Getty Images
وٹامن اور منرل سپلمنٹس کی مارکیٹ 32 ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے اور 74 فیصد امریکی اور برطانیہ میں دو تہائی افراد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی صحت کو بہتر کرنے کی کوشش میں وہ ان سپلمنٹس کا استعمال کرتے ہیں۔
بہرحال وٹامن کی گولیاں پر ایک تنازع کی زد میں دکھائی دے رہی ہیں۔
کچھ تحقیقات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے فائدہ مند ہونے کے کچھ واضح شواہد موجود نہیں ہیں اور کچھ مطالعات میں کہا گیا ہے کہ یہ آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہیں۔ تو پھر اصل میں اس حوالے سے کیا شواہد ہیں اور وہ کیا بتاتے ہیں؟
کیا ہم سب کو وٹامن سپلیمینٹس لینے چاہیں؟ یا ہم میں سے کسی کسی کو ان کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور کیا یہ سچ مچ ضروری بھی ہیں یا نہیں۔
لوگ وٹامن کھاتے کیوں ہیں؟
وٹامن اور منرل وہ مرکبات ہیں جو ہمارا جسم بنا نہیں سکتے لیکن پھر بھی یہ ہمارے جسم کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اور چونکہ ہمارے جسم میں یہ خود بن نہیں سکتے اس لیے ہمیں انھیں اپنی خوراک کے ذریعے حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر وٹامن اے جو کہ ہماری بینائی کے لیے اور جلد کو اچھا رکھنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔
وٹامن سی ہماری قوت مدافعت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور وٹامن کے ہمارے خون کو کسی زخم لگنے کی صورت میں روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
اہم منرلز میں کیلشم، میگنیشیم، سلینیم، پوٹاشیم اور دیگر شامل ہیں۔
وٹامن اور منرلز کو مائیکرو نیوٹرینٹ کہا جاتا ہے یعنی ان کی کم مقدار ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے بہ نسبت کاربوہائیڈریٹ اور پروٹینز اور فیٹس کے۔
یہ کہنا بجا ہو گا کہ کوئی بھی سپلیمنٹ صحت مند اور متوازن غذا کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
اس لیے جسم کو وٹامن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیں بہت زیادہ سبزیاں، فروٹ، دالیں، خشک میوہ جات، دودھ سے بنی اشیا اور مچھلی کھانی چاہیے۔
لیکن تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اس پر عمل نہیں کر پاتے۔
اب فاسٹ فوڈ کے بڑھنے اور پروسیسڈ فوڈ پراڈکٹ کے زیادہ استعمال اور اپنی آسانی کے لیے تازہ کھانے پر اس کو ترجیح دی جاتی ہے۔
امریکی ڈیپارٹمنٹ برائے زراعت کے ہیومن نیوٹریشن ریسرچ سینٹر آن ایجنگ اور ٹفٹس یونیورسٹی کی پروفیسر بیس ڈاسن ہیوز کے مطابق ایک اوسط امریکی شہری متوازن غذائیت تجویز کردہ پھلوں اور سبزیوں کی مقدار سے نصف کھاتا ہے۔
ان کے مطابق اگر آپ بھی اس سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ آپ ضروری غذائی اجزا سے محروم ہو رہے ہیں۔
Getty Images
کیا ملٹی وٹامنز اس غذائی خلا کو پُر کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں؟ جیسا کہ آپ توقع کر سکتے ہیں اس کا جواب اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ یہ نظریہ کہ وٹامن سی کے استعمال سے 1970 کی دہائی میں مغربی دنیا میں عام سردی کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے یہ نوبل انعام یافتہ کیمیا دان لینس پالنگ جیسے سائنسدانوں کا مرہون منت ہے۔
ان سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ وٹامن سی کی تجویز کردہ خوراک 50 گنا تک لینے سے انفلوئنزا سے لے کر دل کی بیماریوں، آنکھ میں موتیے سے لے کر کینسر تک کا علاج ہو سکتا ہے۔
اگرچہ یہ خیال کہ وٹامن سی کی زیادہ مقدار لینے سے زکام کا علاج ہو سکتا ہے، مکمل طور پر رد کر دیا گیا ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کا اب بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔
آج تک انفلواینسرز ایسے سپلیمنٹس کو آگے بڑھا رہے ہیں جن میں ’مائیکرو نیوٹرینٹس‘ کا تجویز کردہ یومیہ الاؤنس 500 فیصد یا اس سے بھی 1,000 فیصد ہوتا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ وٹامن سپلیمنٹس میں عام طور پر ضابطے پر بھی پورا نہیں اترتے۔
ان میں ایسے اجزا بھی ہوتے ہیں جو منظور شدہ نہیں ہوتے اور وہ ایک معیار کے مطابق طبی تحقیق کے مراحل پر بھی پورا نہیں اترتے۔
وٹامنز اور منرلز کا زیادہ مقدار میں استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ لوگوں کو وٹامن ڈی کی خطرناک حد تک زیادہ مقدار لینے سے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ بہت زیادہ وٹامن ڈی کا استعمال سے پیاس لگنا اور زیادہ کثرت سے پیشاب کرنے کی حاجت ہو سکتی ہے اور شدید ردعمل کی صورت میں یہ چکر آنا، کوما اور موت کا سبب بن سکتا ہے۔
امریکہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے مطابق وٹامن اے کی زیادہ مقدار ’شدید سر درد، دھندلا پن، متلی، چکر آنا، پٹھوں میں درد، لاغر پن جیسے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ وٹامن اے کا زیادہ استعمال کومہ اور موت کا سبب بن سکتا ہے۔
وٹامنز اور منرلز پر کیے گئے کلینیکل ٹرائلز کے بعض اوقات متضاد نتائج برآمد ہوتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ آیا آپ کو وٹامن سپلیمنٹس لینے سے فائدہ ہوگا یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی انحصار ہے کہ سپلیمنٹ میں موجود غذائی اجزا کی مقدار بھی۔
وٹامنز اور منرلز پر کیے گئے کلینیکل ٹرائلز
کچھ ابتدائی ٹرائلز اینٹی آکسیڈینٹس پر مرکوز تھے، ایسے مالیکیولز جو ’فری ریڈیکلز‘ کے نام والے نقصان دہ کیمیکلز کو بے اثر کرتے ہیں۔ ’فری ریڈیکلز‘ غیر مستحکم مالیکیولز ہیں جو خلیات اور ڈی این اے کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور انھیں پھاڑ دیتے ہیں۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اینٹی آکسیڈینٹس کی مقدار کو بڑھانے سے بیماری کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پھر بھی مطالعات نے یہ بات تسلسل سے ثابت کی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
ہارورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ میں وبائی امراض کے پروفیسر جواین مانسن کی سربراہی میں ڈبل بلائنڈ، پلیسبو کنٹرول ٹرائلز سے یہ بات سامنے آئی کہ اینٹی آکسیڈنٹس بیٹا کیروٹین، وٹامن سی اور وٹامن ای کینسر یا قلبی امراض کو روکنے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔
کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ’اینٹی آکسیڈنٹس‘ درحقیقت صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
طبی تحقیقات یعنی ٹرائل سے ایسے ثبوت بڑھ رہے ہیں کہ ’بیٹا کیروٹین سپلیمنٹس‘ کی بڑی مقدار لینے سے آپ کے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
جواین مانسن کے ایک ٹرائل سے پتا چلتا ہے کہ وٹامن ای کی زیادہ مقدار میں خوراک ’ہیمرجک سٹروک‘ کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
جواین مانسن کا کہنا ہے کہ ’وٹامن ای خون کو پتلا کرتے ہیں، اس لیے وٹامن ای کی زیادہ مقدار خون جمنے کے عمل کو سست بناتی ہے، جس سے دماغ میں خون بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
یہ خطرہ بھی ہے کہ انتہائی زیادہ مقدار میں اینٹی آکسیڈینٹس دراصل پرو آکسیڈینٹس بن سکتے ہیں، اس لیے وہ حقیقت میں آکسیڈیشن کو بڑھاتے ہیں۔
ایک الگ تھلگ مائیکروونٹرینٹ کی بہت زیادہ مقدار لینے سے دوسرے اسی طرح کے مائیکروونٹرینٹ کے جذب میں بھی مداخلت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، بہت زیادہ بیٹا کیروٹین لینا نقصان دہ سمجھا جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے کیروٹینائڈز جیسے لیوٹین کے جذب میں مداخلت کرتی ہے، جو کہ پالک اور کیلے جیسی پتوں والی سبز سبزیوں میں پائی جاتی ہے۔
وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟
اینٹی آکسیڈینٹس کے تجویز کردہ یومیہ تجویز کردہ مقدار سے زیادہ نہیں لینا چاہیے۔ لیکن دوسرے وٹامنز کا کیا ہوگا؟ ایک غذائیت جو بہت سے لوگوں کو کافی نہیں ملتی ہے وہ ہے وٹامن ڈی۔۔ یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جو صحت مند ہڈیوں کی ساخت اور ان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔
وٹامن ڈی تکنیکی طور پر ایک وٹامن نہیں ہے، کیونکہ ہمارا جسم اس وقت تک کافی مقدار میں بنا سکتا ہے جب تک کہ ہماری جلد کو کافی مقدار میں سورج کی روشنی حاصل ہو۔ ہم اسے بعض کھانوں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
چونکہ ہمیں سردیوں کے مہینوں میں زیادہ سورج کی روشنی نہیں ملتی ہے، اس لیے برطانیہ میں صحت عامہ کی سفارش یہ ہے کہ اکتوبر سے مارچ تک ہر کوئی وٹامن ڈی کی سپلیمنٹس لے۔
ایک دلیل یہ ہے کہ 37 ڈگری عرض البلد کے شمال میں رہنے والے ہر شخص کو جو کہ امریکی شہر سانتا کروز کے برابر ہے کو سردیوں میں وٹامن ڈی کا سپلیمنٹ لینا چاہیے۔ یہ خط استوا کے جنوب میں 37 ڈگری سے زیادہ رہنے والے ہر شخص پر بھی لاگو ہوگا۔
وٹامن ڈی کو دیکھنے کے لیے ایک تحقیق جواین مانسن کا وائٹل ٹرائل تھا، جس میں 25,000 امریکی بالغ افراد شامل تھے۔ انھوں نے تحقیق کی کہ آیا وٹامن ڈی یا اومیگا تین فیٹی ایسڈ کے روزانہ غذائی سپلیمنٹس لینے سے ان لوگوں میں کینسر، دل کی بیماری اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے جن کی ان بیماریوں کی کوئی سابقہ تاریخ نہیں ہے۔
اگرچہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس نے قلبی بیماری، فالج یا کینسر کے مجموعی پھیلاؤ کو متاثر نہیں کیا، وٹامن ڈی لینے والے گروپ میں کینسر سے ہونے والی اموات میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جب جواین مانسن نے صرف ان افراد پر توجہ مرکوز کی جو دو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے وٹامن ڈی لے رہے تھے، وہاں اعداد و شمار کے لحاظ سے نمایاں طور پر 25 فیصد کمی ہوئی اور کینسر سے ہونے والی اموات میں 17 فیصد کمی ہوئی۔
جواین مانسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ہو سکتا ہے کہ وٹامن ڈی ٹیومر کے خلیوں کی حیاتیات پر اثر انداز ہو تاکہ انھیں کم حملہ آور اور میٹاسٹیسیس کا خطرہ کم ہو، لیکن یہ کینسر کی پہلی تشخیص کو متاثر نہیں کرتا۔‘
وائٹل کے ٹرائل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس خود بخود امراض کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرتے ہیں۔
جیسا کہ وٹامن ڈی صحت مند ہڈیوں کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے، اس لیے اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ روزانہ وٹامن ڈی کی گولیاں ہڈیوں کے ٹوٹنے کو روک سکتی ہیں، خاص طور پر زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے۔ فرانس میں 2000 کی دہائی کے ابتدائی کلینیکل ٹرائل سے پتا چلا ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ خاص طور پر ’کیئر ہوم سیٹنگ‘ میں رہنے والی خواتین، وٹامن ڈی کی سپلیمنٹیشن سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
تاہم اس کے بعد سامنے آنے والے شواہد کا نتیجہ حق میں اور اس کے مخالف بھی ہے۔
بیس ڈاسن ہیوز کے مطابق وائٹل کے ٹرائل سے پتا چلتا ہے کہ وٹامن ڈی ہڈیوں کے ٹوٹنے کو نہیں روکتا، جب کہ دو دیگر مطالعات، ’وڈا سٹڈی، اور ’ڈی۔ہیلتھ سٹڈی‘ میں بھی فریکچر یا گرنے کے لیے وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لینے کا کوئی خاص فائدے کے ثبوت نہیں ملتے۔ تاہم، یہ ہو سکتا ہے کہ ٹرائلز کے شرکا کو فائدہ نہ ہوا ہو کیونکہ ان کے پاس پہلے سے ہی وٹامن ڈی کی کافی مقدار موجود تھی۔
بیس ڈاسن کا کہنا ہے کہ ’ان ٹرائلز میں سے کسی نے بھی کم وٹامن ڈی کے حامل معمر افراد کا انتخاب نہیں کیا اور یہ سب ایسے وقت پر ہوا جب وٹامن ڈی کو ہر چیز کا علاج سمجھا جا رہا تھا اور کم از کم امریکہ میں، وٹامن ڈی کی فروخت بڑھ رہی تھی۔
’نتیجتاً، زیادہ تر آزمائشی شرکا کی ابتدائی وٹامن ڈی کی حیثیت پہلے سے ہی مطلوبہ یا بہترین تھی۔‘
Getty Imagesآپ کو ملٹی وٹامن کب لینا چاہیے؟
حیرت انگیز طور پر ایسے شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ روزانہ ملٹی وٹامن کا استعمال صحت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، خاص طور پر معمر افراد کے لیے۔
جواین مانسن کے معالج کی صحت کا مطالعہ II، جو 20 سال پہلے شروع ہوا تھا سے پتا چلا کہ 11 سال تک روزانہ ملٹی وٹامن لینے والے لوگوں میں کینسر کی تشخیص کا خطرہ آٹھ فیصد کم تھا۔ سب سے بڑا فائدہ 70 سال سے زیادہ عمر کے شرکا کو ہوا، جنھیں پلیسبو گروپ کے مقابلے میں ملٹی وٹامن اسائنمنٹ کے ساتھ کینسر میں 18 فیصد کمی آئی۔
جواین مینسن کا کہنا ہے کہ ’یہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ معمر لوگوں کی خوراک قدرے کمزور ہوتی ہے۔‘
جواین مانسن کے 2023 کاسموس ٹرائل میں جو لوگ روزانہ ملٹی وٹامنز لیتے تھے ان میں پلیسبو گروپ کے مقابلے تین سالوں میں علمی کمی میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی۔ انھیں آنکھوں میں موتیا میں کمی سے بھی منسلک دکھایا گیا ہے۔
Getty Images
جواین مانسن کا کہنا ہے کہ ’کینسر، موتیا اور یادداشت کی کمی جیسے امراضہر عمر میں لاحق ہو سکتے ہیں۔۔۔ ان بیماریوں کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اس کا تعلق ملٹی وٹامن سے جوڑ دیا گیا ہے۔‘
تو سوال یہ کہ وٹامن کس کو لینا چاہیے؟
جواین مینسن اور بیس ڈاسن ہیوز دونوں کا کہنا ہے کہ وٹامن کی گولی لینا زیادہ تر لوگوں کے لیے غیر ضروری ہے، اور یہ کہ صحت مند، متوازن غذا کھانے سے آپ کو مطلوبہ غذائی اجزا حاصل کرنا بہتر ہے۔
کھانے کے ذرائع سے حاصل ہونے والے وٹامنز جسم کے ذریعے زیادہ آسانی سے جذب ہو جاتے ہیں اور آپ کو دیگر غذائی اجزا جیسے فائبر جیسے غذائی اجزا کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
اگرچہ وٹامنز اور معدنیات صحت کے لیے ضروری ہیں، لیکن ہمیں ان کی صرف قلیل مقدار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صحیح طریقے سے کام کر سکیں اور مطالعات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اس مقدار سے زیادہ حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تاہم، واضح طور پر ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو ملٹی وٹامن کی گولی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب تک کہ اس میں وٹامنز کا ارتکاز تجویز کردہ یومیہ مقدار سے زیادہ نہ ہو۔
خواتین کو کیلشیئم کی گولیاں کب کھانی چاہییں؟پٹھوں کو نقصان پہنچائے بغیر وزن کم کرنے کے مؤثر طریقےوٹامن ڈی سے مالا مال سورج کی روشنی جو آپ کے بلڈ پریشر میں کمی اور موڈ میں بہتری کا سبب بنتی ہےآپ کے دماغ کی صحت کے لیے کون سا وٹامن بہترین ہے
برطانیہ میں این ایچ ایس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ حاملہ ہیں تو آپ کو ملٹی وٹامنز اور فولک ایسڈ لینا چاہیے۔
اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ سبزی خور یا وہ لوگ جو زیادہ مچھلی نہیں کھاتے وہ اومیگا تھری مچھلی کے تیل والی گولیاں لینے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
وائٹل کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مچھلی کی کم خوراک لینے والے جن لوگوں کو اومیگا 3 مچھلی کا تیل دیا گیا تھا ان میں پلیسبو کے مقابلے میں قلبی امراض میں 19 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ تاہم، جو لوگ ہفتے میں ڈیڑھ سرونگ سے زیادہ مچھلی کھاتے تھے، انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کچھ ایسے حالات بھی ہیں جو انسانی جسم کی وٹامنز کو جذب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ کچھ ادویات جیسے میٹفارمین، جو ٹائپ 2 ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں وٹامن کے جذب کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بالغ افراد روزانہ ملٹی وٹامن گولی لینے سے فائدہ اٹھا سکیں تاکہ ان کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکے اور ان کی علمی کمی کی شرح کو کم کیا جا سکے حالانکہ جیوری ابھی تک اس پر باہر ہے۔
آخر میں معمر افراد خاص طور پر نرسنگ ہوم کے رہائشی، جو محدود خوراک کا رجحان رکھتے ہیں اور باہر تھوڑا وقت گزارتے ہیں، آسٹیوپوروسس اور ہڈیوں کے ٹوٹنے سے بچنے کے لیے وٹامن ڈی اور کیلشیم سپلیمنٹس کے مرکب لینے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
Getty Images
بیس ڈاسن ہیوز کا کہنا ہے کہ ’نرسنگ ہوم کے رہائشیوں پر کی جانے والی بڑی فرانسیسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان دو غذائی اجزا کی ایک سادہ تبدیلی کے نتیجے میں کولہے کے فریکچر میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی۔‘
ان کے مطابق ’یہ وہ ثبوت ہے جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ ہمیں یہ جاننے کے لیے واپس جانے کی ضرورت ہے کہ آیا کمیونٹی میں رہنے والے معمر افراد کو اس کا فائدہ ہوگا یا دیگر معمر افراد جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی کمی ہے، ان کو فائدہ پہنچے گا۔ ہمیں واقعی یہ جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان دونوں کی کمی کا شکار ہے۔‘
آخر میں جواین مانسن کا کہنا ہے کہ ’میگا خوراک‘ یا تجویز کردہ روزانہ مقدار سے زیادہ وٹامنز لینے کی سفارش نہیں کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ واقعی ایسا ہے کہ ضروری نہیں کہ زیادہ بہتر ہو۔ لیکن ملٹی وٹامنز بہت محفوظ ہیں، لہٰذا میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی کو اس بارے میں تشویش ہے کہ آیا وہ مناسب صحت مند متوازن غذا حاصل کر رہے ہیں، تو ملٹی وٹامن لینا انشورنس کی ایک شکل ہو سکتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ یہ ضروری وٹامنز اور معدنیات حاصل کر رہے ہیں۔‘
وٹامن ڈی سپلیمنٹس کی مقبولیت جو سائنسدانوں کو اس کے استعمال کے حوالے سے پریشان کر رہی ہےخواتین کو کیلشیئم کی گولیاں کب کھانی چاہییں؟آپ کے دماغ کی صحت کے لیے کون سا وٹامن بہترین ہےوٹامن ڈی سے مالا مال سورج کی روشنی جو آپ کے بلڈ پریشر میں کمی اور موڈ میں بہتری کا سبب بنتی ہےہڈی ٹوٹ جانے سے متعلق وہ عام غلط فہمیاں جو فریکچر ہونے کے باوجود آپ کو بے خبر رکھتی ہیںکیا آپ مناسب مقدار میں وٹامن ڈی لے رہے ہیں؟