امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 21, 2025

Getty Imagesروسی اور چینی صدر کے ساتھ انڈین وزیر اعظم

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کے خلاف اضافی ٹیرف کا اعلان انڈیا کے لیے رحمت ہے یا زحمت یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا لیکن فی الحال اس کی نہ صرف روس سے دوستی مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے بلکہ چین کے ساتھ جاری کشیدگی میں بھی بہت حد تک کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔

اسی دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے 19 اگست 2025 منگل کے روز کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس یوکرین جنگ کو ختم کرنے کے لیے انڈیا پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

اس سے قبل، امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے منگل کو ہی انڈیا پر روسی تیل کی دوبارہ فروخت کے ذریعے ’منافع خوری‘ کا الزام لگایا جبکہ اسی معاملے پر انھوں نے چین کے بارے میں کہا کہ ’ان کے تیل کے متنوع ان پٹس‘ ہیں۔

یہ ریمارکس صدر ٹرمپ کی طرف سے انڈیا پر کل 50 فیصد ٹیرف لگانے کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں نئی دہلی کی جانب سے روسی تیل کی خریداری کی وجہ سے عائد 25 فیصد اضافی ٹیرف شامل ہے جو 27 اگست سے نافذ العمل ہوگا۔

خیال رہے کہ الاسکا میں 15 اگست کو روسی صدر پوتن سے ٹرمپ کی ملاقات کے بعد یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اگر بات چیت مثبت رہتی ہے تو انڈیا سے اضافی ٹیرف ہٹا لیا جائے گا جبکہ انڈیا بات چیت کے ذریعے بقیہ بنیادی 25 فیصد ٹیرف میں بھی کمی کرا سکتا ہے۔

لیکن ایسا نہ ہو سکا اور امریکہ کی ناراضگی روس یا چین کے بجائے انڈیا پر زیادہ نظر آ رہی ہے۔

انڈیا سے ناراضی کا سبب

پیٹر ناوارو وائٹ ہاؤس میں تجارت اور مینوفیکچرنگ کے مشیر ہیں۔ گذشتہ دنوں انھوں نے ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان ملاقات کے بعد برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پیٹر ناوارو نے لکھا: ’امریکی گاہک انڈین سامان خرید رہے ہیں۔ انڈیا ان اشیاء کی فروخت سے حاصل ہونے والے ڈالر کو سستے داموں روسی تیل خریدنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انڈیا روسی تیل کو صاف کر کے اسے پوری دنیا میں فروخت کررہا ہے۔ انڈین منافع خور روس کے خاموش شراکت دار بن چکے ہیں۔ روس یوکرین پر مسلسل حملہ کررہا ہے اور انڈیا اس میں مدد کررہا ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ اگر انڈیا چاہتا ہے کہ امریکہ اسے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھے تو اسے بھی اسی طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے۔

اگر دیکھا جائے تو امریکہ کی روس یا چین کے مقابلے انڈیا سے زیادہ رنجش نظر آ رہی ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا روس سے تیل خریدنا اس کی وجہ ہے جیسا کہ مذکورہ تبصروں میں کہا جا رہا ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور ہے؟

پاکستان کے معروف ادیب اور سیاسی تجزیہ نگار پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی سختی کی وجہ تیل نہیں بلکہ ٹرمپ اور مودی کے درمیان انا کی جنگ ہے۔

ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کو یہ پسند نہیں آیا کہ مودی نے انھیں جنگ بندی کا کریڈٹ نہیں دیا۔ مودی کے لیے اپنے ملک کے اندر یہ قبول کرنا ممکن نہیں تھا کہ جنگ بندی ٹرمپ کے حکم پر ہوئی۔ ایسی صورت حال میں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں رہنماؤں کی عزت نفس کا زیادہ تصادم ہے۔‘

الاسکا میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات سے قبل امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے انڈیا کو مزید ٹیرف کی دھمکی دی تھی کہ اگر پوتن کے ساتھ بات چیت اچھی نہیں رہتی تو انڈیا کے خلاف ٹیرف مزید بڑھ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ انڈیا کے خلاف اس فیصلے میں یورپ کو بھی شامل ہونا چاہیے۔

Getty Imagesروسی صدر سے ملاقات کے بعد بھی امریکہ کا انڈیا کے لیے رویہ نہیں بدلاروس کو خوش کرنے کے لیے انڈیا کو سزا؟

تھنک ٹینک اننتا سینٹر خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل پر کام کرتا ہے۔ اس کی سی ای او اندرانی باگچی نے سکاٹ کے بیان کا ویڈیو کلپ دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’یہ بہت خطرناک ہے، مغرب کا خیال ہے کہ انڈیا روس کے لیے خاص ہے، اس لیے پوتن کو خوش کرنے کے لیے انڈیا کو سزا دیں، پوتن اپنے مفادات سے نہیں جھکتے اور نہ ہی انھیں کوئی پرواہ ہے کہ انڈیا کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ ایسی صورت حال میں انڈیا ایک پنچنگ بیگ بن جائے گا۔‘

انڈیا پر امریکہ کی بڑھتی ہوئی سختی صرف ٹرمپ تک محدود نہیں ہے، کئی تجزیہ کار روس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی سینیئر فیلو تنوی مدان نے اندرانی باگچی کی پوسٹ کو دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’اگر ٹرمپ انڈیا کو پریشان کرتے ہیں تو پوتن کو فائدہ ہوگا۔ اگر انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو انڈیا میں روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں انڈیا چین کے ساتھ معاہدے کے لیے زیادہ تیار نظر آئے گا۔‘

تنوی مدان نے ایکس پر لکھا: ’انڈیا میں کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم سٹریٹجک خود مختاری کی طرف لوٹ جائیں گے یا چین کے قریب جائیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انڈیا کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں۔ ٹرمپ کو اس وقت چین کے ساتھ مقابلے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہاں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کبھی بھی سٹریٹجک خود مختاری نہیں چھوڑ سکتا۔‘

’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟امریکی صدر کی دھمکی، انڈیا کا ’تلخ‘ جواب اور مودی کی مشکل: ’ٹرمپ مسلسل توہین کر رہے ہیں، وزیراعظم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے‘’پیس میکر ان چیف‘ اور نوبل انعام: ٹرمپ کا پاکستان اور انڈیا سمیت سات ’جنگیں‘ ختم کروانے کا دعویٰ لیکن حقیقت کیا ہے؟الاسکا میں ٹرمپ کی پوتن سے ملاقات کے بعد انڈیا روسی تیل خرید پائے گا؟

تنوی مدان کا کہنا ہے کہ انڈین شہری روس اور پاکستان کے گہرے ہوتے تعلقات سے اتنے پریشان کیوں نہیں ہیں جتنا وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سے پریشان ہیں۔

انھوں نے لکھا: ’روس کسی زمانے میں پاکستان کو امریکہ سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرنے والا ملک تھا، انڈیا نے بھی اس معاملے کی شکایت کی ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا کی شکایت روس کو پاکستان کے ساتھ ایف ڈی ایف اے پروجیکٹ سے باہر کر دے گی۔ روس جانتا ہے کہ انڈیا کا امریکہ کے ساتھ تنازع مستقل نہیں ہے، امریکہ کو انڈین مارکیٹ کی ضرورت ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان حالیہ تعاون میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، روس اور طالبان کے درمیان چار مہینوں کے بعد دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔‘

Getty Imagesصدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد روسی صدر پوتن نے انڈین پی ایم کو فون کیا تھا’روس کو انڈیا کی قیمت پر بھی فائدہ اٹھانے میں کوئی عار نہیں‘

تنوی مدان نے مزید لکھا: ’روس اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری سے امریکہ-انڈیا تعلقات پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ لیکن انڈیا میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اور روس کی دوستی سے روس کی چین سے دوری بڑھ جائے گی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چین اور روس دونوں کے ساتھ معاہدہ چاہتے ہیں۔‘

’میرے خیال میں اس سے انڈیا کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ پوتن چاپلوسی کو ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور ہمیں اسے کمزوری کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ لوگوں کو بورس یلسن اور کلنٹن یا 1960-70 کے درمیان ہونے والی گفتگو کو یاد رکھنا چاہیے۔ روس کو انڈیا کی قیمت پر بھی فائدہ اٹھانے میں کوئی عار نہیں تھا۔ امریکہ اس معاملے میں تنہا نہیں ہے۔‘

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب بھی پوتن کو لگتا ہے کہ وہ امریکی صدر کی انا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو وہ خوشی خوشی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپریشن سندور کے بعد ٹرمپ اور پوتن کے درمیان فون پر بات چیت ہوئی۔

اس گفتگو کے بعد روس کی طرف سے جو بیان آیا اس میں ٹرمپ کو جنگ بندی کا سہرا دیا گیا۔ روس کی طرف سے اس طرح کا بیان ایسے وقت آیا جب انڈیا ٹرمپ کے دعووں کو مسترد کر رہا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی تھی تو روس نے بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی۔

دہلی میں قائم جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں کہ انڈیا کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔

ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’انڈیا پر گروپ منتخب کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جو کسی بھی طرح سے انڈیا کے حق میں نہیں ہے۔ انڈیا نہ تو امریکہ کے لیے روس کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی صرف روس کے ساتھ رہ سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ایسے میں ’انڈیا پر دباؤ واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ ایس سی او (شنگھائی تعاون تنظیم) کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم مودی کا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا غیر امریکی گروپ میں زیادہ فعال ہونا چاہتا ہے۔ مودی اس وقت چین جا رہے ہیں جبکہ چند ماہ قبل چین نے انڈیا کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کی تھی۔‘

’چین انڈیا کے لیے پاکستان سے کنارہ کشی نہیں کر سکتا‘

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے منگل کو نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد وانگ یی پاکستان گئے جہاں چینی وزارت خارجہ کے مطابق وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کریں گے۔

وانگ یی کے دورے کے بارے میں انڈیا کے معروف سٹریٹجک ماہر برہما چیلانی نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر لکھا: ’7 اور 10 مئی کے درمیان انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع کے دوران چین نے ایک غیر مرئی تیسرے فریق کی طرح برتاؤ کیا۔ چین نے پاکستان کو ریئل ٹائم انٹیلی جنس فراہم کی، اس کے علاوہ ریڈار اور سیٹلائٹ ان پٹ بھی فراہم کیے گئے۔ اور یہ بات ڈپٹی آرمی چیف نے کہی۔‘

چیلانی نے لکھا: ’مودی اس ماہ کے آخر میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب چین نے اپریل 2020 سے پہلے لداخ میں انڈیا کے زیر کنٹرول علاقے کو خالی نہیں کیا ہے۔ مودی کا آئندہ دورہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انڈیا نے اپریل 2020 سے پہلے لداخ کے جمود کو بحال کرنے کا اپنا مطالبہ ترک کر دیا ہے۔‘

پیر کو انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے ساتھ وانگ یی کی ملاقات کے بعد چین کی طرف سے مینڈارن زبان میں جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ انڈیا نے تائیوان کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا ہے۔ تاہم وانگ یی کے اس دورے کے بارے میں انڈیا کی طرف سے سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی میں چین کے جنوبی ایشیا کے ساتھ تعلقات کے ماہر لن من وانگ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’اگر چین کے ساتھ انڈیا اپنے تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے تو چین اس کا خیر مقدم کرے گا لیکن انڈیا کو کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ چین اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی پاکستان کی حمایت بند کرے گا۔ انڈیا کا موجودہ موقف بنیادی طور سٹریٹیجک حساب کتاب پر مبنی ہے۔‘

’امریکہ سے خراب ہوتے ہوئے تعلقات کے دوران انڈیا نے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چین ان چیزوں کا بہت احتیاط سے جائزہ لے رہا ہے۔‘

ہند نژاد مشہور امریکی صحافی فرید زکریا نے سی این این کے ایک پروگرام میں کہا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی انڈیا دشمنی بہت بڑی سٹریٹیجک غلطی ہے۔‘

فرید زکریا نے کہا کہ ’پچھلے 25 سال سے امریکہ نے انڈیا کو ایک سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اس پالیسی کو تبدیل کر رہے ہیں۔ ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا کو امریکہ کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے انڈیا کی معیشت کو مردہ قرار دے کر انڈیا کی توہین کی، سچ یہ ہے کہ انڈیا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔‘

فرید زکریا نے کہا: ’اب اگر ٹرمپ نے انڈیا کے بارے میں اپنا رویہ بدلا تو نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ انڈیا میں امریکہ کے تئیں عدم اعتماد بڑھ گیا ہے۔ انڈینز کو لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنا اصل رنگ دکھا دیا ہے۔‘

الاسکا میں ٹرمپ کی پوتن سے ملاقات کے بعد انڈیا روسی تیل خرید پائے گا؟امریکہ کی انڈین کمپنیوں پر ’روس کی معاونت‘ کے الزام میں پابندی انڈیا کے ساتھ تعلقات کو کیسے متاثر کرے گیٹرمپ، پوتن ملاقات اور انڈیا کا ’انتظار‘: ’لگتا ہے امریکی صدر دلی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں‘90 ارب ڈالر کی ضمانت، بدلا ہوا لہجہ اور ٹرمپ کی تعریفیں: وائٹ ہاؤس میں امریکی اور یوکرین کے صدر کی ملاقات میں کیا ہوا’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟امریکی صدر کی دھمکی، انڈیا کا ’تلخ‘ جواب اور مودی کی مشکل: ’ٹرمپ مسلسل توہین کر رہے ہیں، وزیراعظم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More