Getty Imagesکشمیر میں ایکشن کمیٹی کی جانب سے آج شٹرڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے (فائل فوٹو)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تاجروں اور عوام کی نمائندہ تنظیم ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ کی کال پر آج (29 ستمبر) ایک بار پھر ریاست میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
احتجاج سے نمٹنے کی خاطر حکام نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں لینڈ لائن، موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جزوی طور پر بند کر دیا ہے جس کے باعث رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ اس موقع پر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کشمیر کی حکومت نے وفاق سے اضافی پولیس اور فورسز طلب کی ہیں۔
کشمیر بھر میں ہڑتال کی کال دینے والوں کا کہنا ہے کہ خطے میں آٹے اور بجلی کی لگاتار اور رعایتی نرخوں پر فراہمی کے لیے دو سال قبل شروع ہونے والی اس تحریک میں اب کشمیری اشرافیہ کو حاصل مراعات میں کمی، مخصوص اسمبلی نشستوں کے خاتمے اور مفت تعلیم و صحت کی سہولیات جیسے اضافی مطالبات کو شامل کیا گیا ہے۔
ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ اس مرتبہ احتجاج اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت دو سال قبل طے پانے والے معاہدے پر مکمل عمل درآمد میں بھی ناکام رہی ہے۔
یاد رہے کہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ہڑتال کی کال دیے جانے سے قبل نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی بلکہ وفاق سے وزیر اعظم شہباز شریف کے نمائندوں نے بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان سے بات کی تھی۔
تاہم یہ مذاکرات ناکام رہے تھے جس کے بعد فریقین نے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔ اب حکومت اور ایکشن کمیٹی، دونوں کا کہنا ہے کہ وہ مذکرات سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
اگرچہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج مکمل طور پر پُرامن ہو گا تاہم ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر کشمیر میں انتظامیہ نے سکیورٹی اقدامات سخت کرتے ہوئے سرکاری سپتالوں اور ریزرو پولیس فورس کی تمام چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں جبکہ پاکستان سے اضافی سکیورٹی فورسز کو کشمیر طلب کیا گیا ہے۔
کشمیر میں آج سے شروع ہونے والے احتجاج کے پیشِ نظر مختلف سکولز کو بند کر کے ان عمارتوں کو فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکاروں کی عارضی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے وزیر داخلہ وقار نور کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’چونکہ کشمیر کی پولیس بڑے پیمانے پر مظاہروں اور کسی ممکنہ کشیدگی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس لیے وفاق سے اضافی فورسز بلائی گئی ہیں۔‘
احتجاج سے قبل مقامی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں سوشل میڈیا پر بھی جزوی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 38 نکات پر مشتمل ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ میں جو مطالبات شامل ہیں ان میں حکومتی اخراجات میں کمی سے لے کر اسمبلی نشستوں پر اعتراضات ، مفت تعلیم و علاج کی سہولت اور فضائی اڈے کے قیام سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کرنا شامل ہیں۔
حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ
ایکشن کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے اضافی مطالبات میں سرِفہرست مطالبہ حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومتی نمائندوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو حاصل مراعات کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، لیکن 15 ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مراعات کے فوری خاتمے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں فوری قانون سازی کی جائے۔
مطالبات میں کہا گیا ہے کہ حکمران طبقے کی شخصیات کو صرف ایک 1300 سی سی گاڑی کے استعمال تک محدود کیا جائے اور ان گھروں میں ذاتی کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ان کے متعلقہ محکموں میں واپس بھیجا جائے۔
حکومتی کابینہ سے وزرا کی تعداد کم کی جائے تاکہ خزانے پر بوجھ کو کم کیا جا سکے، نیز مشیران اور پی آر اوز وغیرہ کے نام پر سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
پاکستان میں مقیم 'مہاجرینِ کشمیر' کے نام پر اسمبلی نشستوں کا خاتمہ
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ 'مقامی وسائل کے بے دریغ ضیاع میں مہاجرین کے نام پر پاکستان میں موجود 12 حلقوں کا ایک بڑا کردار ہے۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مطالبے ہے کہ ’کشمیر کے بجٹ سے ترقیاتی فنڈز کی ریاست سے باہر منتقلی کا غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی سلسلہ فوری بند کیا جائے۔‘
ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ 'ان حلقوں کو حکومت پاکستان ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ان حلقوں کے ممبران کو عدم استحکام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان حلقہ جات کو فوری ختم کیا جائے اور وہ مہاجرین جو خطے کے اندر رہائش پذیر ہیں انھیں ہی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔'
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 1947 سے اب تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے مہاجرین کو مستقل آباد کر کے مالکانہ حقوق دیے جائیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام افراد اب بھی مہاجرین کہلاتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد مختلف جگہوں پر قائم ’مہاجر کیمپوں‘ میں مقیم ہے۔
مقدمات کا خاتمہ
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ آٹھ دسمبر 2024 کو ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان ہونے والے تحریری معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 90 دن کے اندر درج کیے گئے تمام مقدمات ختم کیے جائیں گئے لیکن تاحال مقدمات منسوخ نہیں کیے گئے۔
اُن کا الزام ہے کہ ’انہی مقدمات کو بنیاد بنا کر مختلف علاقوں میں کریکٹر سرٹیفیکٹس جاری کرنے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، لہذا حکومت تمام مقدمات کو منسوح کرے اور کریکٹر سرٹیفیکٹ جاری کیے جائیں۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان رینجرز کی فورسز کو تعینات کرنا ریاست پر بیرونی حملہ تصور کیا جائے گا۔
مفت علاجاور مفت تعلیم کی سہولیات کی فراہمی
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اضافی مطالبات میں مفت علاج کی فراہمی کو بھی شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھر کے تمام ضلعی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں، دیہی ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹرز اور عملے کی ضرورت فوری طور پر پوری کی جائے۔
ہر ہسپتال میں لیبارٹریز قائم کی جائیں تاکہ مرض کی تشخیص با آسانی ہو سکے، مریضوں کو فری ادویات اور فری ٹیسٹنگ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ تمام ہسپتالوں میں اوپی ڈی کا دورانیہ 24 گھنٹے رکھا جائے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ 'ریاست کے ہر شہری کی تعلیم کا حق تسلیم کرتے ہوئے سب بچوں کو فری اور یکساں تعلیم دی جائے۔ اس کے علاوہ درس و تدریس اور امتحانات کیلئے جدید سائنسی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ تمام اداروں میں یکساں نصاب ہونا چاہیے۔'
انٹر نیشل ایئرپورٹ کے قیام سمیت دیگر مطالبات
جوائنٹ ایکشن کمیٹیکا کہنا ہے کہ سفر کے سہولیات کے لیے ریاست میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ تعمیر کیے جائیں اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے پہلے سے کیے گئے میرپور انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے اعلان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
اس کے علاوہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ’1947 سے پاکستان میں رہنے والے کشمیری مہاجرین کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری نوکریوں میں کوٹہ یہاں بسنے والے عوام کے ساتھ نانصافی ہے۔ اسلیے اس کوٹے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں معاہدے کے بعد سسٹے آٹے کی فراہمی کے لیے جو گندم لائی گئی تھی وہ ایکسپائرڈ ہے۔ ’فلور ملز میں ایسی ناقص گندم کی موجودگی ثابت ہوئی ہے جو کہ انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترداف ہے۔ کشمیر بھر میں آٹے کے معیار کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے اور محکمہ خوراک میں گندم کی خریداری سے آنے کی ڈیلرز شپ فراہمی کا نظام صاف اور شفاف بنانے کے لیے بائیو میٹرک نظام نافذ کیا جائے۔‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود تمام گرڈ سٹیشنز کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان کے بجائے مقامی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں تمام معاہدے مقامی حکومت کے ساتھ کیے جائیں، کیونکہ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی وسائل پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوتا ہے۔
مطالبات میں کہا گیا کہ نہ صرف منگلا ڈیم کے متعلق عدالتی فیصلوں کی روشنی میں معاوضوں کی ادائیگی جو کہ واپڈا کے ذمہ ہے فوری ادا کئے جائیں۔ بلکہ تمام ہائیڈرو پراجیکٹ چلتے دریاؤں پر بنائے جائیں اور دریاؤں کے رخ کا موڑے جائیں کیونکہ یہ ماحولیات کے لیے شدید نقصان کا باعث ہیں۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات میں سرکاری محکموں میں رشوت، کرپشن اور سفارشی کلچر کا خاتمے اور اصلاحات بھی شامل ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'ایسے تمام غیر ضروری محکمہ جات کو ختم کیا جائے جو ریاست کے خزانے پر بلا وجہ بوجھ ہیں۔‘
حکومت کو دیے گئے 38 مطالبات کی فہرست میں نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، روز گار کی فراہمی یا بے روزگاری الاؤنس، ٹیکس میں چھوٹ، پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکسز اور فیسوں میں کمی، معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ، عدلیہ میں اصلاحات، بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات، طلبہ یو نین کے انتخابات، پی ایس سی کے امتحانات کا انعقاد، ایڈہاک تقرریاں بند کرنے،تاجروں کو تحفظ کی فراہمی، کم از کم اجرت ماہانہ 50 ہزار روپے مقرر کرنے اور سینٹری ورکرز کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کر کے مالکانہ حقوق دیے جانا شامل ہیں۔
مطالبات پر ہونے والے مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟Getty Imagesفیصل راٹھور کا کہنا ہے کہ اصل ڈیڈ لاک تاجروں کے حوالے سے کمرشل بجلی نرخوں پر پیدا ہوا
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تمام اضلاع کے عوامی نمائندوں کی جانب سے بنائی گئی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات میں بار بار مطالبات پر عمل در آمد کے لیے وقت دیا جاتا رہا مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رُکن شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ آٹھ دسمبر 2024 کے حکومت کے ساتھ ہونے والے ابتدائی معاہدے کے بعد نہ ہی مقامی حکومت اور نہ حکومتِ پاکستان نے ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے رابطہ کیا اور جن مطالبات کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے صرف دو مطالبات مانے گئے اور اُن میں بھی کوالٹی پر سمجھوتہ ہوا۔
شوکت نواز میر کا الزام ہے کہ ’مطالبے کے تحت ملنے والے سستے آٹے کا معیار گرا دیا گیا ہے جبکہ بجلی سستی تو کی گئی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا کر وولٹیج کم دی گئی ہے جس کے باعث اکثر الیکٹرانک آلات کام نہیں کرتے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مقامی حکومت بظاہر نہ تو مطالبات پر عمل درآمد کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ بات کرنے کا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے جو مذاکراتی وفد بھیجا تھا انھوں نے بجلی کی لاگت، حکومت اور عدلیہ کو دی جانے والی مراعات اور ریزرو سیٹوں جیسے عوامی مطالبات پر یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ یہ اُن کا مینڈیٹ ہی نہیں۔‘
تاہم اس الزامات کے جواب میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر داخلہ وقار نور نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وزیر داخلہ نے مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا الزام مظاہرین کی قیادت پر عائد کیا۔
اُن کا کہنا ہے ’وہ لوگ (عوامی ایکشن کمیٹی) خود کہتے ہیں کہ اُن کے 90 فیصد مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ جبکہ کچھ مطالبات پر ایکشن کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ آپ سیاست میں آئیں اور آئینی معاملات پر اسمبلی میں قانون سازی کریں۔ نشستوں اور مراعات کے خاتمےجیسے مطالبات راتوں رات پورے نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن پر باقاعدہ قانون سازی درکار ہو گی۔ یہ بات انھیں منطقی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب کشمیر کی حکومت کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور وفاقی نمائندوں سے مذاکرات کے دوران بھی موجود تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ تمام مطالبات پر معاملات طے پا گئے تھے تاہم تاجروں کی جانب سے بجلی کے نرخوں پر آ کر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔
فیصل راٹھور کا الزام ہے کہ ’ایکشن کمیٹی کے تمام اضافی مطالبات بھی تسلیم کیے گئے جن میں تحریک کے ارکان کے خلاف کیسز کا خاتمہ اور کچھ تعمیراتی منصوبے بھی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے فوری فیصلہ کیا گیا کہ اُن کے فنڈز روکنے کے ساتھ ساتھ کوٹہ سسٹم کو ختم کر دیا جائے گا تاہم نشستوں کے مکمل خاتمے اور مراعات کے خاتمے جیسے مطالبات پر قانون سازی کی جائے گی۔ کیونکہ کچھ چیزیں درجہ بدرجہ تبدیل ہوتی ہیں۔‘
فیصل راٹھور کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی اب محض عوامی نہیں رہیبلکہ یہ صرف تاجروں کی نمائندہ کمیٹی ہے کیونکہ اصل ڈیڈ لاک تاجروں کے حوالے سے کمرشل بجلی کے نرخوں پر پیدا ہوا۔ ہم نے انھیں 5 کے وی اے تک رعایتی نرخ دیے تاہم اب تازہ مطالبات میں انھوں نے اسے 40 کے وے اے تک بڑھانے کا کہا جو وفاقی نمائندوں نے مان بھی لیا لیکن معاہدے پر دستخط سے پہلے یہ مطالبہ 160 کے وے تک بڑھا دیا گیا جو ناقابلِ عمل تھا۔ ہم نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ’پورا پاکستان ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، بدلے میں کچھ نہیں ملتا‘پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کیا چاہتے ہیں اور احتجاج پرتشدد کیوں ہو گیا؟بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟
ان کا دعویٰ ہے کہ ’ڈیڈ لاک کی اصل وجہ یہی ہے لیکن باہر آ کر ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے کہا کہ مراعات کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔‘
اس بابت شوکت نواز میر سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’گھریلو اور کمرشل بلوں میں رعایتی نرخ ہمارے مطالبے تھے، لیکن ہم 160 کے وی اے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں تاہم تمام ہائیڈرو معاہدوں پر ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے اور مراعات اور نشستوں کے معاملے پر فوری قانون سازی کی ٹھوس یقینی دہانی کروائی جائے۔‘
فیصل راٹھور نے الزام عائد کیا کہ ایکشن کمیٹی کے ارکان میں خود اتفاق رائے نہیں اور ’وہ کئی معاملات پر منقسم ہیں۔ ہم نے انھیں کہا ایک حتمی معاہدہ لکھ کر لائیں پھر بات کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ بات چیت سے معاملات حل ہوں، ہم لڑائی نہیں چاہتے۔ وہ احتجاج کریں، بازار بھی بند کروا دیں لیکن رابطہ پُل اور سڑکیں بند نہ کریں۔ جو لوگ ان کے ساتھ بخوشی شامل ہیں وہ ضرور احتجاج کریں۔‘
’پاکستانی فورسز کا استعمال نامناسب ہو گا‘Getty Imagesفائل فوٹو
دوسری جانب کشمیر میں ایک تنازع امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان سے فورسز کی طلبی کا بھی ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ 29 ستمبر کو پوری ریاست میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال ہے تاہم یہ احتجاج پر امن ہو گا۔
انھوں نے کہا ’ہم نے واضح کر دیا ہے یہ احتجاج مکمل طور پر رضا کارانہ ہو گا، لوگ اپنی مرضی سے کاروبار بند کریں گے۔ ہم کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔ لیکن اگر حکومت یا فورسز کسی پر تشدد کریں گی تو کشیدگی کی ذمہ داری انھی پر ہو گی۔‘
شوکت نواز میر نے احتجاج سے قبل پاکستان سے پولیس اور رینجرز بلائے جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں مقامی پولیس موجود ہے، ریاست کی اپنی فورسز ہیں، ایسے میں باہر سے فورسز کو کیوں بلایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں انڈین ایجنٹ کہا جا رہا ہے۔ ہم پاکستان اور اس کی فورسز کے خلاف ہرگز نہیں ہیں لیکن اس طرح عوام کے خلاف ان کا استعمال نامناسب ہو گا۔‘
ان کے اس اعتراض پر کشمیر کے وزیر داخلہ وقار نور کا کہنا تھا کہ ’وفاق سے آنے والی فورسز زلزلے اور سیلاب میں ہمیشہ خطے کے لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔ اگر وہ سرحدوں پر موجود ہو سکتی ہیں تو کسی ممکنہ بدامنی سے نمٹنے کے لیے اُن کو بلائے جانے پر اعتراض ٹھیک نہیں۔‘
وزیرِ داخلہ نے کہا ’اگر مظاہرین پُرامن رہیں گے تو انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن گذشتہ مظاہروں میں ہونے والی کشیدگی کے پیشِ نظر پیشگی حفاطتی انتظامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر جب کچھ لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر شر انگیز بیانات شیئر کیے جا رہے ہیں اور لاٹھیوں کی تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔‘
معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟
کشمیر میں اس نوعیت کے معاملات پر احتجاج کا آغاز لگ بھگ دو سال قبل ہوا تھا جب راولاکوٹ میں مبینہ آٹا سمگلنگ کے باعث احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ معاملات اُس وقت مزید خراب ہوئے جب بجلی کے بلز میں پروٹیکٹڈ/ نان پروٹیکٹڈ کیٹگریز متعارف ہوئیں اور کشمیر میں بجلی کے صارفین کو دُگنے بل موصول ہونا شروع ہوئے۔
اس صورتحال پر لوگوں کی جانب سے احتجاج کا مئی 2023 سے آغاز ہوا۔
احتجاج کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تمام علاقوں میں 31 اگست 2023 کو ریاست گیر ہڑتال ہوئی، مظاہرے ہوئے، گرفتاریاں ہوئیں اور نتیجتاً 17 ستمبر 2023 کو سینکڑوں لوگ دار الحکومت مظفرآباد میں جمع ہوئے اور جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
اس ایکشن کمیٹی کے تحت 30ستمبر 2023 کو کیے گئے مظاہروں میں میں مزید درجنوں لوگ گرفتار ہوئے جس کے ردعمل میں پورے خطے میں 5 اکتوبر 2023 ایک بار پھر شٹرڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال ہوئی اور جلسے منعقد ہوئے۔
اس کے بعد تین نومبر 2023 سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتاور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کےمذاکرات شروع کیے۔ متعدد نشستوں کے باوجود یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔
11مئی 2024 کو مظاہرین نے اپنے 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے حق میں مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا۔ 13 مئی کو حکومت پاکستان نے اس تمام معاملہ میں مداخلت کی اور 20 کلو آٹے کا تھیلا 1000 روپے کا کر دیا گیا جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 3 سے 6 روپے گھریلو اور 10 سے 15 روپے کمرشل مقرر کی گئی۔
لانگ مارچ کے دوران اسلام گڑھ میں ایک پولیس آفیسر جبکہ مظفرآباد میں 3 مظاہرین مارے گئے تھے۔
معاہدے کے باجود کشیدگی کم کیوں نہ ہو پائی؟Getty Imagesدو سال قبل کشمیر میں ہونے والا احتجاج عوام اور سکیورٹی فورسز میں پرتشدد جھڑپوں پر ختم ہوا تھا
اگرچہ مظاہرین کے مرکزی مطالبات تسلیم کیے گئے اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے آٹے پر سبسڈی کے لیے حکومت کشمیر کو فوری طور پر 23 ارب روپے کی رقم فراہم کی گئی جبکہ جون 2024 کے بجٹ میں بجلی پر ٹیرف ڈفرنشل کی مد میں 108 ارب روپے سبسڈی فراہم کی گئی۔
تاہم مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ مقامی حکومت نے ریلیف ملنے کے باوجود ایک جانب آٹے کی کوالٹی کم کر دی تو دوسری جانب ہر علاقے کو مختص کردہ کوٹہ کم کر دیا۔
ادھر بجلی کے معاملے میں یہ طے پایا تھا کہ گھریلو بلوں کے سابقہ بقایا جات نئے ٹیرف پر دیے جائیں گے اور کمرشل بلز 10 سے 15 روپے فی یونٹ چارج ہوں گے لیکن دونوں طے شدہ معاملات پر عملدرآمد نہیں ہوا اور کمرشل بلوں پر 5 کے وی اے سے اوپر اور تھری فیز میٹرز کے بل سابقہ ریٹس پر ہی جاری ہوتے رہے۔
مظاہرین کی شکایت ہے کہ معاہدے میں شامل دیگر 8 نکات پر عملدرآمد بھی نہیں ہو سکا اگرچہ حکومت سروسز کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر چکی تھی۔
اسی مقصد کے لیے 25 ستمبر 2024 کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے راولاکوٹ کے مقام پر جلسہ عام منعقد کرتے ہوئے مقامی حکومت کو 24 اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دی۔ تاہم یہ وقت گزرنے کے بعد 24 اکتوبر کو کوٹلی میں جلسہ عام منعقد کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی نے 23 جنوری 2025 کو دوسرے لانگ مارچ کی کال دے دی اور حکومت کو مطالبات پر عملدرآمد کے لیے 31 دسمبر 2024 کا وقت دیا۔
تاہم حکومت نے 30 اکتوبر 2024 کو پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024ء کے ذریعے اس پورے علاقے میں پیشگی اجازت کے بغیر ہر قسم کے اجتماع/ احتجاج پر پابندی عائد کر دی۔
اس آرڈیننس کو کشمیر بار کونسل اور سپریم کوٹ بار نے عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر دیا جہاں اس آرڈیننس کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔
آرڈیننس کی مکمل منسوخی اور گرفتار افراد کی رہائی کے لیے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پانچ دسمبر کو ریاست گیر شٹرڈاؤن اور پہیہ جام کی کال دے دی جو چھ دسمبر کو بھی جاری رہی۔
سات دسمبر 2024 کو ایکشن کمیٹی نے کمشیر کے داخلی پوائنٹس بند کرنے کی کال دی اور کشمیر کے اس حصے کو کو پاکستان سے ملانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ مظفرآباد کو خیبر پختونخوا سے ملانے والے پوائنٹ برار کوٹ اور دوسرے بڑے داخلی پوائنٹ کوہالہ کو بند کر دیا گیا۔اس احتجاج کے بعد آٹھ دسمبر کو مقامی حکومت نے نہ صرف گرفتار کارکنوں کو رہا کیا بلکہ آرڈیننس بھی واپس لے لیا۔
اس دوران طے ہوا کہ حکومت بجلی کے ٹیرف کا معاملہ طے کرے گی اور وہ تمام مقدمات 90 دن میں اندر ختم کرے گی جو مئی 2023ء سے دسمبر 2024ء کے دوران ایکشن کمیٹی کے اراکین پر قائم ہوئے۔
اس کے علاوہ چند مزید معاملات پر اتفاق کیا گیا جو یہ تھی:
منگلا ڈیم کی اب گریڈنگ کے بعد اس کی زد میں آنے والے مکانوں کے میٹر کنکشن منقطع کر کے ان مکانات کے نام جاری کیے گئے بلز ختم کیے جائیںبجلی کے میٹرز آئندہ مالی سال میں بذریعہ ای ٹینڈرنگ خریداریآٹے کی کوالٹی کو بہتر بنانا اور آبادی کے تناسب سے ایلوکیشن کرنابلدیاتی نمائندگان کو اختیارات اور فنڈز جاری کرناطلبا یونین کے انتخابات کے حوالہ سے ضابطہ اخلاق طے کرنے کے لیے کمیٹی بناناجموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ 4 فروری 2024ء کو کیے گئے معاہدہ اور نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد کیا جانا
آٹھ دسمبر 2024 کو جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے چارٹر آف ڈیمانڈ پر مکمل عملدرآمد کے لیے حکومت کو 6 ماہ کا وقت دے دیا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ اب سات جون 2025 کو یہ چھ ماہ کا وقت ختم ہو گیا مگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے معاہدوں یا نوٹیفیکیشن کی کسی بھی شق پر عمل نہیں کیا گیا اس لیے انھوں نےحکومت کو 38 نکات پر مشتمل ایک اضافی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ہے جو پچھلے دس مطالبات کے علاوہ ہے۔
ایکشن کمیٹی نے اس چارٹر پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو 20 ستمبر 2025 تک مہلت دی تھی جس کے بعد 29 ستمبر 2025 کو پورے خطے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کیا چاہتے ہیں اور احتجاج پرتشدد کیوں ہو گیا؟پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ’پورا پاکستان ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، بدلے میں کچھ نہیں ملتا‘بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟مہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانیکشمیر کا ترانہ، پاکستان کے ترانے سے بھی پرانا