Getty Images’پوتن ہمیشہ ایک سمجھدار مذاکرات کار رہے ہیں، وہ روس کی شرائط پر ٹرمپ کو امن کا اعلان کرنے کی اجازت دینے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے درمیان الاسکا میں منعقدہ ملاقات میں یوکرین میں جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا اور وہ وہاں سے روانہ ہو چکے ہیں۔
جمعے کے روز تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا کو ایک مشترکہ بیان دیا اور پھر بغیر سوالات لیے رخصت ہوگئے۔
بی بی سی کے تین نامہ نگار، جو اس اجلاس کے لیے الاسکا کے اینکریج میں موجود ہیں وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس ملاقات کا امریکی اور روسی رہنماؤں کے لیے کیا مطلب ہے اور یوکرین کی جنگ میں آگے کیا ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی ’ڈیل میکر‘ کی شہرت کو دھچکہ
انتھونی زرچر، نمائندہ برائے شمالی امریکہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اینکریج میں ملاقات کے بعد اپنے ابتدائی تبصرے میں کہا کہ ’جب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، تب تک معاہدہ نہیں ہوسکتا۔‘
یہ بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کرنے کا طریقہ تھا کہ کئی گھنٹوں کی بات چیت کے بعد بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ کوئی جنگ بندی نہیں۔ کچھ بھی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے اور ولادیمیر پوتن نے ’کچھ بڑی پیش رفت‘ کی ہے، مگر اس کی تفصیل نہ بتائی جس کی وجہ سے اب یہ دنیا پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتی ہے۔
انھوں نے بعد میں کہا: ’ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے‘ اور پھر سینکڑوں صحافیوں کی موجودگی میں بغیر کسی کا سوال لیے کمرہ چھوڑ دیا۔
ٹرمپ اتنی دور کا سفر کر کے محض ایسی مبہم باتیں ہی کر پائے۔ البتہ یورپی اتحادیوں اور یوکرینی حکام کے لیے یہ اطمینان کی بات ہو سکتی ہے کہ انھوں نے کوئی یک طرفہ رعایت یا معاہدہ نہیں کیا جو مستقبل کی بات چیت کو نقصان پہنچا سکتا۔
جو شخص خود کو ’امن قائم کرنے والا‘ اور ’ڈیل کرنے والا‘ قرار دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ الاسکا سے نہ امن معاہدہ لے کر جا رہا ہے اور نہ کوئی سودا طے کر کے ہی جا رہا ہے۔
اس بات کے بھی آثار کم ہی ہیں کہ مستقبل میں یوکرینی صدر زیلنسکی کو شامل کرکے کوئی اجلاس ہوگا، چاہے پوتن نے مذاقاً اگلی ملاقات ماسکو میں کرنے کی بات کہی ہو۔
اگرچہ ان مذاکرات میں ٹرمپ کے لیے روس یا یوکرین کے مقابلے میں کم چیزیں داؤ پر لگی تھیں، لیکن اس کے باوجود یہ ان کی داخلی اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ اس ملاقات کے ناکام ہونے کا امکان صرف 25 فیصد ہے۔
مزید یہ کہ صدر کو اس بات پر سبکی برداشت کرنا پڑی کہ جب پوتن نے ’نامکمل پریس کانفرنس‘ کا آغاز لمبی تقریر سے کیا اور وہ خاموش کھڑے سنتے رہے۔ یہ وائٹ ہاؤس کی معمول کی روایت سے بالکل مختلف تھا، جہاں امریکی صدر گفتگو پر حاوی ہوتے ہیں اور غیر ملکی رہنما خاموشی سے سنتے ہیں۔
اگرچہ الاسکا امریکی علاقہ ہے مگر پوتن یہاں زیادہ پُراعتماد دکھائی دیے جیسے کہ ان کے اہلکار یاد دلاتے ہیں کہ یہ کبھی ’روسی امریکہ‘ تھا، جسے انیسویں صدی میں امریکہ کو بیچ دیا گیا۔ یہ بات آنے والے دنوں میں امریکی صدر کے لیے ناگوار ہوسکتی ہے، خاص طور پر اس کوریج کے ساتھ جس میں اس ملاقات کو ناکامی کہا جائے گا۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ واقعی روس پر وہ نئی پابندیاں لگائیں گے جن کی وہ بار بار دھمکی دیتے رہے ہیں۔ وہ یہ سوال جمعہ کو پوچھ نہیں سکے۔
صدر نے روانگی سے پہلے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں جزوی طور پر اس پر بات کی اور کہا کہ وہ ایسا قدم ’شاید دو یا تین ہفتے میں‘ اٹھائیں گے۔ لیکن چونکہ انھوں نے پہلے کہا تھا کہ اگر روس جنگ بندی کی طرف نہ بڑھا تو ’سنگین نتائج‘ ہوں گے، اس کے بعد اس طرح کا غیر واضح جواب سوالات کو کم کرنے کے بجائے بڑھا سکتا ہے۔
BBCپوتن اور ٹرمپ نے اپنی اپنی بات کہی اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیے بغیر چلے گئےپوتن کے لیے عالمی سٹیج پر ان کا وقت
سٹیو روزنبرگ، مدیر روس
’پریس کانفرنس‘ اس وقت پریس کانفرنس نہیں رہتی جب سوال و جواب نہ ہوں۔
ہال میں اس وقت واضح طور پر لوگوں کو حیرت زدہ دیکھا گيا جب صدر پوتن اور صدر ٹرمپ نے اپنے بیانات دینے کے فوراً بعد سٹیج چھوڑ دیا اور کوئی سوال نہیں لیا۔
روسی وفد کے اراکین نے بھی کمرہ فوراً چھوڑ دیا اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے بغیر نکل گئے۔
یہ اس بات کا صاف اشارہ تھا کہ یوکرین کی جنگ کے معاملے پر ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اب بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ روسی جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے جبکہ ولادیمیر پوتن نے انھیں یہ رعایت نہیں دی۔
اس سے قبل دن میں فضا بالکل مختلف تھی۔ صدر ٹرمپ نے ولادیمیر پوتن کا استقبال ایسے کیا جیسے کوئی معزز مہمان ہو اور ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے۔
’تاریخ کا بہترین سودا‘: 72 لاکھ ڈالر میں روس سے الاسکا کی خریداری جسے امریکہ میں ’احمقانہ‘ قرار دیا گیامغربی ممالک روس پر پابندیاں لگانے کے باوجود یوکرین جنگ میں اس کی ’مالی مدد‘ کیسے کر رہے ہیں؟مغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟
آج روسی صدر کو دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کے رہنما کے ساتھ سٹیج شیئر کر کے عالمی سیاست کی چکاچوند میں اپنا موقع ملا۔
لیکن ٹرمپ اس نتیجے پر کیا ردعمل دیں گے؟ وہ اب تک پوتن کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ یوکرین میں جنگ ختم کریں۔
اس سے پہلے وہ الٹی میٹم، ڈیڈ لائنز اور مزید پابندیاں عائد کرنے جیسے روس کے ساتھ سخت رویے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کہ اگر ماسکو جنگ بندی کی اپیلوں کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ ایسا کریں گے۔
لیکن اب تک انھوں نے ان دھمکیوں پر عمل نہیں کیا۔
کیا وہ کریں گے؟
Reuters’ٹرمپ تفصیلات میں الجھنے والے شخص نہیں ہیں مگر وہ ’جنگ ختم کرنے والا شخص‘ بننے کے کسی بھی موقع کا خیرمقدم کریں گے‘یوکرین کی جانب سے اطمینان کا سانس، مگر مستقبل کے لیے خوف
تحریر: وٹالی شیوچینکو، ایڈیٹر روسی سروس، بی بی سی مانیٹرنگ
اینکریج میں جو کچھ ہوا، وہ بہت سے لوگوں کے لیے غیر متاثر کن لگ سکتا ہے، لیکن کیئو میں یہ بات اطمینان کا سانس ہوگی کہ کوئی ایسا ’معاہدہ‘ نہیں ہوا جس کے نتیجے میں یوکرین کو اپنی زمین سے محروم ہونا پڑتا۔
یوکرین کے عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ روس کے ساتھ ان کے تمام اہم معاہدوں کا اختتام بالآخر ان کے ٹوٹنے پر ہوا ہے۔ اس لیے اگر یہاں اینکریج میں کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا تو وہ اس کے متعلق بھی شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے کہ کہیں پہلے کی طرح یہ بھی تو نہیں ٹوٹ جائے گا۔
البتہ یوکرینی عوام کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے سامنے مشترکہ آمد کے دوران ولادیمیر پوتن نے ایک بار پھر تنازع کی ’بنیادی وجوہات‘ کا ذکر کیا اور کہا کہ صرف ان کے خاتمے سے ہی پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔
کریملن کی زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کے اصل مقصد پر قائم ہیں، یعنی یوکرین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر ختم کرنا۔ مغرب کی ساڑھے تین سالہ کوششیں بھی ان کے ارادے کو بدل نہیں سکیں، اور اب اس فہرست میں الاسکا اجلاس بھی شامل ہوگیا ہے۔
ملاقات کے بعد پیدا ہونے والا یہ غیر یقینی ماحول بھی پریشان کن ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیا روس کے حملے بغیر رکے جاری رہیں گے؟
گزشتہ چند ماہ میں مغربی ممالک کی جانب سے کئی ڈیڈ لائنز سامنے آئیں، لیکن وہ بغیر کسی نتائج کے خاموشی سے گزر گئیں۔ دھمکیاں دی گئیں، مگر ان پر عمل نہ ہو سکا۔ یوکرینی عوام اسے پوتن کے لیے حملے جاری رکھنے کی دعوت سمجھتے ہیں۔ اینکریج میں نظر آنے والی عدم پیش رفت کو بھی وہ اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔
روسی فوجیوں کو قتل کرو اور پوائنٹس کماؤ: یوکرین کی نئی سکیم جس نے خون ریز جنگ کو کسی گیم میں تبدیل کر دیاروس سے سستے تیل کی درآمد اور ٹرمپ کی دھمکی: کیا انڈیا امریکی دباؤ میں اپنے پرانے اتحادی سے تجارت روک سکتا ہے؟’آپریشن سپائیڈر ویب‘: یوکرین کے ’غیرمعمولی‘ حملے سے انڈیا اور دیگر ممالک کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟18 ماہ کی تیاری اور اربوں ڈالر نقصان کا دعویٰ: یوکرین نے ڈرون حملے سے روس اور امریکہ کو کیا پیغام دیا؟یوکرینی فوج کے لیے مخبری کرنے والا جوڑا جو جعلی دستاویزات اور ربڑ کی ٹیوب کی مدد سے روسی فوج سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا’روسی حملے کا خوف اور امریکہ کی بے رخی‘ کے سبب جرمنی میں جنگی تیاریوں میں تیزی، دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ