پابندی کے باوجود پتنگ باز سرکاری اداروں کو چکمہ دے کر پتنگ کیسے اڑاتے ہیں؟  

اردو نیوز  |  Mar 10, 2025

لاہور میں عموماً فروری کے اختتام یا مارچ کے شروع میں موسمِ بہار کی آمد پر بسنت کا روایتی تہوار منایا جاتا تھا، مگر سال 2007  میں بسنت منانے اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد بسنت پر سے پابندی ہٹانے کی کوشش تو کی گئی مگر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ 

لاہور کے رہائشی تاثیر احمد (فرضی نام) ایک پرجوش پتنگ باز تھے، اور پورا سال بسنت کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ پتنگ اڑانے کا شوق پورا کر سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اُن دنوں موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی نیلے آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں نظر آنے لگتی تھیں مگر اب یہ سب رنگ ماند پڑ چکے ہیں۔‘ 

انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں پتنگ اُڑانا اب آسان نہیں رہا لیکن ہم چند دوست اب بھی کسی نہ کسی طور پر پتنگ بازی سے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں۔‘ 

تاثیر احمد اور ان کے ساتھی اپنے محلے کے ماہر پتنگ باز مانے جاتے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھیوں کی پتنگیں آسمان پر دور ہی سے پہچان لی جاتی تھیں, لیکن گزشتہ کئی برسوں سے حکومتی کریک ڈاؤن کے سبب انہیں اپنا یہ شوق پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

’پتنگ اڑانے سے روکنے پر مامور پولیس اہلکار خود بھی پتنگ اڑاتے ہیں‘ 

تاثیر احمد اب بھی پتنگ بازی کا شوق پورا کرنے اور بسنت منانے کے لیے کسی نہ کسی طور پر اندرون لاہور یا پھر پنجاب کے ضلع قصور کا رُخ کرتے ہیں جہاں لاہور کے اندرون شہر کی طرح ہی بسنت پر خوب رونق ہوتی ہے اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پتنگ بازی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ 

ان کے مطابق، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی نہ کسی طور پر چکما دے کر یا پھر اُن کو اپنے ساتھ ملا کر بسنت منا لیتے ہیں کیونکہ اُن (پولیس اہل کاروں) کی بھی بسنت سے خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔

’کچھ تو خود بھی پتنگ بازی کرتے ہیں تو یوں ہم کسی نہ کسی طور پر بسنت منا لیتے ہیں۔ راولپنڈی میں ہمارے دوست پولیس سٹیشن کے سامنے اپنے گھر سے پتنگ بازی کرتے ہیں مگر اُنہوں نے چونکہ پولیس کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے ہوئے ہیں تو ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔‘

پتنگ کی ڈور کے باعث کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیرنگ برنگی پتنگوں اور ڈور کا زیادہ تر کاروبار اندرون لاہور میں موچی اور لوہاری دروازے میں ہوا کرتا تھا۔ ایک وقت تھا جب اعظم مارکیٹ میں پتنگوں کی بہار آئی ہوتی تھی مگر اب ڈھونڈنے سے بھی کوئی دکان نہیں ملتی تاہم چند لوگ تمام تر پابندیوں کے باوجود اپنا کاروبار کرنے کے علاوہ بسنت کے تہوار کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی کوشش کر رہے ہیں۔ 

پتنگوں کی سمگلنگ اور آن لائن ڈیلنگ 

ان میں ہی اعظم مارکیٹ کے نور عالم (فرضی نام) بھی شامل ہیں جو آن لائن پتنگیں اور چرخیاں فروخت کرتے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم کہیں سے مال منگوا نہیں سکتے اور نہ ہی اس کی تیاری کے لیے مشینری لگا سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم ہری پور کے چند دوستوں کی مدد لیتے ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ ہری پور سے ہم پتنگوں کی سمگلنگ کرتے ہیں۔ یہ کام بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہری پور سے بھی آن لائن ڈیلنگ ہوتی ہے اور پھر یہاں چند پرانے گاہک ہیں جو سالہا سال سے بسنت منا رہے ہیں۔ ان سے ہمارا رابطہ قائم رہتا ہے۔ ہمارے چند لڑکے رات کو ان کو پتنگیں اور ڈوریں پہنچاتے ہیں۔ یہ کام دن کو بھی کیا جاتا ہے لیکن ہم احتیاطاً رات کا انتخاب کرتے ہیں۔‘ 

نور عالم نے اپنے موبائل فون میں مختلف واٹس ایپ گروپ بھی دکھائے، جن میں لوگ ان سے پتنگوں سے متعلق ڈیمانڈ کر رہے تھے اور وہ ان کو تصاویر بھیج رہے تھے۔ 

بسنت کے تہوار پر پابندی کی وجہ دھاتی اور کیمیکل ڈور سے اموات کی بڑھتی ہوئی شرح تھی۔ کئی موٹر سائیکل سوار اور شہری ڈور پھرنے سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ان میں ایک محمد مصطفیٰ بھی ہیں۔ تین برس قبل لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے قریب موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ڈور پھرنے سے ان کی پنڈلی زخمی ہو گئی تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر ڈور سے گلے کٹنے کی شکایات اور واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن میں خوش قسمت تھا کیونکہ ڈور سڑک پر پڑی تھی اور اس کا ایک سرا کہیں اُلجھا ہوا تھا۔ میری بائیک جیسے ہی قریب پہنچی تو ڈور میری ٹانگ سے لپٹ گئی اور میری پنڈلی زخمی ہوگئی۔‘

تاہم محمد مصطفیٰ نے بروقت اپنا علاج کروایا اور وہ اب صحت مند ہیں۔ 

سال 2007  میں بسنت منانے اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پیلاہور میں پتنگ بازی پر پابندی کے حوالے سے انتظامیہ متحرک رہی ہے مگر پنجاب کے دیگر شہروں میں کچھ برس قبل تک پورے جوش و خروش کے ساتھ بسنت منائی جاتی تھی جس کی وجہ سے بسنت کے دنوں میں لاہور سے بہت سارے پتنگ باز قصور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور جڑواں شہروں کا رُخ کیا کرتے۔

راولپنڈی میں بھی کچھ عرصہ قبل تک بسنت کے موقع پر آسمان پتنگوں سے بھر جاتا تھا تاہم حکومتی پابندیوں کے باعث اب پتنگ بازی کرنا آسان نہیں رہا۔ ان حالات میں بھی پتنگ باز اپنا شوق پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔ راولپنڈی کے علاقوں ڈھوک کالا خان، صادق آباد، ڈھوک کھبہ اور راجہ بازار سمیت کچھ دیگر علاقوں میں کم تعداد میں ہی سہی لیکن پتنگ بازی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ 

صادق آباد کے 22 سالہ نوجوان راجہ عمیر کا بچپن اور لڑکپن پتنگ بازی کرتے ہوئے گزرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’دوستوں کے ہمراہ اب پتنگ بازی کے مقابلوں (بسنت) میں حصہ لینا تو مشکل ہو گیا ہے تاہم پولیس کی نظروں سے بچتے ہوئے اب بھی بنی اور راجہ بازار سے پتنگ بازی کا سامان مل جاتا ہے یا پھر ہمارے دوستوں میں سے کوئی نہ کوئی پتنگ گھر پر ہی بنا لیتا ہے اور ہفتے میں ایک بار تو پتنگ اڑا ہی لیتے ہیں۔‘ 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں بھارہ کہو، ترامڑی اور کھنہ پل وغیرہ میں بچے اور نوجوان اب بھی پتنگ بازی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 

انتظامیہ کی جانب سے سختی کے باوجود اسلام آباد میں پتنگ بازی کا سامان کہاں سے ملتا ہے؟ 

بھارہ کہو کے رہائشی عمر عباسی (فرضی نام) پتنگ بازی کا شوق رکھتے ہیں۔ اس شوق کو پورا کرتے ہوئے دو بار پولیس نے بھی انہیں پکڑا لیکن اب بھی موقع ملتے ہی پتنگ اڑانے کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں کو پتنگ بازی کا سامان فروخت بھی کرتے ہیں۔ 

اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’انتظامیہ  کی سختی کہنے کو تو بہت ہےم مگر عملی طور پر اتنی زیادہ نہیں اور بسا اوقات تو بھارہ کہو سے بھی پتنگ بازی کا سامان مل جاتا ہے اور راولپنڈی نہیں جانا پڑتا۔‘ 

موسمِ بہار کی آمد پر بسنت کا روایتی تہوار زور و شور سے منایا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پیاسلام آباد کے سیکٹر جی 6 کی دھوبی گھاٹ کالونی کے رہائشی کبیر خان (فرضی نام) بھی ماضی میں پتنگ بازی کا سامان فروخت کیا کرتے تھے، اور شہر کے مختلف علاقوں سے نوجوان پتنگیں خریدنے کے لیے اُن کے پاس آتے تھے۔ 

اُنہوں نے حالیہ دنوں کے دوران اسلام آباد میں پتنگ بازی کے رجحان کے بارے میں بتایا کہ ’آپ اب سرعام کسی میدان یا چوراہے میں کھڑے ہو کر تو پتنگ نہیں اڑا سکتے لیکن اب بھی موقع محل دیکھ کر اپنے گھر کی چھت پر پتنگ اڑائی جا سکتی ہے۔‘ 

کبیر خان اب بڑی تعداد میں پتنگ بازی کا سامان تو فروخت نہیں کرتے البتہ ہفتے میں دو چار بار پتنگ بازی کا سامان کسی نہ کسی طور پر اُن تک پہنچ جاتا ہے جو وہ خود اُڑا لیتے ہیں یا دوستوں کو مفت میں دے دیتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ’ان کو پتنگیں لینے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور وہ یہ خود ہی بنا لیتے ہیں۔‘ 

واضح رہے کہ حکومت نے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں پتنگ اڑانے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں پولیس مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے پتنگ فروخت کرنے اور اڑانے والے افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لا رہی ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More