ون صفدر جنگ روڈ: قصہ اندراگاندھی سے ایک دلچسپ ملاقات کا، عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Sep 29, 2025

ریٹائر بیوروکریٹ، ادیب، مصنف محمداقبال دیوان کی حال ہی میں شائع ہونے والی خود نوشت ’داستان ہے پیارے‘ کا پچھلے کالم میں تذکرہ کیا۔ 432 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب بہت دلچسپ اور متنوع ہے، اس میں اقبال دیوان نے اپنی ذاتی اور سرکاری زندگی سے جڑی یادداشتیں تحریر کی ہیں۔ ان میں سے ایک دلچسپ باب سابق انڈین وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی سے ایک دلچسپ ملاقات کا ہے۔ون صفدر جنگ روڈ پر وہ سرکاری بنگلہ ہے جہاں اندرا گاندھی مقیم رہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس جگہ کو اب اندرا گاندھی میوزم بنا دیا گیا ہے۔ تاہم جس ملاقات کا تذکرہ ہے یہ اس سے چند سال قبل ہوئی۔ اقبال دیوان تب نوجوان سول سروس افسروں کے ایک گروپ کے ساتھ دہلی گئے، وہاں پر کسی طرح ان کا رابطہ اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی سے ہوا اور اس نے انہیں اگلے دن اپنی ماں اندرا گاندھی سے  ملاقات کے لیے مدعو کیا۔

انڈیا میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کراچی میں ایک نئی طرح کی پراکسی وار شروع ہوئی۔ فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا اقبال دیوان لکھتے ہیں کہ ’ون صفدر جنگ روڈ، اندرا گاندھی کے سرکاری طور پر ملے گھرکے ایک کمرے میں وہ موجود تھے۔ کمرے کا فرنیچر پرانا، فرش پر بچھی بڑی دری قدرے میلی، کھڑکیاں بڑی مگر پردے ندارد۔ اچانک کمرے میں اندرا گاندھی اپنے صاحبزادے سنجے گاندھی اور بسکٹی رنگ کے ایک بڑے گریٹ ڈین کتے کے ساتھ داخل ہوئیں۔ وہ بہت باوقار خاتون تھیں، انہیں اپنے وجود، اپنی طاقت کا بہت احساس تھا اور یہ احساس ان کے اردگرد ایک ہالہ، ایک حصار کھینچ دیتا تھا۔ انڈیا میں گورا رنگ خال خال دکھائی دیتا ہے۔ وہ دونوں ماں بیٹا اجلی رنگت اور بہت سادہ سماجی مزاج کے حامل تھے۔ سنجے گاندھی میں ہمیں جلد بازی دکھائی دی جبکہ اندرا گاندھی میں اس طاقتور ہستی کا ٹھہراؤ تھا جو اپنی باری کا تحمل سے انتظار کرنا جانتی ہو۔ ان کی خود اعتمادی سے خوف آتا تھا۔

’اندرا گاندھی نے سب (پاکستانی سول سروس افسروں) سے تعارف حاصل کیا اور پاکستانی سول سروس پر کئی سوالات کیے۔ وہ اپنی سول سروس سے بھی کچھ زیادہ خوش نہیں تھیں، مگر انگریزی میں کہنے لگیں کہ ان کے پاس جو رپورٹس اور بیرونی دوروں میں تاثرات جمع ہوتے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ پاکستانی سول سروس اب بھی اسی انگریز راج والے مائنڈ فریم میں ہے۔ لوگوں سے دور ہے، اس میں وژن اور لیڈرشپ کا وہ معیار نہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ پھر انہیں لگا کہ بات کچھ کڑواہٹ کا شکار ہو گئی ہے تو مسکرا کر کہنے لگیں کہ ’چلو فوجی حکومت کی وجہ سے ایک لمبے عرصے کے لیے تم لوگوں کی جان کمزور اور کنفیوزڈ سیاستدانوں سے چھوٹ گئی۔‘’اپنی سول سروس کے بارے میں ایک ساتھی کے سوال پر اندرا گاندھی کہنے لگیں، ہمارے ہاں علاقائیت بہت زوروں پر ہے۔ ساؤتھ، نارتھ تقسیم بھی بہت دیکھی جا سکتی ہے، مگر چونکہ ہمارے ہاں سیاسی نظام ایک تسلسل اور عدالتی نظام پرعزم اور خود سے بہت باضمیر ہے، ہمارا پریس بھی بہت قابل اور بے رحم ہے۔ (خود سے باضمیر اور بے رحم والے الفاظ کہتے ہوئے اندرا گاندھی کے ہونٹوں پر ایک دبی سی طنزیہ مسکراہٹ آئی)۔ لہٰذا بیوروکریسی کی علاقائیت دلی آن کر مرکزی پالیسی کے تابع ہو جاتی ہے۔‘

اقبال دیوان نے جب مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کے حوالے سے اندرا گاندھی پر سخت سوال کیا تو وہ ترنت بولیں ’تم (پاکستانی) اس بات کے کیوں آرزومند ہو کہ انڈیا ہم سے محبت کے خواب دیکھے۔ ہمارے عزائم تو گلوبل ہیں۔ ہمارا خواب تو آشوکا کی سلطنت اور اسے مزید بڑھانا (Empire of Ashoka and more) ہے۔ ’اقبال دیوان نے چھیڑنے کے لیے سوال کیا، کیا اس میں تھائی لینڈ اور تبت بھی شامل ہیں۔ اندرا گاندھی کھلکھلا کر ہنسیں اور ازراہ تفنن کہنے لگیں، ناروے کو بھی اپنی فہرست میں شامل کر لو، اگر ایسا جلد ہو گیا تو آپ وہاں میرے پہلے گورنر ہوں گے۔ اقبال دیوان نے برجستگی سے جواب دیا کہ ’میری ماں تو اس کے برعکس یہ چاہے گی کہ میں مہاراشٹر کا پہلا پاکستانی مسلمان گورنر بنوں۔ ’اندرا گاندھی نے اس پر دبے دبے طنزیہ لہجے میں جملہ کسا، ہائے ایک ماں کا خواب۔‘

اندرا گاندھی کو اُن کے گارڈز نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیاملاقات اختتام پذیر تھی، اندرا گاندھی سے سوال کیا گیا کہ آپ اپنے خاندانی پس منظر، امتیازی حوالوں، تجربات کی روشنی میں بتائیں کہ کیا کبھی وہ بھی کسی شخصیت سے متاثر ہوئی ہیں؟ اندرا گاندھی کہنے لگیں، چند دن پہلے سنجو بابا (سنجے گاندھی) نے بھی یہی سوال پوچھا تھا اور میرا آپ کے لیے بھی وہی جواب ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس سے آپ کچھ سیکھ نہ سکیں اور نہ کوئی ایسا ہے جسے آپ کچھ سکھا نہ سکیں۔‘ملاقات ختم ہوئی اور یہ لوگ باہر آئے، اکبر روڈ پر لذیذ چاٹ کھائی اور بعد میں کریم کے مشہور ہوٹل سے بادامی قورمہ اور زعفرانی کھیر کھائی۔ ون صفدر جنگ روڈ پر انڈین میزبانوں کو تو چائے پلانے کا خیال تک نہیں آیا۔

اقبال دیوان نے اس ملاقات کے نوٹس اپنی پرسنل ڈائری میں لکھ لیے، جو اب خودنوشت لکھتے ہوئے بطور ریفرنس کام آئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے بعد میں اس ملاقات کے بارے میں بہت سوچا،’مجھے تیس منٹ کی اس ملاقات میں لگا کہ اس دن وہ ہم لوگوں کے دشمن ملک کی سول سروس کے ممبرز ہونے اور ان کے صاحبزادے کے لائے ہوئے مہمانوں کی مناسبت سے دو مقامات عالیہ سے مخاطب تھیں۔ ایک کنٹرولنگ وزیراعظم جو ایک فتح یاب دشمن اور کبھی کبھار ایک ماں جو گلی میں دوسرے لڑکوں کا مقابلہ بہت خاموشی سے اپنے ذہن میں کرتی رہتی ہے۔ ایک ایسی عورت جس کا انداز نظر کئی سو فلٹرز سے آراستہ ہے۔‘

اندرا گاندھی کا ذکر آیا تو ان کے متنازع آپریشن بلیو سٹار اور اس کے بعد ردعمل میں سکھ باڈی گارڈز کی جانب سے فائرنگ میں ہلاکت کا تذکرہ آتا ہے اور یہ بھی کہ اس کے بعد کس طرح کراچی میں ایک نئی طرح کی پراکسی وار شروع ہوئی، شاید انڈین پنجاب میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کا جواب دینے کی کوشش۔ اقبال دیوان نے اپنی خودنوشت میں اس جانب ہلکا سا اشار ہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے، انڈین خفیہ ایجنسی نے ’کے‘ کے بدلے ’کے‘ یعنی خالصتان اور کشمیر کے بدلے کراچی میں آگ بھڑکائی۔

کتاب کے ایک طویل مضمون میں کراچی کے تہہ در تہہ مسائل، ان کا گمبھیر پس منظر اور شہر کو ہلا دینے والے لہورنگ واقعات کے پیچھے موجود فیکٹرز کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تب مختلف انتظامی عہدوں پر کام کر رہے تھے، گجراتی زبان اور پس منظر کے علاوہ اپنی متحمل اور بردبار شخصیت کی وجہ سے باہم نبردآزما مختلف حلقوں کے لیے قابل قبول تھے۔

انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔ اقبال دیوان نے آٹھ اگست 1986 کو نشتر پارک کراچی میں ایک بڑے جلسے کا ذکر کیا جس میں ایم کیو ایم کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہوا اور جلسے کے اختتام پر بہت سے لڑکوں کی بندوقوں سے اگلتی تڑ تڑ گولیوں سے ہوا۔ مہاجر لڑکوں کے اسلحے کی یوں کھلے عام نمائش (ایک بڑے عوامی حلقے کے لیے) ایک انوکھا، اعتماد بخش اور اتحاد افروز مظاہرہ تھا۔

کتاب میں مہاجر قومی موومنٹ کی اٹھان پر بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پیاقبال دیوان نے مختلف فیکٹرز کا ذکر کیا کہ کیسے کراچی کے نوجوان مختلف لسانی ’گروہوں‘ سے تنگ تھے۔ ایم کیو ایم کے قیام اور اس کے مختلف لسانی اور معاشی گروہوں سے تصادم کی بہت سی وجوہات تھیں۔ کراچی جیسے ریزہ ریزہ شہر میں شہر کی سب سے پڑھی لکھی آبادی یعنی مہاجر سرکاری اداروں میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اپنے ساتھ لسانی تعصب کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے سلوک اور سکینڈ کلاس شہری برتاؤ سے پہلے ہی نالاں تھے۔ پے درپے مارشل لا سرکار کی حکومت اور ون یونٹ کی وجہ سے مہاجر اپنی گرفت کے حوالے سے سرکاری اور فیصلہ ساز اداروں میں بہت کم رہ گئے تھے۔ ایسے میں کوٹا سسٹم، افغان جنگ، پولیس میں ون یونٹ کے زمانے سے بھرتی غیرمہاجر پولیس ملازمین کی بھرمار، ٹرانسپورٹ پر افغانوں کا قبضہ، مسلکی فسادات وغیرہ وہ عوامل تھے جن سے کوئی بھی دشمن ایجنسی فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ ان عوامل کی موجودگی میں انڈین خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی خاد کو موقع مل گیا کہ وہ ہر لسانی گروپ میں اپنے سلیپر سیلز شامل کر کے ایسے سوئچ نصب کر دیں جو موقع ملتے ہی فسادات بھڑکانے کے لیے اشارہ ملنے پر آن  آف ہوتے رہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں انہوں نے پیش کیں۔

کراچی کے بدنام سہراب گوٹھ آپریشن اور اس کے بعد جو لہو کی ہولی کھیلی گئی، اس کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے۔

پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ بشریٰ زیدی کیس کے بعد بڑے پیمانے پر لسانی فسادات ہوئے کیونکہ یہ مشہور ہو گیا کہ ایک پختون ڈرائیور نے مہاجر لڑکی بشریٰ زیدی کو کچل کر ہلاک کر دیا۔ حالانکہ روٹ این ون (N1) کی اس منی بس کا ڈرائیور ایک مقامی بہاری راشد حسین تھا۔ یوں یہ مہاجر بمقابلہ پختون ایشو بنتا ہی نہیں تھا۔ دیوان صاحب نے وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ کس طرح ایک منہ زور، عاقبت نااندیش پولیس افسر کی غلطی سے آگ بھڑکی اور لسانی فسادات شرو ع ہوئے، حالانکہ انتظامیہ معاملہ کنٹرول کر چکی تھی۔ ایک دلچسپ بات اس کتاب سے پتہ چلی، ممکن ہے دیگر قارئین بھی نہ جانتے ہوں۔ ایم کیو ایم کا دفتر نائن زیرو کے نام سے مشہور ہے۔ اقبال دیوان نے بتایا کہ اس کی وجہ تسمیہ اس کا پرانا فون نمبر (673690) ہے۔ ایم کیو ایم کے لڑکے رازداری کی وجہ سے یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ایم کیوایم کے مرکزی دفتر جا رہے ہیں، وہ صرف اس فون نمبر کے آخری دو ہندسوں نائن زیرو کی مناسبت سے یہ کہہ دیتے کہ نائن زیرو جا رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ 120 گز کی اس چھوٹی سی عمارت کانام ہی نائن زیرو مشہور ہو گیا۔ حالانکہ گھر کا نمبر (494) اور بلاک چار تھا۔دیوان صاحب اے ایچ کاردار کی فراست کے بڑے قائل رہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ وزیراعظم نواز شریف کی اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ کر نے سے ان کی گڈ بکس میں تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شاہ صاحب کی کرکٹ بورڈ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ وہ جانتے تھے کہ 1963 میں جسٹس اے آر کارنیلس بھی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ ایک تقریب میں اے ایچ کاردار، نور خان اور کرکٹ بورڈ کے تب کے چیئرمین جنرل (ر) زاہد علی اکبر خان بھی موجود تھے۔ نسیم حسن شاہ نے ان تینوں پی سی بی سربراہان سے کرکٹ کا احوال پوچھا اور پھر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی طرف لپکے۔ اے ایچ کاردار کی تیز آنکھوں سے یہ بات چھپی نہ رہی۔ انہوں نے پنجابی میں زاہد علی اکبر کو کہا ’لگدا اے نسیم شاہ جناب دی نوکری دے  مغر پے گیا اے (لگتا ہے نسیم حسن شاہ آپ کی چیئرمین کرکٹ بورڈ کی نوکری کے پیچھے پڑ گیا ہے۔) زاہد علی اکبر خان کو تب شاید یقین نہ آیا ہو، مگر جب دو دن کے بعد جسٹس ریٹائر نسیم حسن شاہ کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے تقرر کا پروانہ جاری ہوا تو زاہد علی اکبر بھی اے ایچ کاردار کی دوربین نظر اور فراست کے قائل ہوگئے ہوں گے۔

کاؤس جی کی اصل شناخت ان کے انگریزی کالم تھے، وہ بہت کمال لکھتے تھے۔ فائل فوٹواردشیر کاؤس جی کمال کے کالم نگار تھے، مگر ان کی شخصیت بھی بڑی دلچسپ دبنگ اور شاندار تھی۔ اقبال دیوان نے ان پر جو مضمون لکھا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں انہوں نے کاؤس جی کی زبانی ایک بات بھی بتائی کہ کہیں سے اردشیر کاؤس جی کے علم میں آیا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے قتل کی سازش ہو رہی ہے، انہوں نے تب کے آرمی چیف جہانگیر کرامت کو فون ملا دیا۔ جس افسر نے فون اٹھایا، اسے کاؤس جی نے کہا کہ جا کر بتاؤ کہ میں فیلڈ مارشل مانک شا (مشہور انڈین جرنیل) کا بھائی جنرل کاؤس جی بول رہا ہوں۔ فون اندر شفٹ ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں لیاری سے وہ مطلوبہ ممکنہ قاتل اٹھا لیے گئے۔ اقبال دیوان نے کاؤس جی کی شخصیت پر ایک فوجی افسر کی استفسار پر تین حرفی تبصرہ کیا تھا،  تھری ڈی یعنی ڈیسنٹ، ڈیپ اور ڈینجرس۔

اقبال دیوان نے اپنے  مضمون کے اختتام پر لکھا کہ ’کاؤس جی کی اصل شناخت ان کے انگریزی کالم تھے۔ انگریزی میں وہ بہت کمال لکھتے تھے، مختصر اور پرمزاح۔ ان کے کالموں میں آرٹ بک والڈ جیسی کاٹ تھی مگر اختصار ونسٹن چرچل کے ہاں سے آیا تھا۔ کاؤس جی کی تحریروں اور گفتگو پر ان کے پسندیدہ سر ونسٹن چرچل کا اثر بہت غالب تھا۔ مطالعہ وسیع تھا اور روابط بھی بہت کمال۔ فیلڈ مارشل مانک شاہ، گجرال اور ایڈوانی سے ان کی ذاتی دوستی تھی۔ وی پی سنگھ، واجپانی، دھیرو بھائی امبانی (مکیش امبانی کے والد) اور عزی پریم جی سے ذاتی مراسم تھے۔ امریکی سفیر سے وہ جب چاہتے مل سکتے تھے۔ پاکستان کو ان سے بہتر امریکہ اور انڈیا میں کوئی اور سفیر نہیں مل سکتا تھا۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو لگا کہ پاکستان ایک بہت باوقار اور اعلیٰ ظرف انسان دوست، جناح صاحب کے متوالے اور کراچی کے شہریوں کا درد رکھنے والے شہری سے محروم ہو گیا ہے۔‘کاؤس جی نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ایک ملاقاتی خاتون کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’ہم چاروں طرف سے پاگلوں (چریا لوگوں) میں گھرے ہیں جو جناح کا پاکستان میری زندگی میں نہیں بنا پائیں گے۔ لیکن شاید آپ کی نسل میں یہ کام کوئی کر پائے۔ اس امید کو نہیں ترک کرنا چاہیے، ہمیں مایوس نہیں ہونا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More