ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں پاکستان کے لیے ایک مایوس کن لمحہ اُس وقت آیا، جب بھارت کے خلاف دفاعی کوششیں آخری اوور میں بکھر گئیں۔ فاسٹ بولر حارث رؤف، جو امیدوں کا مرکز تھے، فیصلہ کن اوور میں دباؤ برداشت نہ کر سکے اور میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
146 رنز کا ہدف، ایک موقع پر قابو میں نظر آ رہا تھا، مگر حارث رؤف نے 3.4 اوورز میں 50 رنز دے دیے اور کوئی وکٹ بھی نہ لے سکے۔ بھارت کو جب جیت کے لیے صرف 10 رنز درکار تھے، تو حارث نے صرف چار گیندوں پر 13 رنز دے دیے، اور بھارت ایشیا کپ کا ٹائٹل ایک بار پھر اپنے نام کر گیا۔
میچ کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ صارفین نے نہ صرف بولنگ پرفارمنس پر سوالات اٹھائے بلکہ کپتان کے فیصلوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
سینیئر اسپورٹس رپورٹر فیضان لاکھانی نے لکھا، “فرق صرف حارث رؤف تھے”۔ ایک مداح نے اعداد و شمار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حارث کی اکانومی 13 رہی، جب کہ باقی تمام بولرز نے 7 کی اکانومی سے بھی کم رنز دیے۔
ایک اور صارف نے حیرت کا اظہار کیا کہ حارث کو اتنے اہم اوور کے لیے چنا ہی کیوں گیا؟ “پچھلے کئی میچز میں ان کی کارکردگی سوالیہ نشان رہی ہے، پھر بھی فیصلہ ان کے حق میں کیوں گیا؟”
سیاسی پہلو بھی زیر بحث آیا۔ سینیٹر عون عباس نے سخت الفاظ میں کہا، “جب کھلاڑی میدان سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لینے لگیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک جیتا ہوا میچ صرف ایک اوور سے ہاتھ سے نکل گیا۔”
اتنا ہی نہیں بلکہ شوبز برادری کی جانب سے بھی حارث رؤف کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ سید جبران سخت الفاظ میں حارث رؤف کی عزت افزائی کرتے ہوئے انھیں سیلیکٹ کرنے والوں پر بھی برس پڑے جبکہ علی ظفر اور عثمان خالد بٹ بھی جیتا ہوا میچ ہارنے پر حارث رؤف کو ذمہ دار قرار دینے لگے۔
یہ ہار صرف ایک میچ کا نتیجہ نہیں، بلکہ کئی فیصلوں کا مجموعہ تھی۔ مگر سب سے بڑی انگلی حارث رؤف کی جانب اٹھتی نظر آئی، جو بڑے میچ میں بڑا کردار ادا نہ کر سکے۔