پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کے ایک روزہ دورے میں افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی ہے جس دونوں رہنماؤں نے عسکریت پسندی، علاقائی سلامتی، تجارت اور دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل ایک ایسے وقت ہوا جب اسلام آباد ملک میں بڑھتی عسکریت پسندی کا الزام کالعدم تحریک طالبان پر عائد کرتا ہے جس کے ٹھکانے اُس کے بقول افغانستان میں ہیں۔ ان الزامات کی کابل انتظامیہ تردید کرتی آئی ہے۔اسحٰق ڈار کے کابل کا دورے کے دوران پاکستان نے ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کو ملک بدر کرنے کی مہم تیز کر رکھی ہے جن میں زیادہ تر افغان شہری ہیں۔پاکستان سے افغان مہاجرین اور غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کیا ہے۔دورے کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ ’نائب وزیراعظم / وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے قائم مقام افغان وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی۔‘بیان کے مطابق ’دونوں فریقوں نے سکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، اور لوگوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانے کے طریقے تلاش کرنے سمیت باہمی دلچسپی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘دفتر خارجہ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے مسلسل رابطوں میں رہنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور دونوں ’برادر ممالک‘ کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے تبادلے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔بات چیت کے بعد پریس کانفرنسافغان حکام سے بات چیت کے بعد ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین کے حوالے سے چار اصولی فیصلے ہوئے ہیں۔’ لوگوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا جو ہمارا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اگر کوئی شکایت آتی ہے تو وزارت داخلہ اس کا ازالہ کرے گی۔‘اسحٰق ڈار پڑوسی ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کے دوران افغان رہنماؤں سے بات چیت کے لیے سنیچر کو کابل پہنچے تھے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے مسلسل رابطوں میں رہنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ فوٹو: اے ایف پیکابل روانگی سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں حالیہ ’سرد مہری‘ کو تسلیم کیا لیکن کہا کہ علاقائی سلامتی ترجیح ہے۔انہوں نے پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان، اس کے لوگوں، ان کی جان و مال کی حفاظت بہت اہم ہے۔ لہذا ہمارے خدشات میں سے ایک دہشت گردی سے متعلق ہے جس پر ہم بات کریں گے۔‘اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بے پناہ امکانات اور علاقائی روابط کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہمارا رابطہ ریل رابطوں کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک افغانستان اس میں شراکت دار نہیں بن جاتا۔