روپے) میں اس ملک کا ’گولڈن پاسپورٹ‘ حاصل کر سکتے ہیں۔
امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق جس ملک نے یہ اعلان کیا ہے اس کا نام ناؤرو (Nauru) ہے۔ ایک جزیرے پر مشتمل یہ ملک بحرالکاہل میں واقع ہے، یہ ویٹیکن سٹی اور مناکو کے بعد دنیا کی تیسری چھوٹی اور آزاد جمہوریہ ہے۔
اس کا کل رقبہ صرف آٹھ مربع میل ہے۔ اس کی آبادی 13 ہزار پانچ نفوس پر مشتمل ہے۔
اس پر آسٹریلیا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ قابض رہے اور 31 جنوری 1968 کو اسے آزادی ملی۔
بحرالکاہل کے جزائر پر رہنے والے لوگ اس کے اصل باشندے تھے، اس کو سب سے پہلے 1798 میں ایک یورپی شخص جان فیرن نے دریافت کیا تھا۔
اس کے بعد یہ جرمنی کے نوآبادیاتی علاقوں میں شامل رہا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے پاس رہا جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس پر جاپان نے قبضہ کر لیا تھا۔
ناؤرو کے دارالحکومت کا نام یارن ہے۔
رپورٹ کے مطابق ناؤرو کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے شہریت اور گولڈن پاسپورٹ دینے کا سلسلہ اس لیے شروع کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جا سکیں۔
ناؤرو کو سطح سمندر کی بلندی کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے جبکہ طوفانوں اور ساحلی کٹاؤ کے مسائل بھی درپیش ہیں۔
اس چھوٹے سے ملک کو اس موسمیاتی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ بڑے ممالک بنتے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کی جانب سے اقدامات بھی ناکافی ہیں۔
اس کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے خود کو بچانے کے لیے مطلوبہ وسائل دستیاب نہیں ہیں۔
ناؤرو کی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت فروخت کیے جانے سے جو رقم حاصل ہو گی وہ تقریباً 90 فیصد آبادی کو اونچی سطح پر منتقل کرنے میں مدد دے گی جبکہ عوام کے لیے نئے سرے سے مزید محفوظ مقامات بھی بنائے جا سکیں گے۔
ناؤرو کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے (فائل فوٹو: سی این این)
گولڈن پاسپورٹ کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم ان کو متنازع سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ان کو جرائم پیشہ افراد نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، تاہم اب بھی ایسے ترقی پذیر ممالک ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے خود کو بچانے کے لیے مختلف ذرائع سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے پلان سے امریکہ کے الگ ہو جانے سے یہ صورت حال مزید گھمبیر ہونے کا امکان ہے اور خطرات سے دوچار ممالک نقد رقوم کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ناؤرو کے صدر ڈیوڈ ایڈنگ نے سی این این کو بتایا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے منصوبہ بندی کی بات کر رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے ملک کے مستقبل کے لیے بھرپور قدم اٹھانے چاہییں۔‘
گولڈن پاسپورٹ کی قیمت ایک لاکھ پانچ ہزار ہو گی، تاہم یہ ان لوگوں کو جاری نہیں ہوں گے جو کبھی کسی جرم میں ملوث رہے ہوں یا مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہوں۔
ناؤرو کا پاسپورٹ 89 ملکوں تک رسائی دیتا ہے، جن میں برطانیہ، ہانگ کانگ، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
ناؤرو کا گولڈن پاسپورٹ 89 ملکوں تک رسائی دیتا ہے، جن میں برطانیہ، ہانگ کانگ، سنگاپور اور امارات شامل ہیں (فائل فوٹو: سی این این)
لندن سکول آف اکنامکس میں پولیٹیکل سوشیالوجی کے پروفیسر اور ’گولڈ پاسپورٹ، گلوبل موبیلیٹی فار ملینیئرز‘ کی مصنفہ کرسٹن سوراک نے سی این این کو بتایا کہ یہ پاسپورٹ حاصل کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ناورو کے دور دراز علاقوں کی سیر بھی کر سکتے ہیں لیکن شہریت ان لوگوں کے لیے مفید ہو سکتی ہے جن کے پاس ایسے ممالک کے پاسپورٹ ہیں، جن کی رسائی پابندیوں کی وجہ سے محدود ہے۔
اس پروگرام کو جزیرے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک اقدام کے طور پر پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ تاریخ میں بہت سی مشکلات سے گزرا۔
19 ویں صدی کے اوائل میں یہاں فاسفیٹ نکالنے کے لیے کھدائی کی جاتی تھی اور تقریباً ایک صدی اس کو کان کنوں نے گھیرے رکھا، جس سے جزیرہ بنجر ہو کر رہ گیا۔
اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ ساحلی علاقے کی طرف منتقل ہوئے اور اب 80 فیصد لوگ وہیں پر موجود ہے، موجودہ وقت میں ان کو سطح آب بڑھنے سے خطرات کا سامنا ہے، جو دنیا کے دیگر حصوں کی نسبت یہاں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔