ایک حالیہ انٹرویو میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے دیرینہ حریف چین کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا اور چین کے درمیان متنازعہ سرحد پر حالات اب معمول پر آگئے ہیں۔ اپنے اسی بیان کے ساتھ ساتھ انڈین وزیراعظم نے دونوں مُمالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھنے پر زور دیا۔
یہ بیانات حیران کن ہیں کیونکہ سنہ 2020 میں شمالی لداخ کے علاقے میں ایک خوفناک سرحدی تصادم کے بعد سے انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور یہ سنہ 1962 کی جنگ کے بعد پہلا موقع تھا کہ یہ دونوں مُمالک ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤننگ نے انڈین وزیراعظم مودی کے حالیہ بیان اور اُن کے الفاظ کی تعریف کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ ’دونوں ممالک کو شراکت دار ہونا چاہیے جو ایک دوسرے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘
انڈیا اور چین کے درمیان پائے جانے والے کشیدہ حالات کے تناظر میں وزیراعظم مودی کا دوطرفہ تعلقات سے متعلق حالیہ بیان اور شراکت داری میں بہتری کی اُمید جس قدر بڑی بات دکھائی دے رہی ہے اُتنی ہے نہیں۔
دونوں مُمالک کے درمیان تعلقات اب بھی کشیدہ ہیں اور اسے حقیقی معنوں میں خطے کے سیاسی منظر نامہ پر لانے کے لیے ابھی بہت کُچھ ہونا باقی ہے۔
انڈیا اور چین کے تعلقات میں بہت سے روشن ادوار بھی رہے ہیں۔
لداخ کے معاملے پر دونوں مُمالک کے درمیان کشیدہ حالات اور تصادم کے بعد بھی چین انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت مستقل طور پر مستحکم ہے۔
دونوں مُمالک بڑے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد برکس سے لے کر ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک تک کثیر الجہتی تعاون کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ غیر مغربی معاشی ماڈلز کو آگے بڑھانے، اسلامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لداخ میں مسلح شورش کے بعد بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت جاری رہی جس کے نتیجے میں اکتوبر میں سرحدی گشت دوبارہ شروع کرنے کا معاہدہ طے پایا۔
مودی نے رواں مہینے روس میں برکس سربراہ اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی اور انھوں نے مزید تعاون سے متعلق بات کی تھی۔ جنوری میں فریقین نے براہِ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس کے باوجود یہ رشتہ اب بھی ’کشیدہ‘ ہے۔
Getty Imagesسنہ 2020 میں شمالی لداخ کے علاقے میں ایک خوفناک سرحدی تصادم کے بعد سے انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور یہ سنہ 1962 کی جنگ کے بعد پہلا موقعہ تھا کہ یہ دونوں مُمالک ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
انڈیا اور چین کے درمیان معاملہ یہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے اہم حریف کے ساتھ قریبی اور مستحکم سکیورٹی تعلقات رکھتے ہیں، یعنی انڈیا امریکہ کے ساتھ اور چین پاکستان کے ساتھ۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ چین متنازعہ کشمیر کے علاقے میں انڈیا کی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ بیجنگ نیوکلیئر سپلائرز گروپ جیسے بااثر گروپ میں اس کی رکنیت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کو روک کر انڈیا کے عظیم طاقت بننے کے عزائم میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
چین کا واحد غیر مُلکی بحری اڈہ انڈیا کے وسیع سمندری احاطے میں ہے۔
دریں اثنا انڈیا تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کر رہا ہے جسے چین ایک منحرف صوبے کے طور پر دیکھتا ہے اور بیجنگ اسے ایک خطرناک علیحدگی پسند سمجھتا ہے۔
انڈیا جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کو سپرسونک میزائلوں کی فروخت کی کوشش میں ہے جو چین کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب چین کئی عالمی فورمز جیسے انڈو پیسفک کواڈ اور مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور، جن سے انڈیا کا تعلق ہے، انڈیا کے چین مخالف اقدامات کی روک تھام کے طور پر دیکھتا ہے۔
مستقبل کے تعلقات اور آگے بڑھنے کے لیے استعمال ہونے والے راستوں کے بارے میں جاننے کے لیے متعدد نکات پر نظر ڈالنی پڑے گی۔
ان میں سے ایک سرحدی مذاکرات ہیں۔ دونوں مُمالک کے درمیان 2،100 میلطویل سرحد کا پچاس ہزار مربع میل کا علاقے متنازعہ ہے، اس رقبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رقبہ یونان جتنا ہے۔
کیا جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ’دوستیاں‘ انڈیا کو خطے میں ’تنہا‘ کر سکتی ہیں؟کیا انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی کم کر کے اپنے تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟سرینگر اور لداخ کے درمیان ہائی وے پر حملہ انڈیا کے لیے نیا سکیورٹی چیلنج کیوں؟
سرحدی کشیدہ صورتحال دونوں مُمالک کے درمیان بہتر تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لداخ جھڑپ نے دونوں جانب ہی اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ختم ہی کر دیا ہے۔
گزشتہ سال کے سرحد پر سے گشت اور فوجیں پیچھے ہٹانے کے حوالے سے چین اور انڈیا کے درمیان معاہدے نے اسے بحال کرنے میں مدد کی۔ اگر دونوں فریق اعتماد سازی کے مزید اقدامات کی جانب بڑھتے ہیں تو تعلقات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں۔
مستقبل میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں بھی اہم ثابت ہوں گیں۔ اگر مودی اور شی جن پنگ جو دونوں ذاتی سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں اس سال ملاقات کرتے ہیں تو اس سے دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کے خیال کو تقویت ملے گی۔
انھیں جولائی میں برکس، نومبر میں جی 20 اور اس سال کے آخر میں شنگھائی تعاون گروپ (ایس سی او) کے رہنماؤں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر مل بیٹھنے اور بات کرنے کے مواقع ملیں گے۔
ایک اور اہم معاملہ چینی سرمایہ کاری ہے جو مینوفیکچرنگ سے لے کر قابل تجدید توانائی تک اہم انڈین صنعتوں میں اہم سرمایہ لائے گی اور چین کے ساتھ انڈیا کے 85 بلین ڈالر (65.7 بلین پاؤنڈ) کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔
اس طرح کی سرمایہ کاری میں اضافے سے انڈیا کو بروقت معاشی استحکام ملے گا اور چین کو دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت تک زیادہ آسان رسائی حاصل ہو گی۔ مضبوط تجارتی تعاون وسیع تر تناؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
تاہم اس سب کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھنی پڑے گی۔
Getty Imagesمودی، پوتن اور شی گزشتہ سال کازان میں برکس سربراہ اجلاس کے موقع پر
انڈیا کے چار ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا میں حال ہی میں نئے رہنماؤں کا عہدہ سنبھالا ہے جو اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں چین کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں۔ لیکن اب تک انھوں نے بیجنگ اور دہلی کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے نہ کہ چین کے ساتھ اتحاد کرنے کی۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انڈیا کے پڑوس میں بیجنگ کے اثر و رسوخ کے بارے میں دہلی کے خدشات کچھ کم ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر یوکرین جنگ کے تناظر میں چین انڈیا کے قریبی دوست مُلک روس کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی شراکت داری سے پیچھے ہٹ جاتا ہے تو اس کے انڈیا اور چین کے تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
یہاں امریکی صدر ٹرمپ بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک جانب تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر محصولات عائد کیے ہیں تو دوسری جانب وہ بیجنگ کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور دہلی کو ڈر ہے کہ واشنگٹن چین کا مقابلہ کرنے میں انڈیا کی مدد کرنے کے لیے پرعزم نہیں ہے تو انڈیا اس بات کو یقینی بنانا چاہے گا کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات بحال ہوں۔
مزید یہ کہ اگر ٹرمپ کی آنے والی باہمی محصولات کی پالیسی انڈیا کو سخت متاثر کرتی ہے اور امریکہ اور انڈیا کے درمیان 10 فیصد اوسط ٹیرف فرق کو دیکھتے ہوئے یہ یقینی طور پر ہوسکتا ہے کہ انڈیا کو بیجنگ کے ساتھ تجارتی تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اور موقع ملے گا۔
انڈیا اور چین ایشیا کے دو سب سے بڑے ممالک ہیں اور دونوں اپنے آپ کو قابل فخر تہذیبی ریاستوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وہ روایتی حریف تو ہیں لیکن تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت اور دیگر محاذوں پر دوطرفہ پیش رفت کے امکانات تعلقات میں مزید استحکام لا سکتے ہیں، مگر یہاں جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ انڈین وزیراعظم مودی کے الفاظ مفاہمت کی فضا کو بڑھانے والے ہوں نہ کے محض بیان بازی۔
چین کے نئے نقشے میں انڈیا کے بعض حصے شامل کرنے پر شدید ردعمل: ’چین ہمیں سوئی چبھونے کا کوئی موقع بھی جانے نہیں دیتا‘انڈیا نے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس دہلی کی بجائے ورچوئلی منعقد کرانے کا فیصلہ کیوں کیا؟کیا انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی کم کر کے اپنے تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں؟چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟سرینگر اور لداخ کے درمیان ہائی وے پر حملہ انڈیا کے لیے نیا سکیورٹی چیلنج کیوں؟کیا جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ’دوستیاں‘ انڈیا کو خطے میں ’تنہا‘ کر سکتی ہیں؟