منڈی بہاؤالدین: پانچ سالہ بچے کا اغوا اور بازیابی، ’کوئی جانتا تھا کہ باغ بکنے کے بعد گھر میں رقم ہے‘

بی بی سی اردو  |  Apr 20, 2025

Getty Imagesمنڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے گائوں ممدانہ کے زمیندار کے اکلوتے بیٹے کا اغوا

’یہ آٹھ اپریل کا دن تھا جب خالد محمود کو وٹس ایپ پر میسج آتا ہے کہ میں کچے کے علاقے سے بات کر رہا ہوں اور آپ کا اکلوتا بیٹا ہمارے پاس ہے، اگر اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتے ہو تو ’صرف‘ ایک کروڑ روپے کا بندوبست کرلو۔‘

خالد محمود وسطی پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے زمیندار ہیں جن کا پانچ سالہ بیٹا کچھ روز قبل ہی پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا تھا، جس کی گمشدگی کا مقدمہ والد نے درج کروایا تھا۔

گاؤں میں ہرطرف اعلانات بھی کروائے گئے لیکن بچے کا کچھ پتا نہ چلا، تاہم بچے کی گمشدگی کے بعد خالد محمود کے موبائل پر وٹس ایپ پر آنے والا یہ پہلا میسج تھا کہ جس میں اُنھیں اپنے بیٹے کی گمشدگی کی وجہ بھی پتا چلی مگر اس کے بعد وہ اور اُن کا خاندان تاوان کی بڑی رقم کا سُن کر اُن پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔

خالد محمود کہتے ہیں کہ انھوں نے فوری طور پر اپنے چھوٹے بھائی ساجد کو یہ میسج دکھایا جس نے بڑے بھائی کو حوصلہ بھی دیا اور پولیس سے مدد لینے کا مشورہ بھی۔ خالد محمود اگرچہ کھیتی باڑی کرنے والے سادہ لوح دیہاتی ہیں لیکن وہ اپنے چھوٹے بھائی کی بات سُن کر گھبرا گئے کہ کہیں معاملہ پولیس تک لے جانے سے کہیں اغوا کار اُن کے اکلوتے بیٹے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔

معاملے کی حسّاسیت کو بـخوبی سمجھ جانے کے بعد دونوں بھائیوں نے بچے کی جان بچانے اور اُسے اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے پہلا اور درست قدم اُٹھایا یعنی انھوں نے پولیس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

دونوں بھائی تھانے پہنچے اور تفتیشی آفیسر کے سامنے سارا معاملہ رکھا، فون پر آنے والا میسج بھی دکھایا اور سارا مدعا بھی بیان کیا۔

تفتیشی افسر نے ساری کہانی سُننے کے بعد مغوی کے والد خالد محمود اور چچا کو اغوا کاروں کے ساتھ رابطے میں رہنے اور تاوان کی رقم کم کروانے کی کوشش کرنے یعنی بارگین کرنے کو کہا۔

پولیس افسر کے ایسا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اغوا کاروں کو اس بات کی تسلی رہے کہ انھیں بچے کی آزادی اور گھر واپسی کے عوض تاوان کی رقم ملے گی اور یوں وہ بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اسی کے ساتھ پولیس آفیسر نے دونوں کو اس بات کا یقین بھی دلایا کہ اُن کا بیٹا بخیریت گھر واپس آجائے گا اور پولیس ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے اپنا کام شروع کردے گی۔

خالد محمود کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اغواکاروں کو یہ کہا کہ میری مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہے کہ میں آپ کو ایک کروڑ روپیہ بطور تاوان ادا کرسکوں تو اغواکاروں کا جواب تھا کہ ’ہمارے ساتھ جھوٹ نہ بولو، ہم جانتے ہیں کہ تم نے کچھ دن پہلے ہی اپنا ایک باغ مہنگے داموں فروخت کیا ہے تو اُس کی رقم کہاں گئی ہے؟‘

خالد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اغواکاروں کے اس جواب کو سُن کر حیران رہ گیا کہ یہ بات تو درست ہے کہ میں نے کچھ ہی دن پہلے اپنا ایک باغ فروخت کیا اور مجھے تیس لاکھ روپے بھی وصول ہوئے لیکن اس بات کا پتہ بہت کم لوگوں کو تھا۔‘

اغوا برائے تاوان کی واردات جس نے پولیس کو شاطر بین الصوبائی گینگ تک پہنچا دیابٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل، چار بھائی گرفتار: پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟’وہ دوسروں پر بھونکتا تھا لیکن مجھ پر نہیں‘: جب ایک آوارہ کتّے نے پولیس کو قاتل تک پہنچا دیابہاولپور میں تیسری جماعت کی طالبہ کا ریپ اور قتل کرنے والے ملزمان کی ہلاکت: ’قریبی رشتہ دار‘ ملزمان پر پولیس کا شک یقین میں کیسے بدلا؟

خالد کہتے ہیں کہ ’اب حیرانی اس بات کی تھی کہ ہمارے گھر کی یہ بات اغواکاروں کو کیسے پتہ چلی کہ میں نے باغ بیچا ہے اور گھر میں رقم آئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ملزمان سے بارگیننگ کی تو وہ تیس لاکھ روپے تاوان لینے پر مان گئے۔ جس پر میں نے اُن سے یہ سوال کیا کہ اب ان کو (اغواکاروں) کو رقم کہاں اور کیسے چاہیے؟ جس پراغواکارں نے جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور آنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ جب آپ رقم لے کر بہاولپور پہنچ جائیں گے تو پھر ہی آپ کو یہ بتایا جائے گا کہ اب آپ نے کہاں آنا ہے۔‘

’ہماری جو بھی بات اغواکاروں کے ساتھ ہوتی ہم وہ پولیس کو بتا دیتے جس پر پولیس کی جانب سے سادہ کپڑوں میں ایک چھاپہ مار ٹیم کو تیار کیا اور اُسے ہم دونوں بھائیوں کے ساتھ بہاولپور روانہ کیا۔‘

خالد محمود کہتے ہیں کہ ’ہمیں اغواکاروں نے دو تین بار دھوکہ دیا یعنی جہاں ہمیں وہ آنے کے لیے کہتے وہاں یا تو وہ خود موجود نہیں ہوتے تھے یا وہ جان بوجھ کر وہاں سے غائب ہو جاتے تھے، شاید انھیں اس بات کا خوف تھا کہ کہیں ہمارے ساتھ پولیس اہلکار تو نہیں۔‘

خالد محمود بتاتے ہیں کہ ’بالاخر جب ملزمان کو اندازہ ہوگیا کہ ہم دونوں بھائی اکیلے ہی رقم لے کر آئے ہیں اور ہمارے ساتھ پولیس نہیں تو انھوں نے شہر سے باہر ایک ویران جگہ پر آنے کا کہا جہاں دو اغوا کار موجود تھے جنھوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔‘

’ان میں ایک اغواکار نے اپنی تسلی کے لیے ہمیں پیسے دور سے اپنی جانب اچھالنے کا اشارہ کیا۔ عبداللہ کے چچا ساجد نے پانچ پانچ ہزار روپے والے نوٹوں کی چھ گڈیاں اغواکاروں کی جانب اچھالیں جس پر دوسرے ملزم نے بچے کا ہاتھ چھوڑ دیا جوکہ روتا بلکتا ہماری طرف دوڑا جبکہ اغواکار موٹرسائیکل پر وہاں سے پیسے لینے کے بعد وہاں سے تیزی سے نکلے۔‘

خالد نے بتایا کہ منڈی بہاؤالدین سے جانے والی پولیس ٹیم بھی سادہ لباس میں ہمارے ساتھ یہ سب ایک مناسب فاصلے سے دیکھ رہی تھی، پولیس اہلکاروں نے گھیرا ڈالا اور عبداللہ کے ہمارے پاس پہنچنے کے فوراً بعد ہی ملزمان کو اپنی ہوائی فائرنگ سے حواس باختہ کرنے کی کوشش کی۔‘

’پولیس کی ہوائی فائرنگ کے بعد کیا ہوا یہ ہم نہیں جانتے کیونکہ ہم فائرنگ کی آواز سُنے اور گولی لگ جانے کے ڈر سے وہاں سے جان بچا کر بھاگ نکلے، خدا کا شکر ہے کہ میرا بیٹا پانچ روز بعد زندہ سلامت اپنے گھر واپس آگیا۔‘

معاملہ بچےکے گھر آنے اور خالد کے اس سارے واقعے کی کہانی کہ بعد ابھی ختم نہیں ہوا یا یہ کہہ لیں کے کہانی میں اب بھی کُچھ باتیں اور بیانات متضاد تھے۔۔۔

اب ایسا کیوں تھا اس کی وجہ یہ تھی کے اغوا کے کیسز انتہائی نازک نوعیت کے ہوتے ہیں اور ہر ہر قدم انتہائی حاضر دماغی سے اُٹھایا جاتا ہے کیونکہ ایک چھوٹی سی غلطی مغوی کی جان لے سکتی ہے۔

اغوا برائے تاوان کے کیسز میں غیرمعمولی احتیاط کیوں برتی جاتی ہے؟

فوجداری قوانین کی ماہر ایڈووکیٹ شکیلہ سلیم رانا کہتی ہیں کہ ’اغوا برائے تاوان کے کیسز میں پولیس دوسرے اضلاع میں جاکر کارروائی تو کرتی ہے لیکن بات لیک ہونے کے ڈر سے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے جس وجہ سے ملزمان کی گرفتاری اور مغوی کی بازیابی کو اپنے ضلع میں ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔‘

’ضابطہ فوجداری کے تحت جب پولیس کسی دوسرے ضلع میں جاکر کوئی چھاپہ مار کارروائی کرے تو اسے پہلے مقامی تھانے کو آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ تھانے کے روزنامچے میں رپٹ لکھی جاتی ہے اور اس تھانے سے باقاعدہ طور پر پولیس نفری کو ساتھ لے جانا ضروری ہوتا ہے اور جب چھاپہ مار کارروائی مکمل ہو جائے تو ملزمان کی گرفتاری اسی تھانے میں ڈالی جاتی ہے اور اگلے روز ملزمان کو علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔‘

ایڈووکیٹ شکیلہ سلیم رانا کہتی ہیں کہ ’جوڈیشل مجسٹریٹ یا سیشن جج کی منظوری سے ٹرانزٹ ریمانڈ جاری ہوتا ہے جس کے تحت زیرِحراست ملزم کو اس ضلع میں لے جانے کی اجازت ہوتی ہے جہاں اس نے کوئی جرم کیا ہوا اور پھر اگلے روز اسے اس ضلع کی عدالت میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔‘

’یہ قانونی طریقہ کار ہے جس سے بچنے کے لیے اکثر دوسرے اضلاع سے آنے والی پولیس ٹیمیں مقامی تھانے کو آگاہ نہیں کرتیں اور اغوا برائے تاوان کے کیس چونکہ حسّاس ہوتے ہیں جس میں اس بات کا بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر اغواکاروں کا کسی پولیس اہلکار سے رابطہ ہوا تو مغوی کی جان جاسکتی ہے اس لیے دوسرے اضلاع میں جاکر کارروائی کرنے والی پولیس ٹیمیں اس سے گریز کرتی ہیں۔‘

’ڈفر جنگل میں بچہ بازیاب ہوا‘ پولیس

مدعی مقدمہ یعنی خالد محمود کے موقف کے برعکس پولیس حکام کا دعویٰ کہانی کو اُلجھا رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مغوی بچے کی بازیابی ڈفر جنگل سے کی جہاں مغوی بچے کی بازیابی کے لیے ہونے والے آپریشن کے دوران ایک اغواکار اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔

’ڈفر جنگل‘ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں واقع ہے۔ جو گجرات سرگودھا روڑ پر بار موسیٰ نامی گاؤں کے قریب ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وسیم ریاض نے میڈیا کو بتایا کہ ’تھانہ میانہ گوندل کے علاقہ سے اغوا ہونے والے پانچ سالہ بچے کی بازیابی کے لیے پولیس نے فوری کارروائی کی اور ملزمان جب تاوان کی رقم وصول کرنے ڈفر جنگل پہنچے تو پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا جس پر ملزمان نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔‘

’پولیس کارروائی کے دوران ایک ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا جبکہ ایک ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ مغوی کو بحفاظت بازیاب کروالیا گیا واقعہ میں ملوث مغوی کی پڑوسن مرکزی ملزمہ عصمت بی بی کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جسے عدالت میں پیش کرنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا گیا ہے۔‘

پولیس مقابلے کی ایف آئی آر انسپیکٹر شہریار گوندل کی مدعیت میں درج کی گئی جس کے مطابق ’پولیس ٹیم میانہ گوندل چوک میں موجود تھی کہ مخبر خاص نے اطلاع دی کہ ڈفر جنگل میں ملزمان تاوان کی رقم وصول کرنے کے لئے موجود ہیں۔ جس پر پولیس پارٹی وہاں پہنچی تو چار ملزمان نے پولیس کو دیکھتے ہی سیدھی فائرنگ شروع کردی جو کافی دیر تک جاری رہی۔ ملزمان کو متعدد بار میگا فون کے ذریعے فائرنگ بند کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا مگر ملزمان بدستور فائرنگ کرتے رہے۔‘

Getty Images'ڈفر جنگل' ضلع منڈی بہاؤ الدین میں واقع ہے۔ جو گجرات سرگودھا روڑ پر بار موسیٰ نامی گاؤں کے قریب ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس اہلکاروں نے درختوں کی اوٹ میں ہوکر اپنی جانیں بچائیں۔ فائرنگ کا سلسلہ رکنے پر حفاظتی تدابیر اپناتے ہوئے سرچ آپریشن کیا تو ایک لاش ملی جبکہ ایک شخص زخمی حالت میں ملا۔ دونوں ملزمان بہاؤلپور کے رہائشی تھے۔‘

ایف آئی آر میں مزید درج ہے کہ ’زخمی شخص نے پولیس کو بتایا کہ ان کے دو ساتھیوں نے فائرنگ کی تھی جس کی زد میں آکر ایک ساتھی ہلاک اور وہ زخمی ہوئے، جبکہ ان کے دونوں ساتھی جنگل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’مغوی کو بحفاظت تحویل میں لے لیا گیا، تاوان کی وصول کی گئی رقم برآمد کر کے اغوا کی واردات میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل اور ملزمان کا اسلحہ بھی قبضے میں لے لیا گیا۔‘

’ملزمان نے تاوان کے لیے یوکے کے نمبر سے کال کی‘ تفتیشی آفیسر

اغوا برائے تاوان کے اس کیس کی تفتیش اور آپریشنل کارروائی میں شریک دو افسران نے بی بی اردو کو پولیس کی کارروائی سے متعلق بتایا اور کہا کہ پولیس کے جدید آئی ٹی سسٹم کی وجہ سے ملزمان کا سراغ لگانے میں انتہائی آسانی ہوئی۔

تفتیشی ٹیم کے ایک رکن سب انسپیکٹر محمد ارشد نے بتایا کہ ’اغواکار انتہائی چالاک تھے جنھوں نے مغوی بچے کے والد کو جس موبائل نمبر سے وٹس ایپ میسج بھیجا وہ یوکے یعنی برطانیہ کا نمبر تھا، جس وجہ سے پولیس نے اپنے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے مدد حاصل کی، اس کے علاوہ ملزمان کے زیرِ استعمال موبائل ڈیوائس کی لوکیشن چیک کی گئی جو کہ رحیم یار خان کے قریب کچے کے علاقے کی آرہی تھی۔‘

’ملزمان نے جب مغوی بچے کے والد سے رابطہ کیا تو یہی کہا کہ ہم کچے کے ڈاکو ہیں اور آپ کے بیٹے کو رحیم یارخان کے قریب کچے کے علاقے میں لے آئے ہیں۔ پولیس افسران کو یقین تھا کہ ان ملزمان کا کوئی نہ کوئی سہولت کار یہاں موجود ہے جوکہ ان کے لئے پیغام رسانی کا کام کررہا ہے۔‘

محمد ارشاد نے مزید بتایا کہ ’پولیس کو جب ملزمان کے اصل موبائل نمبروں کا سراغ ملا اور ان نمبروں کا کال ڈیٹا نکلوایا گیا تو انکشاف ہوا کہ ایک ملزم کے موبائل فون سے ایک خاتون کو کافی کالیں کی گئی ہیں اور وہ خاتون اس سے مسلسل رابطے میں بھی تھیں۔ جب ان خاتون کا کال ڈیٹا اور فیملی کی تفصیلات نکلوائی گئیں تو وہ مغوی بچے کے والد کے ماموں زاد بھائی کی اہلیہ تھی جوکہ ان کی ہمسائی بھی تھی۔‘

تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ ’اس مرحلے پر اگر جلدبازی کرتے ہوئے خاتون پر ہاتھ ڈالا جاتا تو ملزمان کو اس کا پتہ چل جانا تھا اور بچے کی جان جاسکتی تھی جس پر فیصلہ کیا گیا کہ خاتون ملزمہ کو کارروائی مکمل ہونے پر حراست میں لیا جائے گا۔‘

پولیس کی آپریشنل ٹیم کے ایک رکن انسپیکٹر شہریار گوندل نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ملزمہ کے شوہر اور بہنوئی دونوں ٹریکٹروں کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں، جبکہ مرکزی ملزم خاتون کے بہنوئی کا دوست ہے جس وجہ سے وہ ان کے گھر بھی آتا جاتا رہتا تھا اور خاتون نے ہی اسے بتایا تھا کہ ان کے رشتے دار خالد محمود نے باغ فروخت کیا ہے جس پر دونوں نے مبینہ طور پر رقم ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ملزمان تاوان کی رقم وصول کرنے کے لیے ڈفر جنگل میں آئے جہاں سادہ لباس میں ملبوس پولیس کے اہلکار مختلف جگہوں پر تعینات کیے گئے تھے۔ جونہی بچہ بخفاظت بازیاب ہوا تو پولیس کے کمانڈوز حرکت میں آگئے اور ملزمان کو بے بس کرکے پکڑنے کی کوشش کی۔ جس دوران پولیس مقابلہ ہوا اور ایک ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا اور دوسرا زخمی حالت میں پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔‘

بہاولپور میں تیسری جماعت کی طالبہ کا ریپ اور قتل کرنے والے ملزمان کی ہلاکت: ’قریبی رشتہ دار‘ ملزمان پر پولیس کا شک یقین میں کیسے بدلا؟جب شوہر نے بیوی کی لاش سوٹ کیس میں بند کر کے خود زہریلی دوا کھا لیاغوا برائے تاوان کی واردات جس میں پیسہ نہیں بٹ کوائن وصول کیا گیااغوا برائے تاوان کی واردات جس نے پولیس کو شاطر بین الصوبائی گینگ تک پہنچا دیابٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل، چار بھائی گرفتار: پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟’وہ دوسروں پر بھونکتا تھا لیکن مجھ پر نہیں‘: جب ایک آوارہ کتّے نے پولیس کو قاتل تک پہنچا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More