جعفر ایکسپریس حملہ: ’ہم نے میت کا آخری دیدار کسی کو بھی نہیں کرایا‘

بی بی سی اردو  |  Mar 15, 2025

جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے 26 افراد میں شامل ریلوے ملازم ممتاز کے بھائی بتاتے ہیں کہ ممتاز کے جسم پر گولیوں کے نشانات تھے۔ ان سمیت دیگر لواحقین کو کوئٹہ سے میتیں اپنے آبائی علاقوں میں لے جانے کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے علاقے بولان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے بعد 354 مسافروں کو ریسکیو کیا گیا جبکہ اس حملے میں 18 فوجی اور ایف سی اہلکاروں سمیت مجموعی طور پر 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

گذشتہ دنوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں، محکمۂ ریلوے اور ریلوے پولیس کے اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہیں۔

ریلوے کے ملازم محمد ممتاز کی نماز جنازہ مانسہرہ میں جبکہ ریلوے پولیس کے اہلکار شمروز خان کی نماز جنازہ بلوچستان میں نصیر آباد ڈویژن کے علاقے صحبت پور میں ادا کی گئی۔

روزی علی کی نماز جنازہ گلگت بلتستان کے علاقے گانچھے میں ادا ہوئی۔یاسر سلیم کو آبائی علاقے ضلع ہری پور چیچیاں میں سپرد خاک کیا گیا جبکہ سیالکوٹ کے علاقے پسرور میں امتیاز کی آخری رسومات میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

خیال رہے کہ 11 مارچ کو کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی، بی ایل اے نے بلوچستان کے علاقے بولان میں مسافر ٹرین کو یرغمال بنانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ 36 گھنٹوں تک جاری رہنے والے ریسکیو اینڈ کلیئرنس آپریشن میں بی ایل اے کے 33 شدت پسندوں کی ہلاکت ہوئی اور 354 مسافروں کو ریسکیو کیا گیا۔

Getty Images’جسم پر چھروں، گولیوں کے نشانات‘

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہلاک ہونے والے 37 سالہ ممتاز نے سوگواروں میں سات بچے اور بیوہ چھوڑی ہیں۔ ان کا تعلق مانسہرہ سے تھا اور وہ طویل عرصے سے کوئٹہ میں ملازمت کر رہے تھے۔

ان کے سب سے بڑے بچے کی عمر 13 سال اور سب سے چھوٹی بچی کی عمر دو سال ہے۔

ممتاز کے بھائی تاج محمد کوئٹہ میں گاڑی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بھائی 10 مارچ کو معمول کی طرح کوئٹہ سے پشاور جانے کے لیے جعفر ایکسپریس پر سوار ہوئے۔ ممتاز کا کام ٹرین میں کسی بھی خرابی وغیرہ کو دور کرنا اور ٹرین کو چلتے رہنے میں مدد دینا تھا۔

تاج کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آغاز میں ایسی آ رہی تھیں کہ حالات خراب ہیں اور جمعرات کو پتا چلا کہ ان کا بھائی اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ ٹرین کے دیگر مسافروں سے کی گئی اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'ممتاز اور ریلوے پولیس اہلکار شمروز انجن کے پیچھے والی بوگی میں موجود تھے۔ جب دھماکہ ہوا تو اس وقت ممتاز دروازے کے قریب کھڑے تھے۔ وہ دھماکے اور اندھا دھند فائرنگ میں مارے گئے۔'

جعفر ایکسپریس پر حملہ: پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیجعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟پہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟جعفر ایکسپریس حملہ: بولان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں پر قابو پانا مُشکل کیوں؟

تاج محمد کا کہنا تھا کہ ممتاز کو جسم پر بے انتہا زخم آئے تھے۔ 'ان کی کمر پر کئی ایسے نشانات ہیں جیسے جسم پر چھرے لگے ہوں۔ جسم پر گولیوں کے بھی نشانات ہیں۔ اتنے زخم تھے کہ ان کا چہرہ نہیں دیکھا جاسکتا تھا اور ہم نے کسی کو بھی میت کا آخری دیدار نہیں کروایا۔'

تاج محمد کا کہنا تھا کہ ریلوے پولیس اہلکار شمروز نے بڑی بہادری سے شدت پسندوں کا مقابلہ کیا اور کچھ لوگوں کو وہاں سے بھاگنے میں بھی مدد کی۔

شدت پسندوں نے ’بوگی سے اُتار کر گولیاں ماریں‘

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہلاک ہونے والے 30 سالہ محمد یاسر کا تعلق ہری پور سے تھا اور ان کے سوگواروں میں والدین اور تین بہن بھائی ہیں۔

وہ چھ ماہ سے افغانستان میں سریا بنانے والی ایک فیکڑی میں کام کر رہے تھے اور عید کی چھٹیوں کے لیے واپس پاکستان آئے تھے۔ طورخم بارڈر بند ہونے کی وجہ سے وہ چمن کے راستے واپس اپنے آبائی علاقے جا رہے تھے۔

محمد یاسر کے چچا محمد ارشد کا کہنا تھا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو 'میں فوراً کوئٹہ پہنچ گیا۔ کوئی معلومات نہیں مل رہی تھیں۔ پہلے زخمی لائے گئے تھے۔ ان زخمیوں سے ملا تو مجھے ان کے ساتھ بوگی میں موجود ایک زخمی شخص نے ساری کہانی سنائی۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس شخص نے انھیں بتایا کہ 'دھماکے کے بعد فائرنگ شروع ہوئی اور پھر چند مسلح لوگ بوگی میں داخل ہوئے۔ انھوں نے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کیے اور اِن سمیت کئی لوگوں کو ٹرین سے نیچے اتارا گیا۔ ان کا منھ دوسری طرف کر کے ان پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔'

محمد ارشد کا کہنا تھا کہ اس زخمی شخص کی حالت 'انتہائی خراب تھی۔ وہ تین دن تک بغیر علاج کے اُدھر ہی پڑے رہے تھے۔ بس کبھی کوئی پانی یا کچھ کھانے کو دے دیتا تھا۔ ان کو تین دن بعد ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ محمد یاسر کو جسم پر پانچ گولیاں لگی ہوئی تھیں۔

پسرور سیالاکوٹ کے رہائشی امتیاز کے بارے میں ان کے دوست محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ان کے جسم پر سات گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان کے بقول بظاہر امتیاز کو بھی ریل سے اتار کر گولیاں ماری گئی تھیں۔

'لاش لانے میں دو لاکھ سے زیادہ خرچ ہوئے'

لواحقین نے اپنے پیاروں کی میت آبائی علاقوں تک لے جانے میں بعض مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ یاسر کے چچا محمد ارشد نے بتایا کہ انھیں فوراً اسلام آباد سے کوئٹہ بذریعہ پرواز جانا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'کوئٹہ میں بہت مشکل سے لاش کی شناخت کی اور اس کو واپس لانے کے لیے پرائیوٹ ایمبولینس کرایہ پر حاصل کی جس کو 66 ہزار روپے کرایہ ادا کیا۔

'لاش لانے میں کم از کم دو لاکھ روپے خرچہ ہوئے (مگر) نماز جنازہ میں کسی حکومتی اہلکار نے شرکت نہیں کی۔'

ادھر تاج محمد کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں محمد ممتاز کی نماز جنازہ میں ریلوے حکام نے بھی شرکت کی تھی اور انھیں دو لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم دی گئی۔ 'میرے دوستوں نے بتایا کہ یہ رقم انھوں نے میت کو لے جانے کے لیے دی ہے۔'

تاج محمد کا کہنا تھا کہ 'میرا بھائی سرکاری فرائض ادا کرتے ہوئے مارا گیا۔ اب حکومت کو ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور اس کے بڑے بیٹے کو ملازمت دینی چاہیے۔'

’حملہ آوروں نے لوٹ مار بھی کی‘

تاج محمد کی اپنے بھائی ممتاز سے آخری ملاقات گذشتہ سنیچر کو ہوئی تھی جس کے بعد ممتاز پیر کو اپنی روٹین کے مطابق اس ٹرین پر سوار ہوئے تھے۔

تاج یاد کرتے ہیں کہ 'میں اس کو ملنے اس کے گھر گیا تھا۔ وہ بہت خفا تھے اور کہہ رہے تھے کہ عید کے روز بھی ٹرین کی ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے بچوں کے ساتھ عید نہیں منا سکیں گے۔'

اس دوران ممتاز نے اپنے بھائی کو آخری پیغام یہ دیا کہ 'آپ نے بچوں کا خیال رکھنا ہے اور عید کے موقع پر بھی بچوں کو میری کمی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔'

دریں اثنا ہلاک شدگان میں شامل یاسر کے چچا ارشد یاد کرتے ہیں کہ ان کی یاسر سے اس وقت بات ہوئی تھی جب وہ ٹرین پر سوار ہوئے تھے۔ 'وہ گھر واپس آنے پر بڑا خوش تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ عید کے بعد واپس جائے گا۔ کہہ رہا تھا کہ افغانستان میں کام اچھا ہے اور پاکستان کے مقابلے اچھے پیسے ملتے ہیں۔'

محمد ارشد کا کہنا تھا کہ یاسر چاہتے تھے کہ وہ افغانستان میں کمائے گئے 80 ہزار روپے اپنے والدین کو دیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 'لوگوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے لوٹ مار بھی کی تھی۔۔۔ لوگوں سے نقدی، سامان سب کچھ چھین لیا گیا۔ یاسر کے سامان اور ان کی جیبوں سے کچھ نہ ملا۔'

گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے سے تعلق رکھنے والے نوجوان روزی علی بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے شیف تھے اور وہ سکیورٹی اداروں کے ساتھ سول شیف کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

ان کے دوست محسن علی کا کہنا تھا کہ 'روزی علی گذشتہ کچھ عرصے سے کوئٹہ میں کام کر رہے تھے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے مشن کے ساتھ سوڈان جانے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔

'وہ سوڈان جانے کی تیاری کر رہے تھے اور اسی لیے واپس آبائی علاقے آ رہے تھے۔۔۔ مگر یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔'

جعفر ایکسپریس حملہ: بولان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں پر قابو پانا مُشکل کیوں؟ پہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟جعفر ایکسپریس پر حملہ: پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More