پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت

بی بی سی اردو  |  Jun 29, 2025

Getty Images

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث 26 جون سے اب تک ملک بھر میں کم از کم 45 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 21 ہلاکتیں خیبر پختونخوا میں ہوئی ہیں۔ ان میں سیاحتی مقام سوات میں ایک ہی خاندان کے وہ 11 افراد بھی شامل ہیں جو سیلابی ریلے میں ڈوب گئے تھے۔

جبکہ حکام کے مطابق پنجاب میں 13، سندھ میں سات اور بلوچستان میں چار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ادھر نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر (این ای او سی) نے ملک بھر میں 29 جون سے پانچ جولائی تک مون سون کی شدید بارشوں اور ممکنہ سیلاب کے خطرے کی وارننگ جاری کی ہے۔

ایک اعلامیے میں این ای او سی نے ملک کے کئی بڑے شہروں جیسے دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی سمیت دیگر میں موسلادھار بارش اور اربن فلڈنگ کے خطرے کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔

بدلتے موسم، آب و ہوا اور ماحولیات سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، بالاکوٹ، مری، گلیات میں موسلادھار بارش، لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔ جبکہ ان کے مطابق دریائے کابل و سوات میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ متوقع ہے۔

این ای او سی نے خاص طور پر سیاحوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ موسمی حالات سے واقف رہیں۔

’پہاڑی علاقوں کے ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ تیز اور نا قابل بھروسہ‘

پاکستان میں تعلیمی اداروں میں عموماً موسم گرما کی چھٹیوں کا آغاز جون میں ہوتا ہے جو جولائی کے وسط یا اگست تک جاری رہتا ہے اور اسی دوران پاکستان میں مون سون کی بارشیں بھی برستی ہیں۔

اس سال جون کے مہینے میں مون سون کی شدید بارشوں کے سلسلے میں یہ پہلی وارننگ نہیں بلکہ 20 جولائی سے ہی مون سون بارشوں کے آغاز سے اب تک محکمہ موسمیات اور متعلقہ ادارے بارشوں کے سلسلے اور ندی نالوں میں طغیانی کے خطرے سے متعلق اعلامیے جاری کر رہے ہیں۔

موسمیات کے ماہرین کے مطابق اس سال مون سون جون کے آخر یا جولائی کے آغاز کے بجائے 20 جون سے شروع ہو گیا ہے جبکہ شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہونے کے باعث تیزی سے پگھلے جس کے باعث ندی نالوں اور دریاوں میں طغیانی بھی جون میں ہی بڑھ گئی۔

اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختونحوا کے متعدد علاقوں میں 20 اور 21 جون سے گرج چمک کے ساتھ مون سون کی بارشیں برسیں جبکہ کراچی سمیت سندھ کے بعض علاقوں میں 27 اور 28 جون کو بارش کی اطلاعات ملیں۔ تو کیا واقعی اس بار مون سون کی بارشوں کا آغاز معمول سے پہلے ہوا؟

اس سوال کے جواب میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر بابر نے کہا کہ یقیناً مون سون اس بار جلدی شروع ہوا تاہم ہر سال کی مون سون دوسرے سالوں کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے۔

ان کے مطابق ہر سال مون سون میں فلیش فلڈنگ ہوتی ہے لیکن ’کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہر چیز کا رجحان بدلتا جا رہا ہے۔ مون سون بارشوں کی مقدار اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو جہاں اس سے پانی کی ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ چند مشکلات اور خطرات بھی سامنے آتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ملک بھر میں مون سون میں معمول کے مطابق بارشیں ہوں گی تاہم لاہور، گوجرانوالہ، سیالوکٹ راولپنڈی، کشمیر اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں ’معمول سے زیادہ بارشں کی پیشگوئی ہے۔‘

انھوں نے خبردار کیا کہ درجہ حرارت بڑھنے سے ’گلیشیئر پگھلنے اور گلاف کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

گرمیوں کی شدت میں میدانی علاقوں سے لوگ پہاڑی اور شمالی علاقوں میں سفر کرتے ہیں تو مون سون کے دوران سیاحوں کے لیے محکمہ موسمیات کیا الرٹ دے رہا ہے۔

اس کے جواب میں ظہیر بابر نے کہا کہ ’میدانی علاقوں کی نسبت پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت تیز اور نا قابل بھروسہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ میدانی علاقوں سے جاتے ہیں وہ ایسے موسم میں ندی نالوں اور دریا کے پانی میں جانے سے گریز کریں۔‘

ان کے مطابق ’سیاح پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں یا پہاڑی چشموں میں سے گزرنے سے گریز کریں۔ ان کے قریب نہ جائیں۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ شاید اس وقت وہاں بارش نہ ہو رہی ہو لیکن پہاڑوں کے اوپر کچھ گھنٹوں پہلے بارش ہوئی ہو اور وہاں سے پانی تیزی سے نیچے آ رہا ہو تو اچانک دریا یا ندی نالوں کا بہاؤ بڑھ سکتا ہے۔‘

مون سون میں سمندر کے کنارے جاتے وقت بہت احتیاط کریں کیونکہ لہریں ان دنوں بہت تلاطم میں ہوتی ہیں اور ایسے میں سمندر کے پانی میں جانا بہت نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ تو اس ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس جگہ آپ تفریح کے لیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نکلنے سے پہلے محکمہ موسمیات، این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے الرٹس کو لازمی مدنظر رکھنا چاہیے ۔

سیاحوں کو کن چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا؟Getty Images

مون سون کا آغاز جون سے ہو گیا ہے تو یہ کتنا معمول سے ہٹ کر ہے؟ اس سوال کے جواب میں ماہر کلائمیٹ اور محکمہ موسمیات کے سابق ڈی جی ڈاکٹر غلام رسول نے بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ مئی کے وسط سے جون تک شدید گرمی پڑی تو اس لیے اس بار مون سون جلدی آ گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی اپریل اور مئی میں شدید گرمی ہوتی ہے تو بر صغیر میں ہوا کا کم دباؤ بنتا ہے۔ اس لو پریشر کو فِل کرنے کے لیے سمندر کی ہوائیں خشکی کی جانب چلتی ہیں ایسے میں مون سون بارشیں جلد شروع ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہی موسم ہوتا ہے جب سیاح نکلتےہیں اور بچوں کو چھٹیاں ہوتی ہیں اور عام طور پر جنوبی حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ شمال کی جانب سفر کرتے ہیں تاکہ ان کو ٹھنڈا موسم ملے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاحت کا محکمہ اور محکمہ موسمیات مل کر سیاحوں کے لیے ایسا پلیٹ فارم یا پیکیج مہیا کریں کہ انھیں بروقت موسم کے خراب ہونے یا بہتر ونے کی خبر مل سکے۔‘

جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘مقامی لوگوں نے مدد کے لیے رسیاں پھینکیں ’لیکن وہ خوفزدہ تھے‘سوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟

ڈاکٹر غلام رسول نے محکمہ موسمیات اور سیاحت کے محکمے کی کوآرڈینیشن کی اہمیت کے لیے ان واقعات کا حوالہ دیا جب سردیوں میں شدید برف باری میں لوگ پھنسے اور گاڑیوں میں رات گزارتے تھے اور ان میں اموات بھی ہوئیں۔ اسی طرح ابھی رواں ہفتے سوات کے دریا میں لوگوں کے سیلابی ریلے میں کئی افراد لقمہ اجل بن گئے۔

’سوات میں 2010 اور 2016 میں بھی ایسے واقعے ہوئے ہیں اور وہاں بہت ڈیپ سلوپ(گہرائی ڈھلوان) ہے۔ جس کی وجہ سے جب پانی کا ریلا آتا ہے تو وہ اتنا واضح نہیں ہوتا۔ مگر وہ نیچے کی جانب آتے ہوئے اتنی تیزی اختیار کر جاتا ہے کہ آناً فاناً وہ سر پر آ جاتا ہے۔ مر تو کسی محفوظ مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بچے اور خواتین سنبھلنے بھی نہیں پاتیں اوراس کی ذد میں آ جاتی ہیں اور جانی نقصان تک ہو جاتا ہے۔‘

’سیاح 10 سے 15 دن تک کا موسم مد نظر رکھیں‘BBC

تو سیاح اپنی چھٹیوں کی سیر کو کیسے پلان کریں؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ ’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ سیاحت کے لیے جانا چاہتے ہیں وہ موسم کے حالات سے واقف رہیں اور نہ صرف اپنی منزل کا موسم بلکہ راستے کے موسمی حالات بھی اور سفر کے وقت سے آگے 10 سے 15 دن تک کا موسم مد نظر رکھیں۔‘

انھوں نے زور دیا کہ

سیر کے لیے نکلنے والے مون سون کے موسم میں خاص طور پر صبح شام اپ ڈیٹ لیںاگر کسی جگہ موسم خراب ہونے کی اطااع ہے یا انتباہ جاری ہوا ہے تو اس وارننگ کو ہرگز نظر انداز نہ کریں اور اس جگہ کو بنا وقت ضائع کیے بغیر فوری چھوڑ دیںجس جگہ کو خطرناک قرار دیا جائے اور دوسری جگہ منتقل ہو جائیںاگر محکمہ موسمیات کی طرف سے انفارمیشن ملتی ہے تو بہت اچھا ورنہ انٹرنیٹ پر قابل بھروسہ زرائع سے موسم کی صورت حال مل سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح سیاحت بھی چل سکتی ہے اور ہم محفوظ رہنے کی تدابیر بھی کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب دوسری جانب سابق ڈی جی محکمہ موسمیات ڈاکٹر ریاض نے بی بی سی کے سوال پر بتایا کہ عام طور پر دریاؤں میں طغیانی یا سیلابی ریلے جولائی کے وسط یا آخر میں شروع ہوتے ہیں تاہم اس وقت انڈس ریور سے تربیلا میں پانی کا بہاؤ پچھلے سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

ان کے مطابق ’کیونکہ شمالی علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے بڑھا ہوا ہے۔ گلیشیئر گرمی کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اور بغیر بارش کے ہی دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بڑھا ہوا ہے۔‘

جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘مقامی لوگوں نے مدد کے لیے رسیاں پھینکیں ’لیکن وہ خوفزدہ تھے‘سوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںکیا ’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی عکاس ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More