سنہ 2016 میں اسلام آباد کی ایک سبزی منڈی میں چائے بناتے ایک نوجوان کی تصویر نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور پرکشش شخصیت کے باعث یہ تصویر وائرل ہوئی اور ارشد خان، جو اُس وقت ایک معمولی چائے والا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ سنسیشن بن گیا۔آج ایک بار پھر ارشد خان خبروں کی زینت بنے ہیں مگر اس بار وجہ ان کی شخصیت نہیں بلکہ اُن کا شناختی کارڈ ہے، جو اچانک بلاک کر دیا گیا۔ اس غیرمتوقع اقدام کے خلاف ارشد خان نے عدالت سے رجوع بھی کیا ہے۔شناختی کارڈ کب اور کیسے بلاک ہوا؟اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد خان نے بتایا کہ چند روز قبل جب وہ پاسپورٹ کی تجدید کے لیے قریبی دفتر پہنچے تو بائیومیٹرک تصدیق کے دوران سسٹم نے ان کے فنگر پرنٹس مسترد کر دیے۔ ’جب فنگر پرنٹس نہیں ملے تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کا شناختی کارڈ تو بلاک ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف شناختی کارڈ بلاک ہونے سے وہ لاعلم تھے بلکہ انہیں اس سے پہلے کوئی نوٹس بھی موصول نہیں ہوا۔ ارشد خان نے الزام لگایا کہ کسی نے بدنیتی سے اُن کے خلاف سازش کرتے ہوئے شناختی کارڈ بلاک کروایا ہے۔’میرے خلاف نہ کوئی کیس ہے، نہ میرا کسی سے کوئی تنازع ہے۔ میں پاکستانی شہری ہوں۔ میری پیدائش اسلام آباد کی ہے جبکہ میرے والد کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔‘شناختی کارڈ کی بحالی کے لیے قانونی چارہ جوئیشناختی کارڈ کی منسوخی کے بعد ارشد خان نے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ سے رجوع کیا ہے۔ عدالت میں دائر کردہ رٹ پٹیشن میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شناختی کارڈ بلاک کرنا نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ یہ 2002 کے رجسٹریشن آرڈیننس کی خلاف ورزی بھی ہے۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ نادرا ارشد خان سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگ رہا ہے، جو نہ صرف غیرعملی مطالبہ ہے بلکہ ایک باعزت شہری کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ہے۔نادرا کا مؤقف کیا ہے؟شناختی کارڈ کی منسوخی کی وجوہات جاننے کے لیے اردو نیوز نے نادرا کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ ادارے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ارشد خان کی شہریت سے متعلق کوئی مستند دستاویز پیش نہیں کی گئیں جس کے باعث ان کا شناختی کارڈ بلاک کیا گیا اور شناختی کارڈ بلاک ہونے کی صورت میں پاسپورٹ بھی غیرفعال ہو جاتا ہے۔ افسر نے مزید بتایا کہ جب بھی کسی شہری کی دستاویزات میں تضاد یا عدم تصدیق کا خدشہ ہو تو نادرا قانون کے مطابق کارروائی کر سکتا ہے۔ارشد خان کے مطابق وہ ضلع اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔ فائل فوٹو: ارشد خانجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شناختی کارڈ جاری کرتے وقت ایسی دستاویزات کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا؟ تو اُن کا جواب تھا کہ نادرا کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر ڈیٹا کی تصدیق نو کر سکے۔عدالت کی کارروائیلاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے ارشد خان کی درخواست پر نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں سے 17 اپریل تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس جواد حسن نے واضح کیا کہ سینیئر حکام متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں اور شناختی کارڈ منسوخی کی وجوہات سے مکمل آگاہی فراہم کریں۔ارشد خان کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ میڈیا میں اس معاملے کی خبر آنے کے بعد ان کے کاروبار اور کیریئر کو نقصان پہنچا ہے جو کہ ان کے لیے ایک اور بڑا دھچکہ ہے۔