ویسے تو تعلق اُن کا انتہائی مذہبی گھرانے سے تھا مگر جب محمد علی پاکستان کی فلمی صنعت کا حصہ بنے تو انھوں نے اس انڈسٹری کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ پھر چاہے کردار ہیرو کا ہو یا ولن کا، مختلف کرداروں پر اُن کی لگائی گئی چھاپ کا اثر اتنا گہرا تھا کہ اس تک پہنچنا بہت سوں کا خواب ہی رہا۔
محمد علی کا جنم نہ تو کسی فلمی خاندان میں ہوا اور نہ ہی ابتدا میں انھیں اداکاری اور گانے کا کوئی شوق تھا۔ 19 اپریل 1931 کو اُن کی پیدائش روہتک کے ایک انتہائی مذہبی گھرانے میں ہوئی۔
تقسیم ہند کے بعد اُن کا خاندان ملتان آ بسا اور یہیں سے انھوں نے میٹرک کیا۔ پاکستان میں اُن کے والد ، مرشد علی صاحب، کا پہلا مسکن اندرونِ ملتان کے علاقے گھڑ منڈی میں واقع ایک مسجد بنی مگر پھر چند برسوں بعد یہ خاندان حیدر آباد آ کر آباد ہوا۔
نعیم بخاری کو ’ایس ٹی این‘ پر دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد علی نے بتایا تھا کہ پہلی بار اُن کے دل میں کام کرنے کا خیال انڈین فلم ’دُلاری‘ دیکھ کر آیا تھا۔ یہ بات 50 کی دہائی کی ہے اور یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں انڈین فلمیں سنیما گھروں میں لگا کرتی تھیں۔
محمد علی نے نعیم بخاری کو بتایا تھا کہ وہ جانا تو پاکستان ایئرفورس میں چاہتے تھے لیکن حالات انھیں فلموں میں لے آئے۔
روہتک سے کراچی تک کا سفرBBCسنہ 1948 میں لی گئی تصویر: محمد علی (دائیں)، صحافی قمر احمد (بائیں) اور اُن کے بھائی شہاب احمد (درمیان)
روہتک سے ملتان آنے کے بعد محمد علی نے اسلامیہ سکول میں داخلہ لیا۔ مشہور ڈرامہ رائٹر اصغر ندیم سید کا محمد علی سے ایک قریبی تعلق تھا۔
بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’علی بھائی نے اور میں ایک ہی سکول سے میٹرک کیا تھا۔ ایک شفیق بزرگ مرزا مسرت بیگ میرے اور اُن کے مشترکہ استاد تھے اور انھی کے توسط سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک بہت بڑے اداکار تھے اور کمال کے آدمی تھے اور اُن کے گھر ہونے والی دعوتیں بھی ادبی ہوتی تھیں، جن میں فلم والے کم اور زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوتے تھے۔‘
محمد علی میٹرک کے بعد ملتان سے حیدر آباد آئے اور کچھ عرصہ کے بعد تھیئیٹر اور ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو حیدر آباد سے منسلک تھے اور انھی نے سب سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کا آڈیشن کروایا تھا۔
ریڈیو سے فلمی پردے تک
اُس دور میں حیدر آباد ریڈیو میں کافی گہما گہمی رہتی تھی۔ ریڈیو پاکستان کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری، فضلی صاحب کے قریبی دوست تھے۔ جب فضلی صاحب کو اپنی آنے والی ایک نئی فلم کے لیے اسسٹنٹ کی ضرورت پڑی، جس کا بنیادی کام فنکاروں کو ڈائیلاگ کی ادائیگی سکھانا تھا، تو انھیں محمد علی کے بارے میں بتایا گیا۔
فضلی صاحب پہلے ہی محمد علی کو تھیئیٹر میں دیکھ چکے تھے چنانچہ اُن کی خدمات ’دبستان محدود‘ نامی فلم کے لیے حاصل کر لی گئیں۔ محمد علی کی صلاحیتیں دیکھ کر فضلی صاحب نے انھیں اپنی فلم میں ہیرو اور ولن دونوں کا کردار آفر کیا، مگر علی نے ولن کے کردار میں سکوپ دیکھتے ہوئے اسے اپنے لے منتخب کیا۔
محمد علی نے اپنے بہت سے انٹرویوز میں زیڈ اے بخاری کو اپنا ’استاد‘ مانا ہے۔ فلمی مبصرین کے نزدیک محمد علی کی چال ڈھال تک سب زیڈ اے بخاری کی طرح سے تھا۔
سنہ 1992 میں نعیم بخاری کو دیے گئے انٹرویو میں محمد علی نے بتایا تھا کہ ’بخاری صاحب، صوفی صاحب اور جوش وغیرہ کسی سکول ٹیچر کی طرح سکھاتے تھوڑی تھے، بلکہ انھیں دیکھ کر ہم سیکھ جاتے تھے کہ ان کے بولنے کا انداز کیا ہے، اُن کی محفل کس انداز کی ہوتی ہے، اُن کا شعر پڑھنے کا کیا انداز ہے، تلفظ اُن کا کیا ہے۔ جتنا میں نے بخاری صاحب کو دیکھا، سٹڈی کیا، آج میں جو بھی ہوں، ان کی ہی وجہ سے ہی ہوں۔‘
پہلی مرتبہ ہیرو
محمد علی نے فلمی کیرئیر کی ابتدا بحیثیت ولن کی تھی لیکن ابتدائی چند فلموں میں ’بُرا آدمی‘ بننے کے بعد ان کا جی کچھ اچھا کرنے کا چاہا تو انھوں نے سنہ 1963 میں آنے والی فلم ’شرارت‘ میں پہلی مرتبہ ہیرو کا کردار ادا کیا۔
وہ ہیرو تو بن گئے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ مگر اگلے ہی برس یعنی سنہ 1964 میں ریاض شاہد کی لکھی فلم ’خاموش رہو‘ میں اپنی اداکاری کے ذریعے محمد علی نے وہ کر دکھایا جس سے وہ معروف ہو گئے۔
اس فلم میں انھوں نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا جو ’خانم‘ کے کہنے پر بھولی بھالی لڑکیوں کو شادی کے جال میں پھنساتا اور ’خانم‘ کے کوٹھے پر بیٹھا دیتا۔ لڑکیاں شرم سے کچھ نہ کہتیں اور یوں ’خانم‘ کا کام چلتا رہتا۔ اِسی فلم میں سینیئر اداکار یوسف خان اور اداکارہ مینا شوری بھی موجود تھیں، مگر محمد علی نے اپنی اداکاری کے آگے کسی کی نہ چلنے دی۔
فلمی محقق سرفراز فرید نیہاش کے مطابق یہ فلم محمد علی کے لیے ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ثابت ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’محمد علی سے پہلے اس کردار کی سنتوش کمار اور درپن کو پیشکش ہوئی تھی لیکن دونوں اداکار ’ہیرو‘ کے زوم سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ محمد علی نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا، اور سب کو چیلنج کر دیا۔‘
حبیب جالب کا مشہور گیت ’ایسے دستور کوصبح بے نور کو، میں نہیں مانتا‘ احمد رشدی کی آواز میں اسی فلم میں محمد علی پر فلمایا گیا تھا۔ خاص کر اس فلم کا کلائمیکس محمد علی کے اُس ڈائیلاگ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، جو وہ کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی بچھڑی ہوئی ماں سے ملتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔
رائٹر اور ڈائریکٹر علی سفیان آفاقی کی فلم ’کنیز‘ میں وہ بگڑے نوابزادے بنے نظر آئے جو ’ماں‘ کی عظمت کے سامنے اپنے اُس دادا کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں جس نے بیٹے کو بچپن میں ہی ماں سے دور کر دیا تھا۔ اس فلم میں محمد علی کا یہ ڈائیلاگ ’یہ عورت میری ماں ہے نواب صاحب، اس کے لیے میں آپ کی جائیداد تو کیا، ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں‘ ٹھیک دس سال بعد سلیم جاوید کے ’میرے پاس ماں ہے‘ کا پیشرو لگتا ہے۔
اِسی سال خود کو ’ہیرو‘ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے درجن بھر فلموں میں ایک ہی جیسے رول ادا کرنا شروع کر دیے۔ اس حوالے سے وہ خود ہی کہتے تھے جب وہ سٹودیو میں کبھی بغیر تلوار کے اور ٹو پیس سوٹ پہنے نظر آتے، تو لوگ اُن سے پوچھتے کہ ’کیا آج شوٹنگ نہیں ہو رہی؟‘ اور یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اکثر شہزادے کے کردار کے لیے، محمد علی کا ہی انتخاب کیا جاتا تھا۔
’شہنشاہ جذبات‘
محمد علی کی گرجدار آواز، پُراثر مکالمے اور جذبات سے بھرے مناظر نے اُردو فلموں میں ہیرو اور ولن دونوں کے کرداروں کو ایک نیا معیار بخشا۔ چاہے وہ فلم ’آگ کا دریا‘ کا ڈاکو ہو، ’ہمراز‘ کا ڈاکٹر، ’انسان اور آدمی‘ کا وکیل، ’وحشی‘ کا بردہ فروش، ’کھوٹا پیسہ‘ کا مجبور مزدور ہو یا ’باغی سردار‘ کا نادر، محمد علی نے ہر کردار کو ایسا دوام بخشا جیسے وہ کردار حقیقیت میں زندہ ہوں۔
محمد علی کے سنجیدہ اور درد بھری کہانیوں والے کرداروں نے بھی فلم بینوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ ’زخمی‘، ’بے مثال‘، ’پھول میرے گلشن کا‘، ’شمع‘، ’تیرے بنا کیا جینا‘، ’اِک گناہ اور سہی‘ میں وہ اپنے فن کی بلندی ہر نظر آئے۔
یہاں تک کہ ’سرحد کی گود میں‘، ’نیا سورج‘، ’آگ کا سمندر‘، ’ٹیپو سلطان‘ اور ’حیدر علی‘ کے رول کے لیے بھی فلمساز حضرات کو اُن سے موزوں اداکار نہیں ملا۔
محمد علی نے اپنے دور کی نوجوان نسل پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ فلموں میں ان کے کپڑے پہننے کا سٹائل منفرد تھا اور انھیں سوٹ پہنے دیکھنے کے بعد نوجوان لڑکوں نے سوٹ پہننا اپنا ’دھرم‘ سمجھ لیا اور اگر وہ محمد علی کی طرح کندھے اکڑا کر نہ چلتے، تو سوٹ کی جیسے توہین ہو گئی۔
اُس دور کے نوجوانوں میں سوٹ پہن کر اور جیب میں ہاتھ ڈال کر چلنا رواج بن گیا جبکہ ایک انگلی پر کوٹ ٹانگ کر گھر میں داخل ہونا دفتر سے آنے والوں کا معمول بن گیا۔ محمد علی کی دیکھا دیکھیبہت سارے لوگوں نے سفید جوتے بھی خریدنا شروع کر دیے اور لوگوں میں ڈریسنگ گاؤن ایسے مشہور ہو گیا جیسے وہ رات کے لباس کا لازمی جزو ہو۔
لوگ عام زندگی میں بھی اُن کے انداز میں بولے گئے ڈائیلاگ دہراتے، چاہے ٹیسٹ کلئیر ہونے کے بعد ’ماں میں پاس ہو گیا‘ ہو، یا خلافِ توقعبات پر یہ جواب دیا جانا ’کہہ دو یہ جھوٹ ہے ڈاکٹر‘۔ لائٹ جانے پر بولے جانا والا ڈائیلاگ ’مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا سلیم‘ ہو یا دلیل دینے سے پہلے ’خدا کی قسم جج صاحب‘ تو منہ سے آج بھی نکل ہی جاتا ہے۔
ایک وفا شعار شوہرBBCعلی اور زیبا کی جوڑی کو ساتھ دیکھنے کا شوق، ہٹ فلموں کی ضمانت بن گیا تھا
محمد علی ہیرو تو بن گئے تھے مگر درحقیقت اُن کے ساتھ کئی فلموں میں کام کرنے والی زیبا نے انھیں کرداروں میں یکسانیت کے دلدل سے نکالا۔ سنہ 1966 میں زیبا اور محمد علی کی شادی ہوئی۔
محمد علی اور زیبا نے ایک ساتھ فلم ’چراغ جلتا رہا‘ سے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ پہلے تو محمد علی انھیں ڈائیلاگ کی ادائیگی سکھاتے تھے مگر سکرین پر آنے کے بعد ایک دو دفعہ کے علاوہ، وہ زیادہ تر ہیرو ہیروئن کے رولز میں ہی کاسٹ ہوئے۔
فلم ’تم ملے پیار ملا‘ کی شوٹنگ کے دوران دونوں کی شادی ہوئی، مگر اس سے پہلے کے ساڑھے چار سال کے دوران دونوں میں تعلقات کشیدہ بھی رہے۔
زیبا علی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شروع شروع میں انھیں زیادہ خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔
’جب فلم ’جان پہچان‘ کی شوٹنگ کے لیے ایرانی اداکارہ شہ پارہ پاکستان آئی ہوئی تھیں تو اُن کے حسن کا کافی چرچا تھا۔ محمد علی سے قربت کی کہانیاں بھی آ رہی تھیں اور بات منگنی تک پہنچ گئی تھی۔ ایک دن مجھے اور وحید مراد کو ٹھنڈے پانی کی طلب ہوئی۔ منرل واٹر تو ہوتا نہیں تھا، جو بوتل ہم نے بھر کر گاڑی میں رکھی تھی وہ خالی تھی۔‘
’لاہور اُس وقت ایسا نہیں تھا جیسا کہ اب ہے، دور دور تک کوئی دکان مکان نہ تھے، ہمیں دور سے ایک گھر نظر آیا اور وہاں جا کر وحید نے ہارن بجایا۔ اندر سے شہ پارہ نکلیں، میں اخبار میں ان کی تصویر دیکھ چکی تھی، تو پہچان گئی۔ جب تک وہ اندر جا کر پانی بھیجتی، میں نے وحید سے کہا کہ بھاگو، علی کو پتہ چلا تو مسئلہ ہو جائے گا۔‘
’خیر وحید مراد نے ملازم سے پانی لیا اور ہم چل دیے۔ اگلی بار جب ’کنیز‘ کے سیٹ پر علی سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ اگر شہ پارہ سے ملنا تھا تو بتا دیتیں، ملوا دیتا، یہ پانی کا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ میری اور ان کی کچھ زیادہ نہیں بنتی تھی، ایک تو وہ میک اپ کرتے ہی نہیں تھے اور سب کو ذرا وقت لگتا تھا، وہ تھے بھی وجہیہ و شکیل، مگر پھر ان سے دھیرے دھیرے دوستی ہو گئی۔‘
رفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہے’لیڈی کِلر‘ اور ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد جو مولا جٹ کے بعد زوال سے سنبھل نہ سکےسلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیاعمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھا
فلمی محقق سرفراز فرید نیہاش بتاتے ہیں کہ ’سنہ 1967 میں ’جان پہچان‘ کی ریلیز کے بعد شہ پارہ واپس چلی گئیں اور محمد علی کو ایران جا کر پتہ چلا کہ اُن سے کی جانے والی منگنی ڈرامہ تھی۔ شہ پارہ کی کسی اور سے شادی ہونے والی تھی چنانچہ محمد علیدلبرداشتہ تھے جبکہ اداکارہ زیبا اداکار سدھیر سے طلاق کے بعد افسردہ تھیں۔ بس یہیں دو ٹوٹے دل ملے اور فلمی اصطلاح میں دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کا وقت آ گیا ۔ اور یوں اقبال یوسف کی فلم کی شوٹنگ کے دوران دونوں کی شادی ہو گئی۔‘
اس کے بعد مار دھاڑ سے دور ہو کر انھوں نے کامیڈی کا رُخ کیا اور علی-زیب کے بینر تلے ’جیسے جانتے نہیں‘ بنائی اور اپنی کامیڈی ٹائمنگ سے سب کو حیران کر دیا۔
ویسے تو وہ ’عادل‘ اور ’آگ‘ بنا چکے تھے لیکن علی۔زیب کی جوڑی کو ساتھ دیکھنے کے شوق میں یہ ہٹ فلموں کی ضمانت بن گئی۔ اس کے بعد تو جیسے لائن لگ گئی۔ ’یادیں‘، ’پرچھائیاں‘، ’افسانہ زندگی کا‘، ’انسان اور آدمی‘، ’انصاف اور قانون‘، ’دل دیا درد لیا‘، ’تاج محل‘، ’زندگی کتنی حسین ہے‘، ’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘، ’سلامِ محبت‘ اور نہ جانے کون کون سی فلمیں۔
انڈیا میں دھوم
محمد علی کا قد چھ فٹ دو انچ تھا۔ اُن کی آواز گرجدار تھی، رنگ گورا اور جسم بھاری بھرکم۔پاکستان کے ساتھ ساتھ ان کی پڑوسی ملک انڈیا میں بھی دھوم تھی اور جب بھی وہ انڈیا گئے تو وہاں اُن کی آؤ بھگت ہوئی۔
ساٹھ کی دہائی سے لے کر اسی کی دہائی تک وہ کئی بار وہاں مہمانِ خصوصی بن کر گئے۔
سرفراز فرید نہیاش کہتے ہیں کہ ’صدر ضیاالحق اور انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے اصرار پر دونوں میاں بیوی نے منوج کمار کی فلم ’کلرک‘ میں کام بھی کیا، مگر فلم زیادہ ستاروں کی بھرمار کی وجہ سے چل نہ سکی۔ ششی کپور، راجندر کمار، ریکھا، منوج کمار، اشوک کمار، سب کیرئیر کے آخری پادان پر کھڑے تھے اور ایک بھی نئے نسل کا اداکار ہوتا تو الگ بات ہوتی، مگر سارے ’چلے ہوئے کارتوس‘ جمع کر کے دھماکا نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو گاـ۔ اسی کی دہائی کے آخر میں وہ بنگلہ دیش بھی گئے جہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔‘
پاکستانی فلم اور ٹی وی کے اداکار غلام محی الدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم ’کلرک‘ کو لے کر محمد علی منوج کمار سے زیادہ خوش نہ تھے۔ ’علی بھائی کہتے تھے کہ منوج کمار کو فلم بنانے کا سینس ہی نہیں تھا، اس نے زیب اور میرا رول ہی کم کر دیا تھا، جس سے کہانی کی بنت خراب ہو گئی تھی۔‘
محمد علی کی فلموں کی بھی انڈیا میں کافی نقل کی گئی، اور راجیش کھنہ، دھرمیندر، امیتابھ، ششی کپور، شتروگھن سنہا، سنی دیول اور سلمان خان سب نے ان کی کامیاب فلموں میں ادا کیے ہوئے جاندار رولز کو اپنے انداز میں نبھایا۔
’شانی‘: محمد علی کی آخری بڑی فلمGetty Imagesمحمد علی کی وفات 75 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ ان کے نماز جنازہ میں فلمی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی
ایڈ فلموں کے حوالے سے بڑا نام رکھنے والے ڈائریکٹر سعید رضوی نے جب جنوبی ایشیا کی پہلی سائنس فکشن فلم ’شانی‘ بنانے کی ٹھانی، تو انھوں نے محمد علی کو ’دینو چاچا‘ کے رول کے لیے منتخب کیا۔
جب سعید رضوی اُن کے گھر مالی معاملات طے کرنے گئے تو انھیں محمد علی کے ہی انداز میں ڈانٹ سننا پڑی۔
سعید رضوی نے بی بی سی سے کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بھول گیا تھا کہ میرے والد نے ہی انھیں ہیرو بنایا تھا۔ انھوں نے کہا ’تجھ سے پیسے کیوں لوں گا، تو نئی طرح کی فلم بنا رہا ہے، یہ تو میرے لیے فخر کی بات ہے۔ مجھے تیرے بابا نے ’شرار ت‘ سے ہیرو بنایا تھا۔ میں تجھ سے پیسے کی بات کر بھی نہیں سکتا۔ علی بھائی نے اس فلم میں مفت میں کام کیا۔ اس کے بعد میں نے ’سر کٹا انسان‘ میں بھی اخبار کے ایڈیٹر کے رول کے لیے انھیں لینا چاہا، مگر تب تک اُن کی شوگر کافی بگڑ چکی تھی اور وہ وقت نہیں دے پا رہے تھے۔‘
اس کے بعد ایک تو اُردو فلموں کی حالت بگڑ رہی تھی دوسری طرف محمد علی بھی ناسازِ طبیعت کی وجہ سے گھر تک ہی محدود رہ گئے تھے۔
وہ ٹی وی پر ایک ڈرامے کے ذریعے جلوہ گر ہونا چاہتے تھے مگر 19 مارچ 2006 کو اُن کی وفات ہو گئی۔ اصغر ندیم سید نے بتایا کہ وہ اُن کے لیے ڈرامہ لکھ ہی رہے تھے کہ جب وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔
’لیڈی کِلر‘ اور ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد جو مولا جٹ کے بعد زوال سے سنبھل نہ سکےسلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیارفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہےعمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھامدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانی