Getty Images
انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں تاہم ایتھن کروس بچپن سے ہی نہ صرف ان کا مطالعہ کرتے آئے ہیں بلکہ وہ یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ لوگ کیسے مشکل صورتحال سے نمٹتے ہیں اور زندگی کی بڑی الجھنوں سے نکلنے کے آسان گر بھی ان کا موضوع رہا ہے۔
کروس کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے ہم لڑکھڑاتے ہوئے زندگی کا یہ راستہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے درمیان کبھی کبھار ہم اتفاقی یا حادثاتی طور پر کچھ ایسے طریقے دریافت کر لیتے ہیں جن سے ہمیں اپنے جذبات پر قابو پانے میں مدد مل جاتی ہے۔
کروس کے مطابق یہ تمام طریقے کافی بے ترتیب اور غیر موثر تھے۔
’کبھی یہ طریقے کام کرتے، کبھی یہ معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیتے۔‘
مشی گن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات کو امید ہے کہ ان کی نئی کتاب ’ شفٹ: ہاو ٹو منیج یور اموشنز سو دے ڈونٹ منیج یو)‘ اس صورتحال کو بدلنے میں کامیاب ہو گی اور لوگوں کو ایسے طریقوں سے روشناس کروائے گی جن سے انھیں اپنے جذبات پر مثبت انداز میں قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ڈیوڈ رابسن سے کروس نے اپنی گفتگو میں ’منفی‘ احساسات کے فوائد، سیف سپیسس بنانے اور خلفشار کے حیرت انگیز فوائد کے بارے میں بات کی ہے۔
زندگی گزارنے کے یہ گُر ہم آپ کے لیے انھی کی زبانی ذیل میں شامل کر رہے ہیں۔
جذبات کے بارے میں سب سے عام غلط فہمیاں کیا ہیں؟
ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ جذبات اچھے اور برے ہوتے ہیں اور یہ کہ ہمیں تمام برے جذبات سے پاک زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے، یہ تصور غلط ہے۔
’جہاں تک میرا تعلق ہے، کوئی وجہ ہے کہ انسان نے ان تمام جذبات کو محسوس کرنے کی صلاحیت پائی ہے۔ اگر موقع ملے تو غصہ ہمیں کسی ناانصافی کی تلافی کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ اداسی ہمیں خود شناسی کی طرف لے جا سکتی ہے اور ان حالات کے نئے معنی سمجھا سکتی ہے جو بنیادی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ‘
کروس کے مطابق حسد ہمیں ان چیزوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے جن کی ہمارے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اگر صحیح تناسب میں ہوں تو تمام جذبات کارآمد ہیں۔
Getty Images
اس کو جسمانی درد کے احساس سے ثابت کیا جا سکتا ہے جسے ہم عام طور پر ایک منفی احساس کے طور پر لیتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایسی زندگی کی خواہش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی جسمانی تکلیف نہ ہو۔ لیکن کچھ لوگ جینیاتی وجوہات کی بنا پر پیدائشی طور پر کسی بھی طرح کے جسمانی درد کو محسوس نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسے بچے درد محسوس کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں کم عمری میں مر جاتے ہیں۔
اگر ایسے کسی بچے کا ہاتھ آگ میں آ جائے تو دماغ انھیں فوری طور پر ہاتھ وہاں سے ہٹا لینے کا سگنل نہیں بھیجتا۔ یہی اصول ہمارے تمام منفی جذبات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
لوگ اکثر یہ جان کر خوش ہوتے ہیں کہ انھیں زندگی کے منفی پہلوؤں سے بچنے کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن جو چیز آپ کو اصل میں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہ ان منفی جذباتوں پر قابو رکھنا ہے اور میرے خیال میں یہ ایک قابل عمل مقصد ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے جذبات ان کے قابو میں نہیں ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ شکست خوردہ رویہ کہاں سے آتا ہے؟ اور اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں کروس کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس کا انحصار ہمارے جذباتی تجربات پر ہے۔ اکثر ہمارا ان خیالات اور احساسات پر کنٹرول نہیں ہوتا جو خود بخود متحرک ہو جاتے ہیں۔ تاہم ہم اس بات پر کنٹرول کر سکتے ہیں کہ ہم ان خیالات اور احساسات کے فعال ہونے کے بعد ان کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ یہیں اپنے جذبات پر قابو پانے کا ہنر کام آ سکتا ہے۔‘
لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو آپ اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کو نہیں لگتا کہ ورزش سے آپ زیادہ فٹ رہیں گے تو آپ ورزش کیوں کریں گے؟ اور اگر آپ کے خیال میں آپ مختلف طریقوں پر عمل کر کے اپنے جذبات کو پر قابو نہیں پا سکتے تو آپ ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے۔
موسیقی بھی جذبات پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کا استعمال کافی کم ہے۔ اگر آپ لوگوں سے سوال کریں کہ وہ موسیقی کیوں سنتے ہیں تو تقریباً 100 فیصد لوگوں کا جواب ہوگا کہ انھیں وہ احساس پسند ہے جو انھیں موسیقی سن کر ہوتا ہے۔
لیکن اگر آپ اس بات پر غور کریں کہ لوگوں کی ایک معمولی تعداد ہی اپنے جذبات قابو پانے اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے موسیقی کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ ان ’شفٹرز‘ کی محض ایک کٹیگری ہے جنھیں استعمال کر کے آپ اپنے جذبات پر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ایک بار جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں تو آپ ان کو اپنی زندگی میں بہتر طریقے سے استعمال کرسکیں گے۔
جیسا کہ بہت سے لوگ کام کاج اور اپنی روز مرہ کی زندگی سے دور کسی جگہ جا کر خود کو تازہ دم محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آپ ہر وقت چھٹیوں پر نہیں جا سکتے۔ اسی لیے میں لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ان کے آس پاس بھی کئی ایسی جگہیں موجود ہوں گی جو ہمارے موڈ بہتر کر سکتی ہیں۔
ہم کچھ لوگوں کے بہت نزدیک ہوتے ہیں اور جب زندگی ٹھیک نہیں چل رہی ہوتی تو ایسی شخصیت کی قربت سکون اور آسودگی فراہم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں کئی جگہوں سے بھی انسیت پیدا ہو جاتی ہے۔
’میرے لیے ان میں میرے گھر کے قریب واقع آربوریٹم، وہ ٹی ہاؤس جہاں میں نے اپنی پہلی کتاب لکھی اور یونیورسٹی کیمپس میں واقع میرا دفتر شامل ہے۔ جب میں ان جگہوں پر موجود ہوتا ہوں، تو وہاں سے منسلک میری مثبت یادیں مجھے اپنے جذبات پر قابو پانے میں مدد دیتی ہیں۔‘
Getty Images
مجھے لگتا ہے کہ یہ ان سیف ہاؤسز سے زیادہ مختلف نہیں جو جاسوسی فلموں یا کتابوں میں ہوتے ہیں۔ ہم سب کی زندگیوں میں ایسے سیف ہاؤسز موجود ہوتے ہیں، اور جب ہم مشکل سے گزر رہے ہوں تو ہمیں ایسی جگہوں کا سہارا لینا چاہیے۔
ہم اپنے لیے ایک پرسکون ماحول خود بھی بنا سکتے ہیں۔ ہمیں پیڑ، پودوں اور سبز جگہوں کی تصاویر کافی پرسکون احساس دیتی ہیں۔
اسی طرح اپنے پیاروں کی تصاویر بھی ہمیں بہتر محسوس کرواتی ہیں۔ ہم نے ایک تحقیق کے دوران لوگوں کو اس وقت ان کے پیاروں کی تصاویر دکھائیں جب وہ کسی مسئلے سے نبردآزما تھے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے سنبھلنے کی رفتار میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
محبت صرف ایک جذبہ یا انسانی جسم اس کی شدت محسوس بھی کر سکتا ہے؟مبالغہ آمیز تعریفیں اور تحائف: ’محبت کی بمباری‘ کی نشانیاں جو خطرے کی علامت ہیں کیا آپ واقعی کسی سے محبت کرتے ہیں یا یہ صرف ہوس ہے؟ فرق کیسے معلوم کیا جائے’جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں‘: نعمتوں کی فہرست بنانے سمیت وہ چیزیں جو آپ کو خوش رکھ سکتی ہیں
تو کیا ہمیں اس بارے میں زیادہ دھیان دینا چاہیے کہ ہم اپنے احساسات کو بدلنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم خود کو قسمت کے حال پر چھوڑ دیں؟
کروس کہتے ہیں کہ ’اس کتاب سے مجھے ایک امید یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر لوگ ان طریقوں کو اپنی زندگیوں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول کر کے کسی چیز کے بارے میں نہ سوچنے کی کوشش کو عام طور پر اپنے احساسات سے نمٹنے کے ایک غیر صحت بخش طریقے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چیزوں سے دائمی طور پر گریز کرنا منفی نتائج کا سبب بنتا ہے اور میں کسی کو یہ طریقہ اپنانے کو نہیں کہوں گا۔
لیکن ہمیں اپنے جذبات کے قریب جانے یا ان سے گریز کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم ایک لچکدار رویہ اپنا سکتے ہیں اور ان دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایسے افراد جو اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور انھیں دبانے دونوں میں کامیاب رہتے ہیں وہ بہتر زندگی گزارتے ہیں۔
اس کو آپ ایسے دیکھ سکتے ہیں، فرض کریں کسی بات سے آپ کے جذبات متحرک ہو جاتے ہیں۔ آپ کسی کے ساتھ ہونے والی بحث کے بارے میں جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اسکا ایک حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے کو اسی وقت حل کر لیا جائے۔ لیکن اس صورتحال کے بارے میں سوچنے یا اس کا سامنا کرنے کے لیے کچھ وقت نکالنا بھی اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
میں ایک ایسا شخص ہوں جو مسئلے کا اسی سامنا کر کے اس کی تہہ تک پہنچ کر آگے بڑھ جانے پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی مجھے ایک دن کے لیے اس مسئلے سے مکمل طور پر دھیان ہٹا کر کسی غیر متعلقہ چیز میں مشغول ہونے کے بعد پھر مسئلہ کی طرف دوبارہ رجوع کرنے سے فائدہ ہوا ہے۔
وقفہ لینے کے بعد شاید میں محسوس کروں کہ یہ تو سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں، یا مجھے احساس ہوگا کہ مسئلے کی شدت کم ہو گئی ہے اور میں اسے ایک وسیع نقطہ نظر سے دیکھ سکتا ہوں۔
خوشیوں کا قتل کرنے والے سماجی موازنے کے احساس سے کیسے بچا جائے؟
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ہمیں دوسروں سے اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ گڈ لک!
ہم ایک سماجی نوع ہیں، دنیا میں ہم کیسے اپنے مقام اور حیثیت کا تعین کرتے ہیں اس کا ایک حصہ خود کا دوسروں سے موازنہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہم اکثر اس قسم کے موازنے میں مشغول رہتے ہیں جس سے ہمیں اکثر خود کے بارے میں برا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آپ اسے ایسے ترتیب دے سکتے ہیں جس سے موازنہ آپ کے خلاف ہونے کی بجائے آپ حق میں دکھے گا۔
اگر مجھے پتہ چلتا ہے کہ کوئی مجھ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو میں اپنے آپ سے کہہ سکتا ہوں، ٹھیک ہے، اگر وہ اسے حاصل کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کر سکتا؟ اس کے بعد وہ موازنہ ایک ہدف میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے میں نشانہ بنا سکتا ہوں۔
کیا آپ کے پاس کوئی پسندیدہ حکمت عملی ہے جسے آپ عام طور پر مشکل کے وقت اپناتے ہیں؟
کروس نے بتایا کہ ’جب میں کسی مشکل سے گزر رہا ہوتا ہوں، تو میرا پہلا دفاعی نظام خود سے بات کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے
میں اپنا نام لے کر خود کو ایسے مخاطب کرتا ہوں کہ جیسے میں کسی دوست کو مشورہ دے رہا ہوں۔ پھر میں ذہنی طور پر خود کو مستقبل میں رکھ کر سوچتا ہوں کہ 'اب سے ایک دن، 10 دن، 10 ماہ بعد میں اس بارے میں کیسا محسوس کروں گا؟‘ اور اس کے بعد میں وقت میں پیچھے بھی جاتا ہوں اور اس مسئلے کا موازنہ ماضی میں پیش آنے والی مشکلات سے کرتا ہوں۔
اکثر اوقات یہ طریقے مجھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں میں جذباتی طور پر پہنچنا چاہتا ہوں۔ لیکن اگر اس سے کام نہیں چلتا تو میں اپنے جذباتی مشیروں کے پاس جاتا ہوں۔
میرے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ سے ہمدردی کرتے ہیں اور مشورہ دینے کے قابل ہیں۔ اور میں کسی سبز جگہ پر سیر کے لیے جاؤں گا یا ان جگہوں پر جاؤں گا جہاں میں خود کو محفوظ سمجھتا ہوں۔
روٹی ’دو وقت کی‘ لیکن کھانے کے اوقات تین: دن میں کتنی بار کھائیں اور کتنی دیر بھوکے رہیںوہ پانچ غذائیں جو جسمانی تھکاوٹ اور سُستی کا خاتمہ کرتی ہیںمیٹھا کھانے کی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے اور اسے کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟’میں اکیلی نہیں، خوش ہوں‘: وہ لوگ جو سماجی دباؤ کے باوجود شادی نہیں کرتےکہیں آپ کے بچے بے جا پابندیوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تو نہیں؟کیا ذہنی بیماری کو سزا سے بچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟