جنوبی کوریا میں کتے کے گوشت پر پابندی، لیکن فارمز پر موجود سینکڑوں کتے اب کہاں جائیں گے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2025

BBCپانچ لاکھ کتے جنوبی کوریا کے فارمز میں اب بھی موجود ہیں

وجو یانگ خوراک میں استعمال ہونے کی غرض سے کتے پالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ گرمیوں سے ہم اپنے کتوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تاجر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ابھی تک ایک بھی خریدار تاجر سامنے نہیں آیا۔

سنہ 2024 میں جنوبی کوریا کی حکومت نے ملک بھر میں کتوں کے گوشت کو بیچنے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ ایک بہت بڑا قانون تھا یہ گذشتہ جنوری میں منظور ہوا تھا اور اس نے مسٹر جو جیسے کاروبار کرنے والوں کو یہ مہلت دی ہے کہ وہ فروری 2027 تک اپنے باقی ماندہ آپریشنز کو بند کر دیں اور بچے ہوئے کتوں کو بیچ دیں۔

مگر بہت سوں کا کہنا ہے کہ یہ کسی صنعت کو ختم کرنے کے لیے ناکافی وقت ہے جس سے کئی نسلوں نے اپنی زندگی کے لیے روزگار کمایا۔

اسی طرح حکام نے ابھی تک کتے پالنے والوں کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ نہیں آئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ کتے قید میں ہیں۔

حتیٰ کہ وہ جو اس پابندی کی حمایت کرتے ہیں ان کے اور بشمول جانوروں کے حقوق کے ماہرین نے بھی اس کے اطلاق کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور اس میں کتوں کے لیے نئے گھروں کے حوالے سے مشکلات، موت کے گھاٹ اتارے جانے سے بچنے کے بعد اب وہ بہت زیادہ حد تک یوتھونیزیا کے خطرے سے دوچار ہیں جس میں انھیں ایک غیر تکلیف دہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔

مہلت کا وقت آدھا گڑ چکا ہے اور کتوں کو اپنے کاروبار کے لیے پالنے والے لوگ اب ان سینکڑوں جانوروں کو فروخت نہیں کر پا رہے وہ اپنے فارمز کو بند نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی گزر بسر کے لیے نئے کام کی تلاش میں ہیں۔

کورین ایسوسی ایشن آف ایڈیبل ڈاگز کے صدر جو اس صنعت کی نمائندگی کرنے والے گروپ کورین ایسوسی ایشن آف ایڈیبل ڈاگز کے صدر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ’لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں، اسے ادا نہیں کر سکتے اور کچھ تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ نیا کام تلاش کریں۔‘

’یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے۔‘

رکاوٹوں کا طوفان

چان وو کے پاس 600 کتوں سے جان چھڑوانے کے لیے 18 ماہ کا وقت ہے۔ اس کے بعد 33 سالہ چان کو بطور سزا دو سال جیل میں گزارنے پڑ سکتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے اپنی شناخت چھپانے کی شرط پر بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ صرف میرے فارم پر میرے پاس جتنے کتے ہیں میں ان سے نہیں نمٹ سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری تمام جمع پونجی اس فارم پر لگی ہوئی ہے اور ابھی وہ کتوں کو لے بھی نہیں رہے۔

’وہ‘ سے چان کی مراد کاروباری لوگ یعنی تاجراور قصاب ہیں۔ اس پابندی سے پہلے یہ ہر ہفتے اوسطً آدھا درجن کتے لیتے تھے۔

وہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنان اور حکام کا حواہ بھی دیتے ہیں جنھوں نے جانوروں کے گوشت کو کاروبار سے ختم کرنے کے لیے بہت جنگ لڑی اور اب کوئی واضح منصوبہ نہیں کہ باقی بچے ہوئے جانوروں کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ حکومتی اندازوں کے مطابق بچے ہوئے ان جانوروں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔

انھوں نے بغیر کسی حقیقی منصوبے کے اس قانون کو پاس کیا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کتوں کو رکھ ہی نہیں سکتے۔

یومین ورلڈ فار اینیمل کوریا کی مہم کے مینیجر لی سانگ کیونگ نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کتے کے گوشت پر پابندی ختم ہو چکی ہے،مگر حکومت اور شہری گروہ اب بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ باقی کتوں کو کیسے بچایا جائے۔‘

’ایک شعبہ جس میں اب بھی کمی محسوس ہوتی ہے وہ ان کتوں کے بارے میں بحث ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔‘

وزارت زراعت، خوراک اور دیہی امور، مافرا کے ایک غیر ملکی پریس ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر فارم مالکان اپنے کتوں کو چھوڑ دیتے ہیں، تو مقامی حکومتیں ان کی ملکیت سنبھال لیں گی اور پناہ گاہوں میں ان کا انتظام کریں گی۔ مگر پھر انھیں دوبارہ گھر میں لانا مشکل ثابت ہوا ہے۔

لیکن جنوبی کوریا کے شہری معاشرے میں جہاں بہت سے لوگ اپارٹمنٹ کمپلیکس میں رہتے ہیں پالتو جانوروں کی خواہش رکھنے والے مالکان اکثر اس کے برعکس چاہتے ہیں۔

لی کا کہنا ہے کہ کہ بیماری اور صدمے کے خدشات کی وجہ سے گوشت کے فارموں سے آنے والے کتوں کے ساتھ ایک سماجی بدنامی بھی جڑی ہوئی ہے۔

یہ مسئلہ اس حقیقت سے مزید پیچیدہ ہے کہ بہت سے یا تو خالص یا مخلوط نسل کے توسا-انو کتے ہیں، ایک ایسی نسل جسے جنوبی کوریا میں ’خطرناک‘ قرار دیا گیا ہے اور اسے پالتو جانور کے طور پر رکھنے کے لیے حکومت کی منظوری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ امدادی پناہ گاہیں پہلے ہی بھری ہوئی ہیں۔

اس صورتحال میں بے شمار نام نہاد ریسکیو کے کام میں مدد دینے کتے جن کے پاس اب کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، اب موت کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔

Getty Images

چن وو کہتے ہیں کہ ’یہ ناقابل یقین ہے۔‘

چونکہ قانون ان گروہوں کے مطالبات کے مطابق بنایا گیا تھا، میں نے سوچا کہ انھوں نے کتوں کے لیے بھی ایک حل نکالا ہے اور وہ ان کی ذمہ داری لیں گے۔ لیکن اب میں نے سنا ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ یوتھونیزیا ہی واحد آپشن ہے۔

کورین اینیمل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ چو ہی کیونگ نے ستمبر 2024 میں یہ تسلیم کیا تھا کہ اگرچہ انسانی انھوں نے کہا کہ ’اگر باقی کتے ’گمشدہ اور لاوارث جانور‘ بن جاتے ہیں تو یہ دل دہلا دینے والا ہے لیکن انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔

حکومت نے ہفتوں بعد ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ جانوروں کو موت کے گھاٹ اتارنا یقینی طور پر ان کے منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔

حال ہی میں مافرا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جانوروں کی پناہ گاہوں کی توسیع اور نجی سہولیات کی مدد کے لیے سالانہ چھ ارب کوریائی وان کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اور ان کتے پالنے والوں کو450 ڈالرتک کی پیش کش کرے گا جو اپنے کاروبار جلدی بند کر دیتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں بحث کتے کے گوشت کی، کھائیں یا نہ کھائیںجنوبی کوریا میں کتے کے گوشت پر پابندی: ’آپ حکم نہیں دے سکتے کہ لوگ کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں‘

لیکن ہوک کا کہنا ہے کہ اگرچہ انھوں نے 2015 سے اب تک جنوبی کوریا کے گوشت کے فارموں سے تقریباً2800 کتوں کو دوبارہ پناہ دی ہے، لیکن جانوروں کی فلاح و بہبود کے خیراتی اداروں سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ اس بڑی تعداد کو رکھ لیں گے جو سالوں میں پھیل گئی ہے۔

سیئول نیشنل یونیورسٹی میں ویٹرنری میڈیکل ایجوکیشن کے دفتر کے ڈائریکٹر چن میونگ سن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بچ جانے والے کتوں کے لیے حکومت کے منصوبے میں بڑی حد تک کمی ہے۔

کتوں کو ’ٹھکانے لگانے‘ کے طریقے کے بارے میں بحث کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’گود لینے اور یوتھونیزیا‘ دونوں کو زیر غور ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ہم کتوں کو ظالمانہ ذبیحہ سے بچانے کی کوشش صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں یوتھونیزیا سے مار دیں تو یقیناً لوگ دل شکستہ اور ناراض ہوں گے۔‘

روز گار کے مواقع تباہ ہو گئے

کچھ لوگوں نے اس مسئلے کا حل تلاش کیا ہے اور ان جانوروں کو کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں زیادہ خواہش مند افراد کے پاس بھیج دیا ہے۔

سنہ 2023 میں ہوک کی ایک ٹیم نے آسن شہر کے ایک فارم سے تقریبا 200 کتوں کو بچایا تھا۔

اس فارم کے سابقہ مالک 74 سالہ یانگ جونگ تائی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے امدادی کارکنوں کو اپنے کتوں کو ٹرکوں میں لوڈ کرتے دیکھا تو وہ ان کتوں کے لیے ان کی جانب سے دکھائی جانے والی ہمدردی پر حیران رہ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس چیز سے بہت متاثر ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جانوروں سے کیسے نمٹ رہے تھے جیسے کہ وہ انسانوں سے نرمی اور پیار سے برتاؤ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ نہیں کرتے۔ ہمارے لیے کتے پالنا محض روز گار کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن جانوروں کے گروپ کے ان لوگوں نے کتوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے وہ باوقار افراد ہوں اور اس نے واقعی میرے دل کو چھو لیا۔‘

تاہمیانگ نے یہ بھی کہا کہ وہ کتے کے گوشت کی فارمنگ پر پابندی کو مسترد کرتے ہیں۔

یانگ کا کہنا ہے کہ ’اگر کتے کے گوشت پر اس لیے پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ وہ جانور ہے تو پھر دوسرے جانوروں گائے، سور اور چکن کھانے میں کیوں کوئی حرج نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو ایک ہی بات ہوئی ناں۔ یہ جانور قدرت کی جانب سے لوگوں کے پیدا کیے گئے ہیں۔‘

تاہم چُن کہتی ہیں کہ ’کتے کھانا اور کسی اور جانور کا گوشت کھانا ایک جیسا نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کتے کے گوشت میں خوراک کی صفائی کے حوالے سے بھی بہت خطرات ہیں، بالخصوص جنوبی کوریا میں، کیونکہ وہاں اس گوشت کی صنعت دیگر جانوروں کے گوشت کی رسمی طور پر موجود صنعت کے نظام سے جڑی ہوئی نہیں۔‘

ہیومن ورلڈ فار اینیمل کے مطابق گوشت بہت سے افریقی ممالک سمیت چین، انڈونیشیا، ویتنام، لاؤس، میانمار اور شمال مشرقی انڈیا کے بہت سے حصوں میں کھایا جاتا ہے۔

لیکن اگرچہ کوریا کی تاریخ میں کھپت کی شرح میں اتار چڑھاؤ آیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں جنوبی کوریا میں یہ تیزی سے ممنوع ہو گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے کیے جانے والے پولز کے مطابق سنہ 2024 میں انھیں آٹھ فیصد افراد نے بتایا کہ انھوں نے پچھلے بارہ مہینوں میں کتے کا گوشت کھایا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سنہ 2015 میں یہ تناسب 27 فیصد تھا۔

سات فیصد نے یہ کہا کہ وہ فروری 2027 تک کتے کا گوشت کھاتے رہیں گے، جبکہتین اعشاریہ تین فیصد نے کہا کہ مکمل پابندی لگ گئی تب بھی وہ کتے کا گوشت کھائیں گے۔

جب یہ یہ پابندی لگی ہے تب سے اب تک جنوبی کوریا سے 623 کتوں کے فارمز بند ہوئے ہیں جن میں 1537 کتے موجود تھے۔

چن کہتی ہیں کہ جیسے جیسے سوسائٹی اور کلچر میں تبدیلی آئی ہے جنوبی کوریا نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کتے کا گوشت پروڈیوس نہیں کرے گا۔

اور پھر بھی بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک ایسی صنعت کی بنیاد ہے جس پر انھوں نے اپنی زندگیاں بنائی ہیں۔

کتے کے گوشت کے کاروبار سے منسلک ہر شخص نے اس حوالے سے بی بی سی سے گفتگو میں اس غیر یقینی کا اظہار کیا کہ وہ اپنا گزر بسر کیسے کریں گے اب طویل عرصے سے ان کے روزگار کا ذریعہ غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔

کچھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کسمپرسی کی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے کیونکہ وہ کوریا کی جنگ کے دوران پیدا ہوئے تھے اور ان کو معلوم ہے کہ بھوک اور فاقے میں زندگی کیسے گزارنی ہے۔

بہت سے لوگ اس سے متفق ہیں کہ نوجوان کاروباری افراد کے لیے یہ کریک ڈاؤن بہت پریشان کن ہے۔

اس صنعت سے وابستہ نوجوان لوگ ایک سیاہ حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں۔

جو کا کہنا ہے کہ جب یہ یہ پابندی لگی ہے تب سے وہ کتوں کو بیچ نہیں پا رہے، وہ اسے جلدی میں بند نہیں کر سکتے۔ وہ پھنس چکے ہیں نہ آگے کوئی راستہ ہے اور نہ پیچھے۔

چان و کو یاد ہے کہ انھوں نے ایک دہائی پہلے جب 23 برس کی عمر میں اس صنعت میں کام شروع کیا تو اس وقت کتوں کے گوشت کے بارے میں اتنی منفی سوچ نہیں رکھی جاتی تھی۔

چان کا کہنا ہے کہ اب بھی میرے اردگرد لوگ ردعمل ظاہر کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں میں اس بات کو جانتا تھا کہ یہ ایسا نہیں کہ میں اپنی باقی ماندہ زندگی میں کچھ کر سکوں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندی توقع سے زیادہ جلد سامنے آئی اور اس اعلان کے بعد سے گزندگی بہت غیر یقینی سے گزر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم جو امید کر رہے ہیں وہ یہی ہے کہ اس مہلت میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ باقی ماندہ کتوں سے نمٹنے کا عمل بتدریج مکمل ہو سکے۔

بہت سے دوسرے بھی ایسی ہی امید رکھتے ہیں۔ مگرکتے کے گوشت کی صنعت کو ان لوگوں سے چھین لیا گیا ہے جن کی گزر بسر اس پر ہوتی تھی۔

جو اس معاملے میں مدد تونہیں کر سکتے ایک سنگین سوچ کے بارے میں قیاس آرائی کیے بغیر نہیں رہ پائے اور کہتے ہیں کہ کچھ کسان زیادہ دیر تک غیر یقینی صورتحال کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ابھی بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھیں امید ہے کہ شاید کچھ بدل جائے گا، اور یہ مہلت بڑھا دی جائے گی۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے واثق یقین ہے کہ 2027 تک کچھ بہت ہی برا ہو گا۔

’ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی زندگیاں پوری طرح تباہ ہو گئی ہیں۔‘

جنوبی کوریا میں بحث کتے کے گوشت کی، کھائیں یا نہ کھائیںکمبوڈیا: کتے کا گوشت کھانے اور فروخت کرنے پر پابندیجنوبی کوریا:کتوں کا سب سے بڑا سلاٹر ہاؤس بند کر دیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More