زلمے خلیل زاد کی کابل واپسی: امریکہ اور طالبان کے تعلقات کسی حکمت عملی کا حصہ ہیں یا محض ایک وقتی چال

بی بی سی اردو  |  Mar 24, 2025

SM

گذشتہ ہفتے کابل کے ہوائی اڈے پر ایک طالبان سپاہی ہتھیار اٹھائے افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندہِ خصوصی زلمے خلیل زاد اور دیگر کئی امریکیوں کے ساتھ کھڑا تھا، اپنے دوستوں کے ساتھ ایک یادگاری تصویر بناوتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

تقریباً چار سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی حکومت کے نمائندوں نے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور اس موقع پر ایک امریکی شہری کو رہا کیا گیا جو دو سال سے طالبان کے ہاتھوں یرغمال تھے۔

دونوں طرف سے اخباری بیانات میں مثبت تبصرے دیکھے گئے۔

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے کہا کہ انھوں نے امریکی شہری کو ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر‘ اور ’جذبہِ خیر سگالی کے طور پر‘ رہا کیا اور امریکی وزیر خارجہ نے بھی ان کی رہائی کے معاہدے کو ’مثبت اور تعمیری قدم‘ قرار دیا۔

یاد رہے کہ طالبان نے اس ہفتے کے اوائل میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے انعام کو منسوخ کرتے ہوئے انھیں مطلوب افراد کی فہرست سے نکال دیا ہے۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کے علاوہ دو دیگر طالبان رہنماؤں کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست سے نکالے گئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر ابھی بھی سراج الدین حقانی کی گرفتاری کی اطلاع دینے والے کے لیے 10 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان موجود ہے۔

Handout via REUTERSزلمے خلیل زاد ایک امریکی شہری کے ساتھ جو دو سال بعد طالبان کی جیل سے رہا ہوئے’طالبان زلمے کو ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ساتھ وہ کام کر سکتے ہیں‘

کابل میں زلمے خلیل زاد اور کم از کم چھ امریکیوں کی غیر متوقع موجودگی نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا افغانوں میں سب سے زیادہ مقبول سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد واپس آئیں گے۔

خلیل زاد کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں دوبارہ امریکی خصوصی ایلچی یا کسی اور اہم عہدے پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار گریم سمتھ نے ٹرمپ انتظامیہ میں زلمے خلیل زاد کے مستقبل کا ذکر کیے بغیر بی بی سی کو بتایا کہ 'طالبان زلمے کو ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ساتھ وہ کام کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔'

اٹلانٹک کونسل کے ایک مشیر عمر صمد کے مطابق زلمے خلیل زاد کا کردار اب تک ایک مشیر اور سہولت کار کی سطح پر رہا ہے۔

’تاہم خلیل زاد کو کسی اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا جائے گا یا نہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ افغانستان کے معاملے پر بات چیت اور نقطہ نظر حکمت عملی پر مبنی ہوگا یا سٹریٹجک۔‘

افغانستان کے امور کے ماہر فیض زالند کا بھی خیال ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ سے ہٹ کر افغانستان کے لیے کوئی نیا کردار نہیں بنایا جائے گا اور ان کا ماننا ہے کہ زلمے خلیل زاد کو خصوصی نمائندہ مقرر نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کردار ایک مشیر کی سطح پر جاری رہے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ کی پچھلی حکومت میں طالبان کے ساتھ بات چیت کر چکے ہیں۔

طالبان امیر ہبت اللہ پر تنقید کرنے والے سراج الدین حقانی کو مغرب کے لیے ’تبدیلی کا چہرہ‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟دنیا کی نظروں سے دور اور پراسراریت کے پردے میں لپٹے افغانستان کے رہبرِ اعلیٰ ہیبت اللہ اخونزادہ کیا سوچتے ہیں؟سراج الدین حقانی کی واحد تصویر جو پاکستانی گلوکارہ کے کیسٹ کور میں ’سمگل‘ کی گئیکیا عالمی رہنماؤں کو طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے؟

لیکن واشنگٹن میں رپبلکن پارٹی کے ایک قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ کے اندرونی حلقوں میں زلمے خلیل زاد کے بارے میں منفی سوچ پائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سیکرٹری آف سٹیٹ مارک روبیو خلیل زاد کے بارے میں زیادہ مثبت رائے نہیں رکھتے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’جہاں تک میں جانتا ہوں افغانستان کا سفر کرنے والے امریکی وفد میں خلیل زاد کی موجودگی صدر کے خصوصی نمائندے برائے یرغمالی امور ایڈم بولر کی درخواست پر تھی کہ وہ طالبان اور افغانستان کے ماہر کے طور پر اس سفر میں ان کے ساتھ جائیں۔‘

ان کے مطابق زلمے خلیل زاد کی بطور خصوصی ایلچی واپسی کے بارے میں ٹرمپ کے قریبی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شاید خلیل زاد کی طالبان سے واقفیت اور طالبان کو امریکی شہری کی رہائی پر آمادہ کرنے میں ان کے ممکنہ کردار کے باعث وہ امریکی شہری کی رہائی کے عمل میں شامل کیے گئے۔

MoFAطالبان حکومتی اہلکار کابل میں امریکی نمائندوں سے ملاقات کر رہے ہیں حکمت عملی یا چال؟

جب زلمے خلیل زاد رہائی پانے والے امریکی شہری اور ان کی ساتھی ٹیم کے ساتھ افغانستان سے روانہ ہوئے تو انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’آج کا دن اچھا ہے۔‘

امریکی نمائندوں کے اس شہر کے دورے، جسے تقریباً چار سال قبل طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں لینے اور محمد اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد امریکیوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، اس بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ آیا امریکہ اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات سفارتی طور پر ایک سنگین اور نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔

بحر اوقیانوس کونسل کے مشیر عمر صمد کا خیال ہے کہ فی الحال درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ آیا امریکی وفد کا حالیہ دورہ ایک نئی بات چیت کا آغاز ہے اور کیا اس میں مزید اقدامات شامل ہوں گے۔

’میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے ٹرمپ کی انتظامیہ نے خود افغان معاملے پر خاطر خواہ اور ضروری توجہ نہیں دی۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ افغان مسئلے پر یہ قلیل مدتی توجہ حکمت عملی پر مبنی ہے یا تزویراتی؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ حکمتِ عملی کے تحت ہے، تو اس کا مقصد محض لین دین ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ سٹریٹجکہے تو اس کے پیچھے یقیناً زیادہ سنجیدہ مقاصد ہوں گے۔ تاہم ابھی ہم اس مرحلے پر نہیں پہنچے کہ اس آپشن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کر سکیں۔‘

تاہم فیض زالند کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے پیشرو جو بائیڈن سے زیادہ افغانستان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اس وفد کو افغانستان بھیجنے اور امریکی شہری کو رہا کرنے کا کریڈٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے اس بیان سے کہ وہ اس اقدام کو خیر سگالی کی علامت سمجھتے ہیں، آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔‘

MoFAزلمے خلیل زاد کی امیر خان متقی سے ملاقاتطالبان حکومت سے ٹرمپ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

رپبلکن پارٹی کے ایک قریبی ذریعے کے مطابق ’ٹرمپ کے طرز عمل کو ان کی انتخابی مہم کے وعدوں کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے، جنھیں وہ پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان میں سے ایک دنیا کے مختلف حصوں میں قید امریکی شہریوں کی رہائی ہے۔ اس وقت دو دیگر امریکی شہری اب بھی افغانستان میں قید ہیں۔‘

ایک اور بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے خارجہ پالیسی کے نظام میں افغانستان کا مسئلہ ایک 'غیر حل شدہ عالمی بحران اور ایک نامکمل منصوبہ' سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کی ترجیحی سطح کم ہے۔

عمر صمد کا خیال ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکہ کا نظریہ افغانستان سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔

’بنیادی سٹریٹجک مسئلہ چین کے ساتھ مقابلہ ہے اور شاید کچھ امریکی حلقوں میں بھی ایران اور مشرق وسطیٰ کا مسئلہ کسی حد تک افغانستان کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مشیر گریم سمتھ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے لیے طالبان حکومت کے پاس آفر کرنے کو زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔

’یہ طالبان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ جب متقی، خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو ان کے پاس پیشکش کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے پاس چند امریکی یرغمالی ہیں جن کی رہائی میں امریکہ دلچسپی رکھتا ہے۔ دوسری جانب، افغانستان کے کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی وسائل طالبان کے لیے بہت اہم ہیں اور وہ امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سرمایہ کاری کے لیے نجی کمپنیوں کی دلچسپی ضروری ہوتی ہے اور فی الحال افغانستان میں نہ آئین ہے نہ ہی مستحکم قوانین، جو سرمایہ کاری کے لیے ایک بنیادی شرط ہیں۔‘

گریم سمتھ کا خیال ہے کہ ان قوانین کے نہ ہونے سے افغانستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

’یہ بہت، بہت مہنگا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ طالبان امریکیوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا پیشکش کر سکتے ہیں۔‘

گریم سمتھ جس مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں اور جس پر مغربی اتحادی بشمول امریکہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ ’دہشت گردی کا خطرہ‘ ہے، خاص طور پر داعش-خراسان (آئی ایس ایس کے) گروپ۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور اس کے اتحادی نہ صرف طالبان سے انٹیلی جنس حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ طالبان داعش کے خلاف مؤثر کارروائی بھی کریں۔‘

کیا عالمی رہنماؤں کو طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے؟اربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیںافغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘دنیا کی نظروں سے دور اور پراسراریت کے پردے میں لپٹے افغانستان کے رہبرِ اعلیٰ ہیبت اللہ اخونزادہ کیا سوچتے ہیں؟سراج الدین حقانی کی واحد تصویر جو پاکستانی گلوکارہ کے کیسٹ کور میں ’سمگل‘ کی گئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More