پنجاب میں تجاوزات کے خلاف آپریشن، بازار کیسے دِکھ رہے ہیں؟

اردو نیوز  |  Mar 10, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پچھلے کچھ مہینوں سے تجاوزات کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا آپریشن اب بھی جاری ہے۔ بڑے شہروں میں بازاروں کی شکلیں بدل چکی ہیں۔ اگر آپ لاہور کی انار کلی میں خریداری کے لیے ماضی میں جا چکے ہیں تو اب کی بار جب آپ جائیں گے تو شاید آپ کو پہلا تاثر ملے کہ یہ انارکلی ہے ہی نہیں۔

بازار کے بالکل درمیان میں جہاں سینکڑوں لوگ ’موبائل‘ دکانیں سجائے بیٹھے تھے، اور جہاں دن میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اب وہاں گاڑیاں، رکشے اور موٹرسائیکل کھڑے ہیں۔

دکانداروں کو دکانوں کے باہر بھی سامان رکھنے کی اجازت نہیں۔ انارکلی میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب بائبل سوسائٹی کے دفتر کے ساتھ ساتھ چرچ کی دیوار کے ساتھ اشیا لٹکا کر بیچنے والے اب بھی آپ کو نظر آئیں گے کیونکہ اس طرف کوئی دکان ہے ہی نہیں۔ جبکہ بازار میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف دکانوں کی قطار ہے جن کو گہرا نیلا رنگ کر دیا گیا ہے۔

اس سے آگے جہاں نیو انارکلی کا بازار شروع ہوتا ہے وہاں ہر دکان پر بورڈ سجا دیے گئے ہیں۔ درمیان میں اڈے لگانے والے اٹھا دیے گئے ہیں، البتہ اب بازار کے درمیان میں موٹرسائیکلوں کی پارکنگ ہے۔

انارکلی کے بازار میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی پارکنگ دیکھنے میں بالکل بھی اچھا تاثر نہیں ہے۔ سینکڑوں لوگ یہاں چھابڑیاں لگا کر سامان بیچتے تھے۔

یہ چھابڑی والے کون تھے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ انارکلی اور لاہور کے دیگر بازاروں میں موبائل دکان چلانے والوں کی کہانیاں اور کلچر مختلف تھے۔ اچھرہ بازار جو لاہور کے سب سے گنجان بازاروں میں شمار ہوتا ہے وہاں داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بازار کھلا ہے اور دکانیں سیدھی قطار میں نظر آتی ہیں۔ یہاں سے بھی سینکڑوں چھابڑی والے غائب ہو چکے ہیں۔

انار کلی کے تاجروں سے جب بات ہوئی تو ایک تاجر حمزہ نے بتایا کہ ’یہاں پر زیادہ تر خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے لوگ ریڑھیاں یا چھابڑیاں لگا کر کام کرتے تھے۔ کوئی لکی مروت سے ، کوئی سوات اور گلگت بلتستان۔ وہ جہاں بیٹھتے تھے، اس دکان والے کو کرایہ دیتے تھے۔ وہ روز اپنا سامان ساتھ ہی لے جاتے تھے۔ انہوں نے کمرے کرائے پر لے رکھے تھے۔ یہ ایک طرح کا کلچر تھا۔ لیکن اب یہاں سب بدل گیا ہے۔‘

دکانداروں کو دکانوں کے باہر بھی سامان رکھنے کی اجازت نہیں۔ (فوٹو: فیس بک)انہوں نے بتایا کہ ’عام طور پر ایک چھابڑی کا کرایہ 15 ہزار سے 30 ہزار تک تھا۔ اور لاہور کے مضافات سے آ کر کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ اب ہمیں نہیں پتا وہ کہاں گئے ہیں۔ جب سے کارپوریشن نے آپریشن کیا ہے اب ادھر کوئی نہیں آتا۔ کیونکہ کچھ لوگوں نے آپریشن کے بعد آںے کی کوشش کی تو ان کے سامان ضبط کر لیے گئے۔‘

اچھرہ بازار کی صورتحال مختلف ہے، وہاں کے ایک تاجر علی نے بتایا کہ ’یہاں تو لوگ زیادہ تر مضافات سے آتے تھے۔ کامونکی تک سے لوگ روزانہ اپنی موٹرسائیکلوں پر سامان لاد کر لاتےاور رات گئے واپس چلے جاتے۔ یہاں پر تو ایک دکان کے آگے 50 ہزار سے لاکھ روپے پر جگہ کرائے پر لے کر وہ بیٹھتے تھے۔ لیکن اب وہ غائب ہو چکے ہیں۔ میں دس سال سے یہاں ہوں اور پہلی دفعہ اس بازار کو میں نے ایسے کشادہ دیکھا ہے۔ ہمیں تو بہت اچھا لگ رہا ہے۔ پہلے بھی آپریشن ہوتے تھے۔ لیکن اب تو چھ مہینے سے ایسا ہی ہے جیسے یہاں کے قانون ہی بدل چکے ہیں۔‘

لاہور کے شاہ عالمی جیسی ہول سیلر بازاروں کی حالت بھی بدل چکی ہے۔ جو کہ بظاہر ایک ناممکن کام تھا۔ اسی طرح شہر کے نسبتا پوش علاقوں میں بنی مارکیٹس جن میں برکت مارکیٹ، مون مارکیٹ، کریم بلاک مارکیٹ جیسے علاقے بھی اب مختلف منظر پیش کر رہے ہیں، حتیٰ کہ رات کے وقت کھابوں کے لیے مشہور جگہوں میں بھی اب ہوٹلوں کے اندر ہی کھانا پیش کیا جا رہا ہے۔ کئی دکانداروں سے بات چیت کے بعد یہ بات سمجھ آئی، کہ وہ اس بات کی توقع نہیں کر رہے تھے کہ سختی اتنی لمبا عرصہ چلے گی۔ آپریشن اس سے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ہفتے دو ہفتے بعد صورتحال نارمل ہو جاتی تھی۔ اب کی بار ایسی صورتحال نہیں ہے۔

ایسی صورتحال پنجاب کے دیگر بڑے شہروں کی بھی ہے۔ خاص طور پر فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں بھی بازاروں کی شکلیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اور اس ساری صورتحال پر ری ایکشن تین طرح کا ہے۔ عوام کی بات کریں تو وہ بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ دکانداروں کی بات کریں تو یہاں ملا جلا رجحان ہے۔ جو اپنی دکان کے سامنے جگہ کرائے پر دیتے تھے وہ خوش نہیں ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے تھے وہ خوش ہیں۔

پنجاب کے طول و عرض میں جاری تجاوزات سے متعلق آپریشن پر کئی سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ (فوٹو:فیس بک)تیسرے وہ لوگ ہیں جن کا سارا کاروبار ہی اسی بات پر تھا کہ وہ ریڑھی یا چھابڑی لگا رہے تھے یا کسی بھی طریقے سے موبائل طریقے سے اپنا سامان بیچ رہے تھے۔

آپریشن میں سیاسی مداخلتپنجاب کے طول و عرض میں جاری تجاوزات سے متعلق آپریشن پر کئی سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ اور حکمراں جماعت سے وابستہ مقامی سیاستدان اپنا سکور بھی سیٹل کر رہے ہیں۔ پنجاب میں اب تک سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع گجرات کا شہر ڈنگہ ہے۔ جہاں پر تھانہ بازار کو تقریباً مسمار کر دیا گیا ہے۔

اس بازار میں میڈیکل سٹور چلانے والے محمد رفاقت نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلدیہ کے مطابق سرکاری بازار کی چوڑائی 88 فٹ تھی۔ اور اب جب آپریشن کیا گیا ہے تو 40 دکانیں تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہیں۔ اسی طرح ڈیڑھ سو سے زائد دکانوں میں سے دو فٹ سے دس فٹ تک باقی بچی ہیں۔ ہم تو کرائے پر تھے اس لیے سامان اٹھا کر گھر لے آئے۔ کچھ لوگوں نے دو دو کروڑ کی دکان خرید رکھی تھی ان کو علم نہیں تھا کہ دکان سرکاری زمین پر ہے۔ ان کا بہت نقصان ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سارے نقشے بلدیہ کے منظور کیے ہوئے ہیں۔ اب وہی بلدیہ کسی چیز کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں تو لگ رہا ہے کہ لوگ اب ایک دوسرے کے خلاف سیاسی عداوتیں بھی نکال رہے ہیں۔‘

وزیراطلاعات کے مطابق یہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے طویل تجاوزات کے خلاف آپریشن ہے۔ (فوٹو: فیس بک)پنجاب کے ضلع حافظ آباد کے ایک گاوں متیکی میں آپریشن کرنے کے لیے ایک درخواست ڈپٹی کمشنر کو دی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ گاؤں کے اندر ایک سڑک ہے جس پر گھر بن چکے ہیں۔

تاہم اس ممکنہ آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر سیاسی معاملہ ہے۔ اس سڑک کے متبادل دو سڑکیں پہلے ہی موجود ہیں۔ چونکہ اس جگہ پر درخواست دینے والوں کے سیاسی مخالف رہتے ہیں اس لیے ان کے گھر اور دکانیں گرانے کے لیے درخواست دی گئی۔ علاقے کا پٹواری اب اس بابت رپورٹ تیار کر رہا ہے۔

تاہم وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’وزیراعلٰی کی ہدایت کے مطابق ایک جامع پلان تشکیل دیا جا رہا ہے، جس میں جو لوگ متاثر ہوئے ان کو باقاعدہ ڈیزائنڈ بازاروں میں جگہ دی جائے گی۔ تمام بلدیاتی دفاتر میں درخواستیں لی جا رہی ہیں۔ جہاں تک سیاسی معاملات کا تعلق ہے اس بات کا سختی سے ایکشن لیا جائے گا کوئی اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔‘

’یہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے طویل تجاوزات کے خلاف آپریشن ہے، جس کا مقصد صرف صوبے کو صاف ستھرا بنانا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More