یورپ میں مقیم پاکستانی سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈی پورٹ کیوں ہو رہے ہیں؟

اردو نیوز  |  Mar 10, 2025

وہ اپنے دوست کے ساتھ کیفے میں کافی پی رہا تھا کہ دونوں کے درمیان کسی معاملے پر بحث کا آغاز ہوا۔ اس نے اپنے دوست کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا تو حتمی دلیل کے طور پر جیب سے موبائل نکالا اور اپنے کسی اور دوست کی جانب سے بھیجے گئے لنک پر کلک کرکے موبائل اپنے دوست کے سامنے رکھ دیا۔ وہ لنک ابھی کھلا بھی نہیں تھا کہ موبائل سے فیس بک لاگ آؤٹ ہو گئی۔ 

اُس نے لاکھ کوشش کی مگر وہ فیس بک پر دوبارہ لاگ اِن نہیں ہو سکا تو اس نے وقتی طور پر اپنی کوششیں ترک کر دیں لیکن روزانہ ایک دو بار لاگ اِن ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ بالآخر ساتویں دن فیس بک پر لاگ اِن ہو گیا۔ وہ اتفاق سے اس روز بھی اسی کیفے پر بیٹھے تھے۔ وہ فیس بک پر لاگ اِن ہوا ہی تھا کہ دس منٹ بعد پولیس آ گئی اور اسے شناخت کے بعد گرفتار کر کے لے گئی۔ 

ابتدائی طور پر تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن پولیس سٹیشن پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ اس نے اپنے دوست کو دکھانے کے لیے جس لنک پر کلک کیا تھا اس میں موجود مواد مقامی قوانین کے مطابق غیر قانونی اور بین تھا جسے اوپن کرنا بھی جرم تھا تو اس لیے اسے گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ کہانی اٹلی سے ڈی پورٹ ہونے والے ایک پاکستانی نوجوان عبدالرشید کی ہے جو نوعمری میں ہی اپنے والد کے اٹلی میں ہونے کی وجہ سے فیملی ویزا پر وہاں گئے تھے لیکن انجانے میں ایک غلطی کے باعث انہیں ڈی پورٹ ہونا پڑا۔ 

عبدالرشید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو فیس بک پر لاگ اِن ہوتے وقت بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایسا اس لنک کی وجہ سے ہوا جسے میں نے کھولنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں جب عدالت میں پیش کیا گیا تو وکیل نے مجھے معاملہ تفصیل سے سمجھایا کہ صرف اٹلی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں اس لنک کو کھولنا یا شیئر کرنا جرم تھا۔ میں نے عدالت کے سامنے اپنی مکمل لاعلمی کا اظہار کیا اور بھرپور طریقے سے اپنا مؤقف پیش کیا لیکن عدالت نے پولیس کو مزید تفتیش کرنے کا کہہ کر مجھے جیل بھیج دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دو مہینے جیل میں رکھنے اور ہر طرح سے تفتیش مکمل کرنے کے بعد پولیس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے غلطی سے ہی سہی لیکن ایک غیرقانونی فعل کیا ہے جس کی اسے سزا ملنی چاہیے۔ عدالت نے پولیس کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے مجھے قید یا جرمانہ کی سزا دینے کی بجائے میرا ویزہ منسوخ کرتے ہوئے مجھے وطن واپس بھیجنے کا حکم دے دیا۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف میں ہی نہیں بلکہ سپین، اٹلی، جرمنی، پرتگال سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والے پاکستانی اپنی کم علمی کے باعث جیل جا رہے ہیں۔ لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ جو کچھ لکھ یا پوسٹ کر رہے ہیں وہ پاکستان میں تو غیر قانونی نہیں لیکن یورپ میں غیر قانونی ہے۔‘ 

گزشتہ ہفتے سپین اور اٹلی میں 11 پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سپین میں مقیم پاکستانی ناصر علی ایڈووکیٹ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ’یورپ میں مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے وطن سے جڑے رہیں، سیاسی خیالات کا اظہار کریں اور ثقافتی مواد شیئر کریں۔ تاہم، ایک بڑی تعداد کو ان ممالک میں سوشل میڈیا اور سائبر کرائمز کے حوالے سے سخت قوانین کا علم نہیں ہے۔

’پاکستان کے برعکس، جہاں آن لائن ضوابط نسبتاً نرم یا مخصوص حالات میں نافذ کیے جاتے ہیں، یورپی ممالک میں نفرت انگیز تقریر، غلط معلومات، آن لائن ہراسانی اور ڈیٹا پرائیویسی سے متعلق سخت قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے، قانونی کارروائی یا بعض صورتوں میں ملک بدری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایک عام مسئلہ سیاسی مواد، غلط معلومات یا نفرت انگیز تقریر کو سوچے سمجھے بنا آگے شیئر کرنا ہے۔ بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چوں کہ اپنے ملک کے معاملات پر گفتگو کر رہے ہیں، اس لیے یورپی قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک میں آن لائن بدنامی، تشدد پر اُکسانے اور انتہا پسندانہ مواد کے خلاف سخت پالیسیاں موجود ہیں، چاہے وہ مواد کسی بھی ملک سے متعلق ہو۔ حکام سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں، اور کئی افراد کو قابل اعتراض مواد شیئر یا فارورڈ کرنے کی وجہ سے قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

ان کے مطابق ایک اور اہم مسئلہ پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن قوانین سے ناواقفیت ہے۔ یورپ میں جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) جیسے قوانین سختی سے نافذ کیے جاتے ہیں، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ذاتی معلومات کو کس طرح شیئر اور سٹور کیا جائے۔ بہت سے پاکستانی نادانستہ طور پر ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، خاص طور پر کمیونٹی گروپس یا فیملی نیٹ ورکس میں بغیر اجازت کسی کی نجی معلومات، تصاویر یا ویڈیوز شیئر کر کے۔ جو پاکستان میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے، جیسے کسی سوشل میڈیا تنازعے میں کسی کی ذاتی تفصیلات ظاہر کرنا، وہ یورپ میں ایک سنگین قانونی جرم ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’قوانین سے لاعلمی کسی کو قانونی کارروائی سے نہیں بچا سکتی، اس لیے یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور مقامی قوانین سے آگاہ رہیں۔‘

سپین میں مقیم پاکستانی صحافی وسیم رزاق نے کہا کہ ’میں نے اپنے نیوز پلیٹ فارم پر خبر کی شکل میں کچھ مواد شائع کیا لیکن وہ مواد جس موضوع سے متعلق تھا وہ یورپ میں خلافِ قانون تھا جس وجہ سے میرا پلیٹ فارم بھی پابندی کی زد میں آیا۔‘ 

سوشل میڈیا پر شدت پسندانہ رجحانات رکھنے والوں پر یورپی ملکوں کی پولیس کڑی نظر رکھتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی شہری یورپ کے پرائیویسی قوانین سے بھی آگاہ نہیں اور گھومتے پھرتے اپنے ساتھ باقی لوگوں کی ویڈیوز بناتے اور پھر تضحیک آمیز تبصروں کے ساتھ سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی کئی لوگوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستانی سفارت خانے مقامی قوانین سے متعلق آگاہی فراہم نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ ’یورپ میں پاکستانی سفارت خانوں اور کمیونٹی کا تعلق پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کی تجدید تک ہی محدود ہے۔ پاکستانی اپنے کام کاج میں مصروف رہتے ہیں اور فارغ وقت میں فیملی یا سوشل میڈیا تک محدود رہتے ہیں اور سفارت خانہ بھی کمیونٹی کے ساتھ محدود تعلقات ہی رکھتا ہے کیونکہ یورپ میں ورکرز کی ویلفیئر کا کوئی معاملہ تو ہوتا نہیں اس لیے سفارت خانے دو طرفہ تعلقات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ قوانین سے متعلق عمومی آگاہی دی جاتی ہے مگر سوشل میڈیا کے استعمال اور اس سے متعلق قوانین کی باریکیوں اور ترامیم سے متعلق آگاہ نہیں کیا جاتا یا کم از کم ایسی کوئی سرگرمی میرے علم میں نہیں۔‘

اٹلی اور سپین کی پولیس نے گزشتہ دو سال میں 30 پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا ہے جن میں 14 کو ایک بار اور پانچ کو ایک بار ڈی پورٹ کیا۔ پاکستانی کمیونٹی کے سرکردہ افراد کا کہنا ہے کہ بظاہر ان پر یہ الزام تھا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ وہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں پاکستان میں اپنی جماعت کے نظریات کی ترویج کر رہے تھے لیکن ان کی جماعت پر یورپ میں پابندی ہے جس وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی سپین اور اٹلی میں 11 پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے دس کو بارسلونا اور ایک کو اٹلی سے حراست میں لیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہیں جو ایک میسجنگ چینل کی ایڈمن تھیں۔ گرفتار شدگان کی عمریں 25 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More