BBCڈاکٹر کیلون کو یہ تاثر ملا کہ بی بی سی کی صحافی برطانوی کیئر سیکٹر میں اثرورسوخ رکھتی ہے اور انھوں نے بی بی سی کی صحافی کو منافع کا لالچ دیتے ہوئے اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کی
برطانیہ کے کیئر سیکٹر میں ملازمت کا جھانسہ دے کر غیر ملکی افراد کو فراڈ کا نشانہ بنانے والے ایجنٹ کیسے کام کرتے ہیں؟ بی بی سی نے خفیہ طریقے سے ان کی کارروائی کو فلم کیا ہے۔
ان میں سے ایک ایسے ایجنٹ کا تعلق نائجیریا سے ہے جو خود ڈاکٹر ہیں اور برطانیہ میں این ایچ ایس کے لیے کام بھی کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملک کا نظام اس کام کے لیے استعمال ہو سکتا ہے تاہم بی بی سی ورلڈ سروس کی تفتیش سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ایجنٹوں کے لیے لوگوں کو دھوکہ دے کر بچ نکلنا اور منافع کماتے رہنا کتنا آسان ہے۔
خفیہ طریقے سے فلم بنانے کے دوران ان ایجنٹوں کے کئی ہتھکنڈے سامنے آئے جیسا کہ:
برطانیہ کے کیئر سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں میں غیر قانونی طریقے سے ملازمت کی فروختجعل سازی کے ذریعے ملازمتوں کو چھپانا جو وجود ہی نہیں رکھتیںکیئر سیکٹر سے دوسرے شعبہ جات میں منتقلی جیسا کہ تعمیرات جہاں ملازمین کی قلت ہے
واضح رہے کہ امیگریشن سے جڑے فراڈ میں برطانیہ کی نئی ویزا سکیم متعارف کروائے جانے کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔ اس پالیسی کے تحت 2022 میں کیئر سیکٹر میں کام کرنے والوں کو شامل کیا گیا تھا جس کا مقصد برطانیہ کے طبی شعبے میں غیر ملکیوں کو کام کرنے کی اجازت میں توسیع دینا تھا۔
تاہم ویزا کے لیے درخواست دینے سے قبل، امیدواروں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ کی کسی کمپنی، جس کے پاس محکمہ داخلہ کا لائسنس ہو، سے سپانسر شپ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں۔ اور اسی ضرورت کو ایجنٹ استعمال کرتے ہیں۔
ڈورا اولیویا ورک رائٹس سینٹر کی سی ای او ہیں۔ یہ تنظیم لوگوں کو برطانیہ میں ملازمت کے حصول میں انصاف فراہم کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طبی شعبے اور کیئر سیکٹر میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور یہ ’قومی بحران بن چکا ہے۔‘
ڈورا کا کہنا ہے کہ سپانسر شپ نظام میں خامیاں ہیں کیوں کہ ’ملازمت دینے والے کے پاس طاقت آ جاتی ہے۔‘
بی بی سی کے دو صحافی برطانیہ میں کام کرنے والے ایجنٹوں کے پاس گئے۔ ان میں سے ایک کی ملاقات ڈاکٹر کیلون سے ہوئی جو نائجیریا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہیں اور ایسیکس میں ’کیریئر ایڈو‘ کے نام سے ایک ایجنسی کے بانی بھی ہیں۔
ان کی ایجنسی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ نوجوان افریقی شہریوں کو عالمی مواقع فراہم کرتے ہیں اور ان کی خدمات تقریبا دس ہزار لوگ کامیابی سے حاصل کرچکے ہیں۔
Getty Images
ڈاکٹر کیلون کو یہ تاثر ملا کہ بی بی سی کی صحافی برطانوی کیئر سیکٹر میں اثرورسوخ رکھتی ہے اور انھوں نے بی بی سی کی صحافی کو منافع کا لالچ دیتے ہوئے اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کی۔
’بس مجھے کچھ کیئر ہوم لے دیں، میں آپ کو لکھ پتی بنا سکتا ہوں،‘ ڈاکٹر کیلون نے کہا۔
اپنے ممکنہ کاروباری پارٹرنر، بی بی سی صحافی کو، پھر ڈاکٹر کیلون نے فراڈ کی اندرونی کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ کسی بھی کیئر ہوم میں ملازمت کی آسامی کے لیے دو ہزار پاؤنڈ دیں گے۔ اس کے علاوہ پانچ سو پاؤنڈ کمیشن کی پیشکش بھی کی گئی۔
ڈاکٹر کیلون نے بتایا کہ وہ یہ آسامیاں نائجیریا کے امیدواروں کو فروخت کریں گے۔ یاد رہے کہ برطانوی قانون کے مطابق ملازمت کی آسامی فروخت کرنا غیر قانونی ہے۔
ڈاکٹر کیلون کو یہ بات معلوم ہے۔ انھوں نے دھیمی آواز میں کہا کہ ’امیدواروں کو پیسے نہیں دینے ہوتے کیوں کہ یہ مفت ہے اور اسے مفت ہونا چاہیے۔ وہ اس لیے پیسے دے رہے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہی واحد راستہ ہے۔‘
بی بی سی نے ڈاکٹر کیلون کے بارے میں آن لائن شکایات موصول ہونے کے بعد ان کے بارے میں تحقیق شروع کی تھی۔ ایک شخص نے شکایت کی تھی کہ ڈاکٹر کیلون کو انھوں نے ملازمت کے لے دس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی ادائیگی کی اور انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں ایک کیئر کمپنی میں کام ملے گا لیکن برطانیہ پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ایسی کوئی آسامی وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔
BBC10000 پاؤنڈ دینے والے پریز نی بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں ایک کیئر کمپنی میں کام ملے گا لیکن برطانیہ پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ایسی کوئی آسامی وجود ہی نہیں رکھتی تھی
اس شخص نے بتایا کہ ’اگر مجھے علم ہوتا کہ نوکری نہیں ہے تو میں آتا ہی نہیں۔ نائجیریا میں پیسے نہ ہو تو کم از کم میں والدین کے پاس، بہن کے پاس جا کر کھانا تو کھا سکتا ہوں۔ یہاں تو میں بھوکا رہتا ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی ماہ تک ڈاکٹر کیلون کو پیغامات بھیجے لیکن وعدے کے برخلاف نوکری نہیں ملی۔ تقریبا ایک سال بعد ان کو ایک اور کمپنی سے کام مل گیا۔
ہماری تفتیش سے علم ہوا کہ جس کمپنی میں انھیں ملازمت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس نے 2022 میں 16 جبکہ2023 میں 152 لوگوں کو ملازمت دی تاہم محکمہ داخلہ کی جانب سے اس کمپنی کو مئی 2023 میں بھیجے جانے والے ایک خط کے مطابق مارچ 2022 سے مئی 2023 کے درمیان اس کمپنی نے 1234 سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ جاری کیے۔
برطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘برطانیہ میں بھاری منافع کمانے والے کیئر ہوم میں غیر ملکی ملازمین کا استحصال: ’اگر اپنے مُلک میں ہوتی تو ایسی ملازمت سے استعفیٰ دے سکتی‘پاکستانی ’بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے کو ملک میں رہنے پر ترجیح‘ کیوں دے رہے ہیں؟’ہمیشہ کام کرنے اور کبھی آرام نہ کرنے‘ کا رواج جو نوکری پیشہ افرادکو ذہنی طور پر توڑ رہا ہے
جولائی 2023 میں ’ایفیشنسی فار کیئر‘ نامی اس کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا اور اب یہ کمپنی بیرون ملک سے ملازمین نہیں رکھ سکتی تاہم برطانیہ میں کام کر رہی ہے۔
کمپنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کیلون کے ساتھ مل کر کام کرنے کے الزامات کی تردید کی۔ کمپنی کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ انھوں نے نائجیریا سمیت دیگر ملکوں سے قانونی طریقے سے لوگوں کو رکھا۔ کمپنی کے مطابق وہ اپنا لائسنس منسوخ کرنے کے عمل کو عدالت میں چیلنج کر چکے ہیں اور معاملہ زیر سماعت ہے۔
وہ نوکریاں جن کا وجود نہیں
خفیہ طریقے سے فلمائی گئی ایک اور ملاقات میں ڈاکٹر کیلون نے فراڈ کا ایک اور مربوط طریقہ بتایا جس میں ایسی نوکریوں کے لیے سپانسر شپ دستاویز جاری کر دی جاتی ہیں جن کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر کیلون کے مطابق ایسے سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ جس کا کسی مخصوص نوکری سے تعلق نہیں ہوتا ’یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کوئی بھی شہر چن سکتے ہیں۔‘
’آپ لندن جا سکتے ہیں، گلاسگو جا سکتے ہیں، کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔‘
لیکن یہ درست دعوی نہیں ہے۔ اگر کوئی غیر ملکی ہیلتھ اور کیئر ورک ویزا پر برطانیہ آتا ہے اور ان کو وہ مخصوص ملازمت نہیں ملتی تو ان کا ویزا منسوخ کیا جا سکتا ہے اور انھیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم خفیہ فلمنگ کے دوران ڈاکٹر کیلون نے بتایا کہ انھوں نے ایک جعلی نظام بنا رکھا ہے جو اس حقیقت کو چھپاتا ہے کہ یہ نوکریاں اصلی نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ’حکومت نے تو بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ پیسے کہاں جا رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر کیلون نے بعد میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک بیان میں اس الزام کی تردید کی کہ ان کی کمپنی پیسوں کے لیے نوکریاں بیچ رہی ہیں یا کوئی فراڈ کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کمپنی صرف قانونی طریقے سے کام کرتی ہے۔ ایک مخصوص سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جس شخص نے دس ہزار پاؤنڈ دیے، اس کے پیسے ایک اور ایجنٹ کو دے دیے گئے تھے جس نے ٹرانسپورٹ، رہائش اور تربیت کا انتظام کیا تھا۔ ان کے مطابق انھوں نے اس شخص کو بنا کسی معاوضے کے ملازمت ڈھونڈ کر دینے کی پیشکش بھی کی تھی۔
بی بی سی نے ایک اور ایجنٹ سے بھی خفیہ ملاقات کی جن کا نام نانا اکواسی ہے۔ بہت سے لوگوں نے بی بی سی کو شکایت کی تھی کہ انھوں نے نانا اکواسی کو ہزاروں پاؤنڈ ادا کیے لیکن ملازمت نہیں ملی۔ ان افراد کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کو ملنے والے سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ جعلی نکلے۔
BBCان خاتوں کا الزام ہے کہ نانا اکواسی کو متعدد لوگوں نے 35000 پاؤنڈ دیے
ہماری تفتیش میں علم ہوا کہ نانا اکواسی نے تعمیرات کے شعبے میں سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ دینے کی پیشکش شروع کی اور انھوں نے اپنی تعمیراتی کمپنی بنا کر محکمہ داخلہ سے سپانسر شپ لائسنس بھی حاصل کر لیا۔
بی بی سی صحافی نے یوگانڈا سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت کا روپ دھارا اور نانا اکواسی سے اس بہانے سے ملاقات کی کہ کیا یوگانڈا سے لوگوں کو برطانیہ لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تین لوگوں کو لانے کے لیے 42 ہزار پاؤنڈ معاوضہ بتایا۔
نانا اکواسی کے مطابق انھوں نے تعمیراتی شعبے کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ باقی شعبوں میں قوانین سخت ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانوی کیئر سیکٹر میں جولائی 2022 سے دسمبر 2024 کے درمیان حکومت نے 470 لائسنس منسوخ کیے جن کو جاری کرنے والے مختلف سپانسر نے 39 ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کی تھیں۔
محکمہ داخہ نے نانا اکواسی کا لائسنس بھی اب منسوخ کر دیا ہے۔ ان کا دفاع یہ ہے کہ انھیں بھی کسی ایجنٹ سے دھوکہ دیا تھا اور انھیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ جو سپانسر شپ دستاویزات دے رہے ہیں وہ جعلی ہیں۔
BBCنانا اکواسی کے مطابق انھوں نے تعمیراتی شعبے کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ باقی شعبوں میں قوانین سخت ہو رہے ہیں
محکمہ داخلہ نے بی بی سی کو دیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو ویزا نظام سے فراڈ کرتے ہیں اور ایسی کمپنیوں پر پابندی لگا دی جائے گی۔
بی بی سی نے اس سے قبل انڈیا میں ملتے جلتے فراڈ کا نشانہ بننے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے بین الاقوامی طلبا کے ساتھ ہونے والی جعل سازی کا پردہ بھی چاک کیا تھا جو کیئر سیکٹر میں کام کرنا چاہتے تھے۔
نومبر 2024 میں برطانوی حکومت نے بیرون ملک سے لوگوں کو نوکری دینے والی ایسی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ نو اپریل سے مقامی کمپنیوں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ کیئر سیکٹر میں کام کے لیے ایسے غیر ملکی افراد کو ترجیح دیں جو پہلے ہی برطانیہ میں مقیم ہیں۔
تفتیشی ٹیم: اولارونکے آلو، چیاگوزی نونو، سچیرا مگوائر، نیاشا مشیل اور چیارا فرانکاولا
برطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘برطانیہ میں بھاری منافع کمانے والے کیئر ہوم میں غیر ملکی ملازمین کا استحصال: ’اگر اپنے مُلک میں ہوتی تو ایسی ملازمت سے استعفیٰ دے سکتی‘پاکستانی ’بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے کو ملک میں رہنے پر ترجیح‘ کیوں دے رہے ہیں؟بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانی: ’ساری زندگی پریشانی اور ڈر میں کیسے جی سکتے ہیں‘’ہمیشہ کام کرنے اور کبھی آرام نہ کرنے‘ کا رواج جو نوکری پیشہ افرادکو ذہنی طور پر توڑ رہا ہے