امریکی اعلیٰ عہدیداروں کی گروپ چیٹ لیک: سگنل ایپ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 26, 2025

Getty Imagesماہانہ چار سے سات کروڑ افراد سگنل استعمال کرتے ہیں، ویسے واٹس ایپ کے مقابلے میں یہ کافی چھوٹی ایپ ہے

رواں ہفتے میسیجنگ ایپلیکیشن سگنل اس وقت خبروں کی زینت بنی جب وائٹ ہاؤس نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک صحافی کو غلطی سے امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کر لیا گیا تھا جہاں حکام حوثیوں کے خلاف حملے کے منصوبے کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔

دی ایٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف جیفری گولڈ برگ نے سوموار کے روز انکشاف کیا تھا کہ انھیں سگنل میسیجنگ ایپ کے ایک ایسے گروپ میں شامل کیا گیا تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور نائب صدر جے ڈی ونس نامی اکاؤنٹ بھی شامل تھے۔

صحافی گولڈبرگ کے مطابق انھوں نے حملوں سے متعلق ایسے خفیہ فوجی منصوبے دیکھے ہیں جن میں اسلحہ پیکجز، اہداف اور حملے کے اوقات بھی درج تھے اور یہ بات چیت بمباری ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہو رہی تھی۔

گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے نمبر کو گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق کم از کم یہ کسی ایسے شخص کا نمبر نہیں تھا جو حوثیوں کا حامی تھا کیونکہ اس چیٹ گروپ میں ایسی معلومات شیئر کی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں اس آپریشن میں شامل افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کو کافی تنقید کا سامنا ہے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے لیڈر چک شمر نے اسے ملٹری انٹیلیجنس کی تاریخ کے سب سے بڑے لیک میں سے ایک قرار دیا ہے اور اس معاملے کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ماتحت انٹیلیجنس اداروں کے سربراہوں نے گولڈ برگ کو غلطی سے امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان قومی سلامتی کے معاملے میں ہونے والی گفتگو تک رسائی دیے جانے کے معاملے کی سنگینی کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے۔

سینیٹ کی جانب سے طلبی پر امریکہ کی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس تلسی گبارڈ اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے اس بات کی تردید کی کہ جس سگنل گروپ چیٹ میں صحافی جیفری گولڈ برگ کو شامل کیا گیا تھا اس میں کسی قسم کی خفیہ معلومات شیئر کی گئی تھیں۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ اور ان کی وائٹ ہاؤس کی ٹیم نے اس سارے تنازع کو صدر کے کارناموں سے توجہ ہٹانے کی ایک ’مربوط کوشش‘ قرار دینے کی کوشش کی۔

اس کے علاوہ صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز جنھوں نے گولڈ برگ کو عہدیداروں کے اس گروپ میں شامل کیا تھا کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک چھوٹی سی غلطی تھی جس کا حکومتی کام پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’مائیکل والٹز نے سبق سیکھ لیا ہے اور وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔‘

اس تمام تنازع کے بعد ایک سوال جو پیدا ہوتا وہ یہ ہے کہ سگنل ہے کیا اور آیا اس پر اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی گفتگو کتنی محفوظ تھی؟

محفوظ سمجھی جانے والی ایپGetty Images

ماہانہ چار سے سات کروڑ افراد سگنل استعمال کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کافی چھوٹی ایپ ہے۔ اس کے مقابلے میں واٹس ایپ اور میسنجر جیسی بڑی میسیجنگ ایپلیکیشنز کے ماہانہ صارفین کی تعداد اربوں میں ہے۔

تاہم ایک چیز جس میں یہ ایپلیکیشن واٹس ایپ اور دیگر میسیجنگ ایپس سے بہتر ہے وہ اس کی سکیورٹی ہے۔

سگنل ایپ میں صارف کو اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن (ای 2 ای ای) حاصل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف پیغام بھیجنے والا اور جسے پیغام بھیجا گیا ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی اس پیغام کو نہیں دیکھ سکتا، حتیٰ کہ سگنل کے سٹاف کو بھی ان پیغامات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

سگنل کے علاوہ واٹس ایپ اور دیگر میسیجنگ پلیٹ فارمز بھی اپنے صارفین کو اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی سہولت فراہم کرتے ہیں تاہم سگنل کا سکیورٹی فیچر اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

مثال کے طور پر، سگنل ایپلیکیشن کا کوڈ اوپن سورس ہے اور اسے کوئی بھی چیک کر سکتا ہے۔ اس سے یہ بات یقینی بنائی جا سکتی ہے کہ اس ایپلیکیشن میں کوئی ایسی خرابی نہیں جس کا فائدہ اٹھا کر ہیکرز اس میں مداخلت کر سکیں۔

سگنل کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کا بہت کم ڈیٹا جمع کرتے ہیں، خاص طور پر صارفین کے نام، ان کی پروفائل تصاویر اور وہ کن گروپس کا حصہ ہیں، اس بارے میں کوئی معلومات اپنے پاس نہیں رکھتے۔

اس کے علاوہ سگنل کو ان سہولیات کو کم کر کے زیادہ رقم کمانے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ ایپلیکیشن سگنل فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے جو امریکہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ یہ تنظیم اشتہارات کے بجائے چندے پر انحصار کرتی ہے۔

امریکی حکام کی سگنل گروپ چیٹ کے لیک ہونے کے بعد سگنل کی صدر میریڈتھ وٹٹیکر کا ایکس پر اپنے ایک پیغام میں کہنا تھا کہ سگنل پرائیویٹ کمیونیکیشن میں سب سے بہترین ہے۔

’یہ غیر معمولی ہے‘Getty Imagesسگنل کا یہ دعویٰ کہ وہ سکیورٹی اعتبار سے پرائیوٹ کمیونیکیشن کی بہترین ایپ ہے، اسے صحافیوں اور سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ میں کافی مقبولیت حاصل ہے اور ان کی بڑی تعداد اسے استعمال کرتی ہے

سگنل کا یہ دعویٰ کہ وہ سکیورٹی اعتبار سے پرائیوٹ کمیونیکیشن کی بہترین ایپ ہے، اسے صحافیوں اور سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ میں کافی مقبولیت حاصل ہے اور ان کی بڑی تعداد اسے استعمال کرتی ہے۔

تاہم سگنل کی اتنے سکیورٹی فیچرز کے باوجود یہ قومی سلامتی کے امور جیسے حساس معاملات کے بارے میں اعلیٰ حکام کے درمیان گفتگو کے لیے موزوں نہیں سمجھی جاتی۔

اگر کوئی آپ کا فون حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں سگنل کھلا ہوا ہو یا انھیں اس کا پاس ورڈ مل جائے تو وہ آپ کے پیغامات پڑھ سکتے ہیں۔

اور کوئی بھی ایپلیکیشن کسی شخص کو عوامی مقامات پر آپ کے فون میں جھانکنے سے نہیں روک سکتی۔

ڈیٹا ایکسپرٹ کارو روبسن کو امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے امریکی اعلیٰ عہدیداروں کا رابطے کے لیے سگنل جیسے پرائیوٹ میسیجنگ ایپلیکیشن کا استعمال کافی غیر معمولی عمل ہے۔

’عام طور پر بہت ہی محفوظ حکومتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جو کہ حکومت کی ملکیت ہوتی ہے اور اس کے لیے بہت اعلی درجے کی انکرپشن استعمال کی جاتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں امریکی حکومت قومی سلاتی کے امور پر گفتگو کے لیے سکِف نامی نظام استعمال کرتی آئی ہے جس پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔

White House2011 میں اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما اور ان کی ٹیم کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے امریکی چھاپے کے دوران لی گئی تصویر جس میں ائٹ ہاؤس سیچویشن روم جو کہ ایک سکِف ہے دکھائی دے رہا ہے۔

سکِف ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ذاتی الیکٹرونک آلات لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ روبسن کہتی ہیں کہ ایسی معلومات تک رسائی کے لیے آپ کو ایک ایسے خاص کمرے یا عمارت میں جانا پڑتا ہے جس کی کسی بھی طرح کے جاسوسی کے آلات کی موجودگی کے لیے تلاشی لی گئی ہوتی ہے۔

سکِف فوجی اڈوں سے لے کر حکام کے گھروں تک میں ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ پورا نظام بہت زیادہ انکرپٹڈ اور محفوظ ہوتا ہے جس کے لیے حکومت کا اعلیٰ درجے کا کرپٹوگرافی استعمال کیا جاتا ہے خاص طور جب کوئی دفاعی معاملہ ہو۔

انکرپشن اور ریکارڈز

سگنل کے ساتھ ایک اور مسئلہ غائب ہونے والے میسجز کا فیچر ہے۔ کئی دیگر ایپس کی طرح آپ سگنل میں بھی ایسے پیغامات بھیج سکتے ہیں جو وقت کے ساتھ غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ یہ پیغامات کتنے وقت کے بعد غائب ہوں گے۔

امریکی عہدیداروں کے گروپ چیٹ میں شامل کیے گئے صحافی جیفری گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ مذکورہ گروپ میں بھِیجے گئے کچھ میسجز ایک ہفتے بعد غائب ہونے کے لیے سیٹ کیے گئے تھے۔

اس سے ریکارڈ رکھنے کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اگر یہ ایپ استعمال کرنے والے صارفین اپنے پیغامات کسی سرکاری اکاؤنٹ پر فارورڈ نہ کر دیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے حوالے سے تنازع پیدا ہوا ہے۔

مختلف حکومتیں پیغام رسانی کی ایپلیکیشنز میں خفیہ رسائی چاہتی ہیں تاکہ وہ ایسے پیغامات پڑھ سکیں جو ان کے خیال میں قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

سگنل اور واٹس ایپ جیسی کمپنیوں نے ماضی میں ایسی کوششوں کی مخالفت کی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ ایسی رسائی کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔

سگنل نے 2023 میں برطانیہ سے اپنی ایپ ہٹانے کی دھمکی دی تھی اگر قانون سازوں نے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

رواں سال، برطانوی حکومت کا ایپل کے ساتھ بھی ایک اسی طرز کا تنازع سامنے آیا۔ ایپل کلاؤڈ سٹوریج میں مخصوص فائلوں کی حفاظت کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کا استعمال کرتی ہے۔

برطانوی حکومت نے ایپل سے محفوظ ڈیٹا تک رسائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد کمپنی نے یہ فیچر ہی ختم کر دیا۔

یہ مقدمہ اب بھی جاری ہے۔

لیکن جیسے کہ اس سارے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سکیورٹی فیچر یا قانونی پابندی آپ کے ڈیٹا کو محفوظ نہیں رکھ سکتی اگر آپ اپنی خفیہ معلومات خود ہی کسی غلط شخص کے حوالے کر دیں۔

جیسے کہ ایک ناقد لکھتے ہیں، 'کوئی بھی انکرپشن آپ کو بیوقوفی سے نہیں بچا سکتی۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More