افغان بچے کیسے طورخم بارڈر پار کرتے ہیں اور ان کی یومیہ آمدن کتنی ہے؟

اردو نیوز  |  Mar 25, 2025

پاکستان نے غیرقانونی طور پر ضلع خیبر کے ذریعے داخل ہونے والے 50 کم عمر افغان بچوں کو طورخم بارڈر کے راستے ڈی پورٹ کر دیا۔

غیرقانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والے افغانی بچوں کو اتوار کو قبائلی جرگے کے فیصلے کے بعد افغانستان واپس بھیجا گیا۔

تحصیل لنڈی کوتل میں قبائلی جرگے کے مشران نے رمضان کی خاطر جذبہ خیر سگالی کے تحت بچوں کو افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جس پر فرنٹیئر کور نارتھ نے عمل کرتے ہوئے بچوں کو بحفاظت ڈی پورٹ کر دیا۔

محکمہ داخلہ کے حکام کے مطابق ’افغانستان سے روزانہ 600 سے زائد بچے اور نوجوان غیرقانونی طریقے سے طورخم بارڈر پار کر کے پاکستان آتے ہیں۔‘

’یہ بچے بارڈر پر لگی باڑ کو پھلانگ کر یا اس میں سوراخ کر کے سرحد پار کرتے ہیں اور سمگلنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔‘

محکمہ داخلہ کے مطابق یہ کم عمر بچے بارڈر کے دونوں اطراف سمگلنگ کا سامان بیچتے ہیں۔

’افغانستان سے منشیات اور دیگر ممنوعہ چیزیں پاکستان کی حدود میں لا کر بیچتے ہیں۔ اسی طرح لنڈی کوتل سے چینی، آٹا یا اشیائے خورو نوش واپس ساتھ لے کر جاتے ہیں اور افغانستان کی مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔‘

افغان بچوں کی یومیہ آمدن؟ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او عدنان آفریدی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان سے آنے والے بچے پاک افغان باڑ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ بچے چوری چھپے بارڈر کی مختلف جگہوں سے ضلع خیبر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔‘

’روزانہ کی بنیاد پر یہ پاکستان میں داخل ہو کر آئس اور ہیروئن سمیت بارود کی سمگلنگ کا دھندہ بھی کرتے ہیں، جس سے علاقے کے امن و امان کو سنگین خدشات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فی افغان بچہ یومیہ 10 سے 15 ہزار روپے کمائی کر رہا ہے، اسی لیے یہ بچے جان پر کھیل کر بارڈر کے آر پار یہ دھندہ کر رہے ہیں۔‘

شاہ خالد شنواری کے مطابق بارڈر کے دونوں جانب حالات ناسازگار ہیں اگر خدانخواستہ ان کم عمر بچوں کو کچھ ہوا تو مسئلہ گھمبیر ہو سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)ایس ایچ او عدنان آفریدی کے مطابق ’ان افغان بچوں کی عمریں آٹھ سے 14 برس تک ہوتی ہیں، اور ان میں بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ بچے گروہ کی شکل میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ محدود مقدار میں سامان لاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’متعدد بار ان افغان بچوں کو گرفتار کر کے وارننگ دی گئی ہے تاہم یہ سلسلہ رکنے کی بجائے ان کم عمر سمگلروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

افغان بچے سرحد کیسے پار کرتے ہیں؟ایس ایچ او لنڈی کوتل نے ان کے طریقہ واردات کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ افغان بچے صبح سویرے بارڈر سے چوری چھپے طورخم پہنچ جاتے ہیں، پھر شام سے پہلے وہ مال بردار گاڑیوں میں چھپ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو گاڑیوں کے نیچے آ کر کئی بار حادثات بھی پیش آ چکے ہیں۔‘

کسٹم کلیئرنس ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق افغان سے غیرقانونی بچوں کے ساتھ بہت نرمی کی جاتی ہے کیونکہ ان کی عمریں کم ہوتی ہیں مگر اب ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے وطن واپس جاتے وقت جان پر کھیل کر بڑی گاڑیوں کے نیچے یا ٹائروں کے اوپر والے حصوں میں چھپ جاتے ہیں۔

کسٹم حکام کے مطابق متعدد واقعات میں بچوں کو گاڑیوں سے اتارا گیا اور متعلقہ ڈرائیور کی سرزنش کی گئی ہے۔

ایس ایچ او عدنان آفریدی کا کہنا ہے کہ علاقے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر افغان حکام کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بصورت دیگر ان افغان بچوں کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو 31 مارچ تک رضاکارانہ واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)لنڈی کوتل چیئرمین شاہ خالد شنواری نے کہا کہ پیسوں کی لالچ میں افغان باشندے اپنے بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔

’والدین کو چاہیے کہ کم عمر بچوں سے اپنے ملک کے اندر محنت مشقت کروائیں یا پھر قانونی طریقے سے پاکستان بھیجیں تاکہ ان کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔‘

شاہ خالد شنواری کے مطابق بارڈر کے دونوں جانب حالات ناسازگار ہیں اگر خدانخواستہ ان کم عمر بچوں کو کچھ ہوا تو مسئلہ گھمبیر ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو 31 مارچ تک رضاکارانہ واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ مقررہ تاریخ کے بعد سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More