’والد نے میری عمر رسیدہ ماں کے ساتھ زبردستی شروع کر دی‘: وہ ادویات جن کے منفی اثرات میں شدید جنسی خواہشات شامل ہیں

بی بی سی اردو  |  Jul 29, 2025

BBCسارہ کو اپنے دونوں والدین کی پاور آف اٹارنی حاصل ہے جس میں ان کے لیے طبی فیصلے بھی شامل ہیں

جب سارہ اپنے والد کے گھر کی چھت پر کمرے میں پہنچیں تو وہ اس چیز کے لیے بالکل تیار نہ تھیں جو انھیں وہاں دیکھنے کو ملی۔

ان کے والد جیمز ایک سادہ طبیعت کے شخص تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک ہی کمپنی میں ملازمت کرتے گزارا۔ تقریباً بیس سال قبل پارکنسن کی بیماری کی تشخیص کے بعد وہ ریٹائر ہو گئے۔

اس بیماری سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں جیسے توازن کی خرابی پر قابو پانے کے لیے وہ ’روپینیرول‘ نامی دوا لیتے رہے۔

مگر کورونا وبا کے دوران سارہ کو اپنے والد کے رویے میں بڑھتی ہوئی پراسراریت نے بے چین کر دیا اور وہ جاننا چاہتی تھیں کہ وہ وقت کیسے گزار رہے ہیں۔

چھت والے کمرے میں سارہ کو ہاتھ سے لکھی ہوئی بے شمار چٹھیاں اور درجن بھر ریکارڈنگ ڈیوائسز ملیں جن کے ذریعے وہ اپنے ہی اہلِخانہ کو خفیہ طور پر سن رہے تھے۔

تحریروں اور ریکارڈنگز میں جیمز نے اپنی بیوی کی روزمرہ معمولات کی بے ضرر آوازوں حتیٰ کہ نیند میں بھی کی جانے والی حرکتوں کو محفوظ کیا تھا تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ اُن کی بیوی کا کسی سے تعلق ہے۔ ساتھ ہی وہ مختلف چیٹ لائنز اور فحش ویب سائٹس کی تفصیلات بھی درج کرتے جا رہے تھے جن پر وہ جنون کی حد تک وقت گزارتے رہے تھے۔

جب سارہ نے یہ سب کچھ اپنی عمر رسیدہ والدہ کو بتایا تو وہ یہ سن کر دنگ رہ گئیں کہ جیمز نے ان کے ساتھ جنسی طور پر زبردستی کی تھی۔

پانچ سال قبل جب سارہ انھیں ایک ماہر نرس کے پاس لے گئیں تب جا کر انھیں معلوم ہوا کہ اس دوا کے کچھ انتہائی سنگین منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

نرس نے حیرت سے کہا ’اوہ، تو وہ بھی جنسی بے راہ روی کی طرف نکل گئے ہیں؟‘

سارہ کہتی ہیں کہ اب ان کے والدین بڑھاپے میں الگ الگ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ جیمز اپنی بیوی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ وہ اب ایک خصوصی نگہداشت کے مرکز میں رہتے ہیں اور سارہ کو بتایا گیا ہے کہ وہاں وہ عملے کو بھی جنسی طور پر ہراساں کر چکے ہیں۔

سارہ کہتی ہیں ’اس دوا نے میرا پورا خاندان برباد کر دیا‘۔ (ہم نے سارہ اور ان کے والد کے نام تبدیل کر دیے ہیں)

سارہ کو اپنے دونوں والدین کی پاور آف اٹارنی حاصل ہے جس میں ان کے لیے طبی فیصلے بھی شامل ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ کہانی شیئر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو اس دوا کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا جا سکے۔

BBCتحریروں اور ریکارڈنگز میں جیمز نے اپنی بیوی کی روزمرہ معمولات کی بے ضرر آوازوں حتیٰ کہ نیند میں بھی کی جانے والی حرکتوں کو بھی محفوظ کیا تھا

جیمز کا کیس ان پچاس واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں بی بی سی سے رابطہ کیا گیا۔ ان میں اکثریت ان مردوں کی ہے جو موومنٹ ڈس آرڈر کے علاج کے لیے مخصوص دواؤں کا استعمال کر رہے تھے اور جن کا رویہ دوا کے بعد حیران کن حد تک تبدیل ہو گیا۔

ان مردوں نے بتایا کہ ان کا رویہ اکثر کئی سال تک دوا لینے اور خوراک میں بتدریج اضافے کے بعد بدلنا شروع ہوا۔

مارچ میں ہماری رپورٹنگ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ خواتین کو جب ریسٹ لیس لیگ سنڈروم(آر ایل ایس) کے مرض کے علاج کے لیے اسی قسم کی دوا دی گئی تو انھیں پہلے سے خبردار نہیں کیا گیا کہ اس دوا کے نتیجے میں ان میں جنسی خواہشات کا رجحان بڑھنے اور جوئے کی لت لگ سکتی ہے جو نہ صرف ان کی ذاتی سلامتی بلکہ روزگار اور رشتے بھی تباہ کر سکتی ہے۔

اب جن کیسز کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے ان میں سے کئی میں خواتین اور بچوں کا استحصال شامل ہے۔ مثال کے طور پر:

ایک مرد کو بچوں کے ساتھ جنسی جرائم پر سزا ہوئی کیونکہ انھوں نے ایک بچے کا استحصال کیا۔ایک 80 سالہ شخص نے اعتراف کیا کہ وہ فحش مواد، بشمول جانوروں سے جنسی تعلقات اور بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کے عادی بن چکے ہیں۔تین بچوں کے والد نے بتایا کہ دوا لینے کے بعد انھیں روزانہ سات بار جنسی تعلق کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اور جب ان کی شریکِ حیات ان کی خواہشات پوری نہ کر سکیں تو انھوں نے دو شادیاں توڑ دیں۔وہ دوا جو خواتین کو انجانے میں سیکس کی ’خطرناک لت‘ میں مبتلا کر سکتی ہےکیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘سیکس میں لذت بڑھانے کی غرض سے منشیات کا استعمال: ’پہلے پہل تو خوشگوار آزادی کا احساس ہوا، مگر پھر میں زندہ لاش بن گیا‘نوجوانوں میں دورانِ سیکس گلا دبانے کا خطرناک عمل:’میں اُس وقت بےہوش تو نہیں ہوئی لیکن اپنی جگہ جم سی گئی تھی‘

تینوں مردوں نے بتایا کہ دوا لینے سے پہلے ان کی زندگی میں کبھی ایسا جنسی رویہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے رویے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ دوا ان کی بیماری کے علاج میں مؤثر ثابت ہوئی۔

بی بی سی سے بات کرنے والے کچھ دیگر مردوں نے بتایا کہ وہ خود سے یہ دوا چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس کے ذریعے انھوں نے کچھ نئے جنسی رجحانات دریافت کیے جو کہ قانونی اور باہمی رضامندی پر مبنی ہیں اور ان کی جنسی خواہش میں اضافہ انھیں خوشگوار محسوس ہوتا ہے۔

ایک شادی شدہ نانا جن کی عمر 60 کے قریب ہے، اب خواتین کے لباس پہننے لگے ہیں اور مردوں کے ساتھ آن لائن تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس دوا نے ان کے اندر دبی ہوئی ہم جنس پرستانہ خواہشات کو بے قابو کر دیا جن کا انھوں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔

نسخوں کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مردوں سے بی بی سی نے بات کی ان میں سے کچھ نے دوا کی مقدار کم کرنے کی کوشش کی مگر ان سب کا کہنا ہے کہ اس کا ان کی صحت پر منفی اثر پڑا۔

جیمز جو دوا لے رہے ہیں وہ روپینیرول ہے جو ڈوپامین ایگونسٹس کی ایک دوا ہے۔ اس دوا کا استعمال پارکنسن، ریسٹ لیس لیگ سنڈروم(آر ایل ایس)کے مرض، pituitary ٹیومر اور دیگر طبی مسائل کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔

ہم کافی عرصے سے ڈوپامین ایگونسٹس دواؤں سے پیدا ہونے والے اچانک، بے قابو رویوں کے خطرات کے متلعق جانتے ہیں مگر بی بی سی کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اب بھی کئی مریض جنھیں مختلف امراض کے لیے یہ دوا تجویز کی جاتی ہے، ان ممکنہ اثرات کے بارے میں مناسب طور پر آگاہ نہیں کیا جا رہا۔

مارچ میں بی بی سی نے انکشاف کیا تھا کہ برطانوی دوا ساز کمپنی جی ایس کے نے 2003 میں اپنی تحقیق کے دوران ریوپینیرول نامی دوا اور جنسی رویوں میں غیر معمولی انحراف جن میں پیڈوفیلیا (بچوں سے جنسی رغبت) جیسے رجحانات شامل ہیں، کے درمیان تعلق دریافت کیا تھا۔

جی ایس کے نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے یہ معلومات صحت سے متعلق اداروں کے ساتھ شیئر کیں، دوا کے لیف لیٹس (ہدایت ناموں) میں اس حوالے سے حفاظتی مشورے شامل کیے اور اس دوا پر وسیع پیمانے پر تجربات بھی کیے جو اب تک 1.7 کروڑ بار تجویز کی جا چکی ہے۔

تاہم اس خطرے سے متعلق وارننگز 2007 تک دوا کے لیف لیٹس میں شامل نہیں کی گئیں اور اب بھی صرف ’جنسی دلچسپی میں تبدیلی‘ یا ’زیادہ یا بے قابو جنسی خواہش‘ جیسے عمومی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہیلتھ سلیکٹ کمیٹی کی عبوری چیئر اور لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پالیٹ ہیملٹن کے مطابق دوا کے ممکنہ ’تباہ کن‘ مضر اثرات کے بارے میں دی گئی حفاظتی ہدایات کو فوری طور پر سخت کیے جانے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں ’دس میں سے نو لوگ ان لیف لیٹس کو پڑھتے ہی نہیں اور اگر کوئی پڑھ بھی لے تو ’جنسی دلچسپی میں تبدیلی‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ مجھے تو نہیں سمجھ کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‘

یہ دوا دماغ میں پیغامات کی ترسیل میں مدد دینے والے ایک قدرتی کیمیکل ڈوپامین کی نقل کرتی ہے جو حرکت جیسے افعال کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ ڈوپامین کو ’خوشی کا ہارمون‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس وقت متحرک ہوتا ہے جب ہم خوشی محسوس کرتے ہیں یا ہمیں کسی عمل کا انعام ملتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈوپامین ایگونسٹ ادویات ایسے خوشی کے احساسات کو ضرورت سے زیادہ متحرک کر سکتی ہیں جس سے ڈوپامین کی کمی سے متاثرہ کچھ بیماریوں میں مدد تو ملتی ہے لیکن ساتھ ہی نتائج کا احساس کم ہو جاتا ہے اور یہ بے قابو یا فوری فیصلوں جیسے رویوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والے درجنوں افراد کے مطابق یہ دوا بے چینی یا بے قراری کا شکار ٹانگوں کی کیفیت (ریسٹ لیس لیگ سنڈروم) کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔ بعض اوقات جسم کے دیگر حصوں میں حرکت کی ناقابلِ برداشت خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔

اس کو دوا کے طویل استعمال سے پیدا ہونے والا خطرہ سمجھا جاتا ہے جسے آگمینٹیشن (مرض کی شدت) کہا جاتا ہے۔

BBCرکنِ پارلیمنٹ پالیٹ ہیملٹن چاہتی ہیں کہ دوا کے ہدایت ناموں میں دی گئی وارننگز کو مزید سخت اور واضح بنایا جائے

بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک اور ڈوپامین ایگونسٹ دوا، روٹیگوٹین کے حوالے سے کی گئی دو تحقیقات پر بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان تحقیقات کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ یہ دوا بیماری کی شدت میں اضافے (آگمینٹیشن) سے کس حد تک نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دونوں تحقیقات کو اس دوا کی تیار کرنے والی بیلجئین کمپنی یو سی بی نے سپانسر کیا تھا۔

ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ 2012 میں کی گئی پہلی تحقیق کے دوران کمپنی کے سینیئر عہدیداروں نے روٹیگوٹین سے پیدا ہونے والی آگمینٹیشن کے شواہد کو بارہا نظرانداز کیا۔

اس تحقیق کے مصنفین میں شامل ڈاکٹر ڈیئگو گارشیا بورریگویرو کا کہنا ہے کہ یو سی بی کے ملازمین تحقیق کے عمل میں شامل ہوتے رہے اور ماہرین کے ساتھ نتائج پر تبصرے بھی کرتے رہے۔ ان کے بقول یہ مداخلت ’کم مگر مؤثر‘ تھی اور شائع ہونے والے نتائج غیر جانبدار نہیں تھے۔

بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2017 میں شائع ہونے والی دوسری تحقیق کے نو میں سے آٹھ مصنفین کو کسی نہ کسی موقع پر یو سی بی سے مالی فوائد حاصل ہوئے تھے جبکہ ان میں سے پانچ تو براہِ راست کمپنی کے ملازم تھے۔

اس تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ روٹیگوٹین، آگمینٹیشن کے علاج میں مؤثر ہے لیکن امریکی ماہرِ اعصاب ڈاکٹر اینڈی برکووسکی کے مطابق یہ دعویٰ ’مضحکہ خیز‘ ہے۔ وہ امریکہ میں ریسٹ لیس لیگ سنڈروم کے علاج کے لیے کلینیکل گائیڈ لائنز کے مصنفین میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر برکووسکی کہتے ہیں کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیق کے دوران 50 فیصد سے زیادہ مریضوں نے دوا لینا بند کر دی۔ اکثریت کیسز میں اس کی وجہ منفی اثرات یا دوا کا غیر مؤثر ہونا تھا۔ جو مریض تحقیق مکمل کر پائے ان میں بھی نصف سے زیادہ کو خوراک میں اضافہ کرنا پڑا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کی بیماری کی شدت بڑھ گئی تھی۔

کمپنی یو سی بی کا مؤقف ہے کہ ان کی تحقیقات غیر جانبدار تھیں، آزادانہ پیئر ریویو سے گزریں اور جن مصنفین کا کمپنی سے تعلق تھا انھوں نے مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق تمام ضوابط پر مکمل عمل کیا۔

کمپنی کے مطابق روٹیگوٹین کی مؤثریت کو کئی مختلف تحقیقات میں ثابت کیا جا چکا ہے اور 2017 کی تحقیق میں شامل بیشتر مریضوں کو طبی طور پر نمایاں بہتری محسوس ہوئی۔ البتہ یہ تعداد ان 99 مریضوں میں سے صرف 37 کی ہے جنھوں نے یہ تحقیق مکمل کی۔

بی بی سی کو موصول ہونے والے شائع شدہ ڈیٹا کے مطابق صرف انگلینڈ میں گذشتہ سال جنرل پریکٹیشنرز نے ڈوپامین ایگونسٹ ادویات لگ بھگ 15 لاکھ بار تجویز کیں۔

ایک اور دوا، ایریپیپرازول، جو ڈوپامین کی جزوی محرک دوا ہے اور ذہنی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے، بھی غیر متوقع یا جذباتی طور پر بے قابو رویوں کا سبب بنتی ہے۔ صرف انگلینڈ میں یہ دوا 17 لاکھ سے زائد بار تجویز کی گئی اور اکثر نوجوان مریضوں کو دی گئی۔

اس دوا کے زیرِ علاج ایک مریض نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جوا کھیلنے کی لت اتنی شدید ہو گئی تھی کہ انھیں اس لت کے لیے چوری تک کرنی پڑی۔ ایک اور مریض کی والدہ کا ماننا ہے کہ اس دوا نے ان کے بیٹے کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ عوامی مقام پر خود کو برہنہ کرنے لگا۔

برطانیہ کا ادویات کی حفاظت کا نگران ادارہ ایم ایچ آر اے کہتا ہے کہ اس وقت اس کے پاس ڈوپامین ایگونسٹ ادویات سے متعلق وارننگز میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں۔

اس سے قبل ایم ایچ آر اے نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ لوگوں میں جنسی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اور دوا کی معلومات میں عمومی انتباہ شامل کیا گیا ہے جس میں ممکنہ نقصان دہ سرگرمیوں کی نشاندہی کی گئی۔

رائل کالج آف جنرل پریکٹیشنرز کا کہنا ہے کہ اس کا نیا نصاب جو اگلے ماہ شائع ہونے والا ہے اور جسے نئے ڈاکٹرز کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے گا، اب ریسٹ لیس لیگ سنڈروم کے مریضوں میں بے قابو رویے کے منفی اثرات کی نگرانی کو بھی شامل کرے گا۔ یہ بیماری چھ سے 17 فیصد مریضوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

برطانیہ کے صحت سے متعلق ادارے ’نائس‘ کے مطابق اگر کسی دوا کا منفی اثر صرف ایک فیصد مریضوں کو بھی متاثر کرے تو اسے ’عام‘ اثرات میں شمار کیا جاتا ہے۔

برطانیہ کے محکمہ صحت و سماجی بہبودنے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وہ دوا جو خواتین کو انجانے میں سیکس کی ’خطرناک لت‘ میں مبتلا کر سکتی ہےکیا سیکس کی لت کوئی بیماری ہے؟اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟سیکس میں لذت بڑھانے کی غرض سے منشیات کا استعمال: ’پہلے پہل تو خوشگوار آزادی کا احساس ہوا، مگر پھر میں زندہ لاش بن گیا‘کیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘نوجوانوں میں دورانِ سیکس گلا دبانے کا خطرناک عمل:’میں اُس وقت بےہوش تو نہیں ہوئی لیکن اپنی جگہ جم سی گئی تھی‘
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More