BBC
’جب میرے بیٹے حسن عبدالرحمان نے ساڑھے تین سال کی عمر میں پہلی بار چلنا شروع کیا، وہ خوشی کا لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ پھر جب آٹھویں کلاس پاس کی اور اب نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان پاس کیا تو وہ میرے لیے ایک سنگ میل ہی نہیں بلکہ ایک معجزہ تھا جس پر خود مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔‘
’مجھے کچھ نہیں پتا تھا کہ سیریبل پالزی بھی کوئی بیماری ہے یا یہ کیا ہوتا ہے، اس کی علامات کیا ہوتی ہیں، اس کے چیلینجز کیا ہوتے ہیں اور آگے چل کر اس میں بچے کے لیے کتنی مشکلات ہو سکتی ہیں۔‘
17 سالہ حسن عبدالرحمان سیریبل پالزی (سی پی یا دماغی فالج) سے متاثرہ نوجوان ہیں تاہم ان کے والدین نے اپنے بیٹے کی زندگی کو بامقصد اور خودمختار بنانے کے لیے دن رات ایک کیا۔
دماغی فالج سے متاثر ہونے کے باوجود حسن نہ صرف اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے کر لیتے ہیں بلکہ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں بھی شوق سے حصہ لیتے ہیں۔
یاد رہے کہ سیریبل پالزی ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جس میں بچے کے دماغ کو پیدائش سے پہلے، پیدائش کے دوران یا اس کے فورا بعد نقصان پہنچنے سے حرکت کرنے، توازن رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اور وہ دیر سے چلنا اور بولنا شروع کرتا ہے۔ حرکت یا پٹھوں میں پیدا ہونے والی اس خرابی کو سیریبل پالزی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق اس کی تشخیص تقریبا چند ماہ کی عمر میں ہوتی ہے جب بچے کی نشوونما کے اہداف میں تاخیر ہو مثلا تین ماہ میں گردن میں ٹھہراؤ نہ آئے، حرکت کرنے میں بے اختیاری یا تاخیر ہو۔ بولنے میں دشواری ہو تو اس کی وجہ سے والدین متوجہ ہوتے ہیں اور یوں معائنے کے بعد اس کی تشخیص ہوتی ہے تاہم باقاعدگی سے علاج متاثرہ بچوں کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
حسن کی والدہ حاجرہ ذوالفقار کہتی ہیں کہ حسن کی تشخیص کے بعد ابتدا میں وہ مایوس اور ناامید تھیں تاہم مستقل فزیو تھیراپی، ورزش اور کوششوں سے آج وہ نہ صرف پڑھائی میں آگے ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی تقریبا فٹ ہے۔
’حسن ہمیشہ سکول شوق سے جاتا ہے۔ خود کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صبح سویرے پونے چھ بجے کا اس نے الارم لگایا ہوتا ہے، خود روز نہاتا ہے، خود تیار ہوتا ہے۔ وقت کا پابند ہے۔ صفائی ستھرائی، واش روم جانا، طہارت سب کچھ یہ خود کرتا ہے شکر اللہ کا۔ ہر چیز وقت پر کرنا میرے بیٹے کو پسند ہے۔‘
مگر سی پی کی حالت سے متاثرہ حسن کے لیے یہ سب ممکن بنانے میں حاجرہ کا سفر آسان نہ تھا۔
ہم نے اس مضمون میں سی پی سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے بات کر کے ان افراد کے چیلینجز کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی ڈاکٹرز سے اس بیماری کی وجوہات، علاج اور مشکلات پر بھی بات کی ہے۔
یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے دو سے تین افراد اس ڈس آرڈر سے متاثر ہوتے ہیں اور متاثرہ افراد کی زندگی کو بہتر اور فعال بنانے کے لیے اس کی آگاہی کی ضرورت موجود ہے۔
’حقیقت قبول کرنے میں مشکل اور لوگوں کے چبھتے سوالات‘BBCحسن عبدالرحمان اپنی بہن کے ساتھ پڑھائی کرتے ہوئے
تین بیٹیوں کے بعد جب حاجرہ اور ذوالفقار کے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے مکمل ہو جانے پر خوش تھے۔
’حسن عبدالرحمان بالکل نارمل پیدا ہوا تھا مگر پیدائش کے تیسرے دن اس کا یرقان بگڑ گیا اور اس کا بلڈ ٹرانسفیوژن (خون کی منتقلی) کروانا پڑی جس کے بعد یہ بظاہر ٹھیک ہو گیا اور پھر ہم ہسپتال سے گھر آ گئے اور روٹین میں زندگی چلنے لگی۔‘
ان کے مطابق ’حسن تین ماہ کا ہوا تو اس کو تیز بخار ہوا۔ ہم بچوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے اس کا تفصیلی معائنہ کر کے کہا کہ اس کو سیریبل پالزی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے حسن کو فزیو تھیراپی کے لیے ریفر کر دیا اور پھر وہاں سے ہمارا طویل سفر شروع ہو گیا۔‘
حاجرہ نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب اس پرابلم پتا چلا تو سب سے پہلے ذہن میں مختلف چیزیں آئیں کہ ’میرا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ بھی بیمار ہو گیا اور یہ اتنی سخت تکلیف میں ہے۔ مجھے کوئے امید نظر نہیں آتی تھی کہ یہ ٹھیک ہو سکے گا یا نہیں یا اس اپنے کام خود کر سکے گا یا نہیں۔‘
’میں تو خود پہلے اس کو قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ میں نے ہر جگہ آنا جانا لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ لوگ ہر وقت اس کو دیکھ کر یہی باتیں کرتے تھے کہ یہ کیوں ایسا ہے، یہ بیٹھتا کیوں نہیں، بولتا کیوں نہیں تو ایسے ہر وقت کے سوالات کا سامنا مجھے تھا۔‘
’تاہم آہستہ آہستہ جب میں نے یہ دیکھا کہ جہاں میں اس کو فزیو تھراپی کے لیے لے کر جاتی تو وہاں لوگوں کو دیکھتی کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں اور ان کی کنڈیشن میرے بیٹے سے کہیں خراب بھی ہوتی تھی تو پھر مجھے پتا چلا کہ میں تنہا نہیں بلکہ اس میں کئی والدین اس آزمائش سے ہمت و حوصلے سے گزر رہے ہیں۔ مجھے اس سپورٹ گروپ سے حوصلہ ملا۔‘
BBCحسن کے والد اپنے بیٹے کی تمام ایکٹیویٹیز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں تاکہ دیگر والدین کی حوصلہ افزائی ہوپری میچیور پیدائش، دوران حمل ماں کا ہائی بلڈ پریشر خطرناک
حسن کی کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے جان لیتے ہیں کہ سی پی یا دماغی فالج کی وجوہات کیا ہیں، سیریبل پالزی کا خطرہ کن بچوں میں ہوتا ہے اور کیا اس کی علامات میں اچانک شدت بھی آ سکتی ہے؟
ان سوالات کا جواب ہمیں دیا اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے بچوں میں اعصابی اور دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر وسیم الرحمان نے جن کا کہنا تھا کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ماں کو کسی شدید انفیکشن کے باعث بچے کا دماغ متاثر ہو جائے، ماں کو ذیابیطس یا بلڈ پریشر بے قابو ہوجانے جیسے مسائل ہوں تو اس کی وجہ سے بچے میں یہ ڈس آرڈر ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ اس عارضے کا سبب
بچے کا وقت سے پہلے پیدا ہونا یا پری میچیور پیدائش بچے کا پیدائش کے فورا بعد گولڈن منٹ یعنی پہلے منٹ میں درست طریقے سے نا رونا یا سانس درست طریقے سے نا لینانوزائیدہ بچے کو سر پر چوٹ لگنادماغ میں کسی انفیکشن کا ہونا بھی سیریبل پالسی کا سبب بن سکتا ہے۔ گردن سے پاؤں تک بلاناغہ ورزشیںBBCحسن عبدالرحمان کا معمول روز نہانا، وقت پر سکول جانا اور کھیل کے وقت کھیل اور شام میں پڑھنا ہے
جب ہم سی پی سے متاثرہ حسن عبدالرحمان سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو حسن نے بیرونی دروازے پر نہ صرف خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا بلکہ گفتگو کے دوران اپنے والدین کے ساتھ وقتاً فوقتاً باتوں میں بھی حصہ لیا۔
حسن کی زندگی کو فعال بنانے کی کوششوں کے حوالے سے حاجرہ نے ہمیں تفصیلات بتائیں جو انھی کی زبانی پیش ہیں۔
’چند ماہ کے حسن عبدالرحمان کے سارے پٹھے سخت ہو گئے تھے اور ان میں حرکت نہیں ہوتی تھی۔ وہ تین ماہ کا تھا جب سے اس کی ایکسرسائزز کروانا شروع کیں۔ حسن تکلیف سے بہت روتا تھا تاہم ڈاکٹرز کی ہدایات تھیں اس کے تمام جوڑوں اور پٹھوں کی حرکت کے لیے یہ تمام مشقیں ہمیں دن میں کئی بار کروانی ہیں۔ اس میں گردن سے لے کر پاؤں تک کی تمام ایکسرسائز ہوتی تھیں۔‘
’میں اور میرے شوہر صبح سویرے حسن کو لے کر پہلے پمز ہسپتال فزیو کے لیے لے کر جاتے اور بعد میں ہم بیٹے کو ایک ڈے کیئر چھوڑتے اور میں کالج اور شوہر اپنی جاب پر جاتے۔ پھر واپس آ کر اس کی فزیو ہوتی۔‘
حاجرہ اسلام آباد کے ایک کالج میں انگلش پڑھاتی ہیں اور انھوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ عبدالرحمان کے علاج اور فزیو تھیراپی میں کبھی کوتاہی نہیں کی جس کی وجہ سے ان کا بیٹا سکول جانے اور اپنے کام خود کرنے کے قابل ہوتا گیا۔
ساڑھے تین سال کی عمر میں پہلا قدم BBCحسن اب بھی باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں
حاجرہ بتاتی ہیں کہ انھیں شروع میں امید نہیں تھی کہ حسن کا سکول میں داخلہ ہو سکے گا یا نہیں۔ ’کوئی اس کو قبول کرے گا یا نہیں یا اس کے کلاس فیلوز اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے‘ تو یہ خدشات ان کے ذہن میں سر اٹھاتے رہتے تھے۔
’لوگوں کے سوالات سے میں بہت اپ سیٹ ہو جاتی تھی اور سوچتی تھی کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا۔ میں نے ایسی کون سی کوتاہی کی اپنی پریگنینسی میں یا بچہ ہونے کے بعد کہ بیٹا اس مشکل میں آ گیا۔‘
’حسن کی فزیو تھیراپی سے تقریبا چھ ماہ کی عمر میں گردن ٹھہرنا شروع ہوئی۔ پھر بیٹھنے کی ورزش شروع کی تو 11 مہینے میں یہ بیٹھنا شروع ہوا۔ پھر سہارے کے ساتھ کھڑا ہونا شروع ہوا کیونکہ اس کی ٹانگیں کمزور تھیں۔‘
’میں ایک شادی میں گئی تھی تو اچانک یہ کھڑا ہوا اور اس نے قدم اٹھانا شروع کیے اور یوں ساڑھے تین سال کی عمر میں حسن چلنا شروع ہوا۔ اس کے بعد اس کے بیلنسنگ (توازن) کے مسائل سامنے آئے۔‘
حسن کی سکولنگ چھ سال کی عمر میں خصوصی بچوں کے سکول ’امید نور‘ سے شروع ہوئی۔
’ہمیں پتا چلا کہ اس کی سپیچ تھیراپی بروقت نہیں ہو سکی اور اس لیے اس کے بولنے میں تاخیر کا مسئلہ آیا۔ تاہم حسن نے اب بھاگنا اورسیڑھیاں چڑھنا اترنا شروع کر دیا تھا۔ پھر ہم نے ’الفارابی سینٹر‘ میں ایڈمیشن کروایا جہاں سے اس کی باقاعدہ سکولنگ شروع ہوئی اور اس طرح یہ قدم با قدم آگے بڑھا۔ نائنتھ کلاس بورڈ سے بڑے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے۔‘
’وہ بولنے کی کوشش کرتیں مگر اپنی بات سمجھا نہ پاتیں‘
کیا یہ ڈس آرڈر ایک نسل سے دوسری میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے ہم نے اس عارضے سے متاثرہ ایک خاتون کی کہانی ان کی بیٹی ثوبیہ (فرضی نام) کی زبانی سنی اور مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے میں آسانی کے لیے شامل تحریر کیا۔
ثوبیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اپنے بچپن میں میں نے دیکھا کہ امی کچھ غیر متوازن چلتی تھیں، ان کو ہلکا پھلکا سہارے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرا انکی حالت میں خرابی آتی گئی۔ایک وقت آیا کہ وہ دو لوگوں کی مدد سے ہی چل پاتی تھیں۔‘
ثوبیہ کے مطابق ’امی کو باتھ روم جانے میں بھی مدد کی ضرورت پیش آنے لگی۔ ان کی ٹانگوں میں درد بڑھتا گیا یہاں تک کے وہ وہیل چیئر پر آ گئیں۔ جس کے بعد ان کی گردن ایک جانب لٹکنا شروع ہو گئی اور ہاتھ پاؤں بالکل کنٹرول سے باہر ہو گئے وہ کوئی چیز پکڑ نہیں پاتی تھیں۔‘
ثوبیہ نے بتایا کہ آہستہ آہستہ ان کی والدہ کا اپنے جسم پر کنٹرول ختم ہوتا گیا اور ایک وقت آیا کہ وہ بالکل بیڈ پر آ گئیں۔
’وہ گردن تک مشکل سے سیدھی کر پاتیں۔ وہ بولنا چاہتی تھیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آ پاتا تھا۔ ان کے لیے سب سے مشکل شاید یہی تھا کہ وہ اپنی بات سمجھا نہیں پاتی تھیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ ورکنگ وومین تھیں اور پھر یہ وقت آیا کہ وہ بالکل محتاج ہو گئیں تو ان کے لیے یقینا بڑا مشکل ترین وقت ہو گا۔‘
اے ڈی ایچ ڈی: وہ ذہنی بیماری جس میں ’10 منٹ سے زیادہ بیٹھ کر کام نہیں ہوتا‘کہیں آپ کے بچے بے جا پابندیوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تو نہیں؟سرویکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین سے جڑے مفروضوں کی حقیقت: ’پیریڈز ڈسٹرب نہیں ہوں گے اور بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بہتر ہو گی‘ آٹزم اور ماہواری: ’میں جسمانی اور ذہنی تکلیف میں فرق نہیں کر سکتی‘
ثوبیہ کی والدہ ہی نہیں بلکہ ان کے ماموں، خالہ، اور کچھ کزن سب بہت بری طرح متاثر تھے اور بے بسی کے عالم میں ان سب کی موت واقع ہوتی گئی۔
’ایک بار امی کو بہت شدید انفیکشن ہوا پھر پائلز کا مسئلہ ہوا جو بہت تکلیف دہ تھا۔ آخری وقت امی نے بہت تکلیف میں گزارے۔ اس وقت میڈیا یا سوشل میڈیا نہیں تھا نہ ہم میں اتنی عقل تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس میں علامات آتے ہی دیر نہیں کرنا چاہیے۔ فزیو تھیراپی امی کی ہوئی مگر بہت لیٹ ہو چکا تھا۔ میری کزن کے ایک بیٹے بھی اسی مرض کا شکار ہوئے جن کی 14 سال کی عمر میں موت ہو گئی۔‘
’امی شادی سے پہلے وہ بہت ایکٹیو تھیں۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینا، گیمز میں حصہ لینا۔ میں نے اپنے ایک کزن میں علامات دیکھیں جو بہت معمولی تھیں۔ بہت غور کیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ان میں علامات موجود ہیں۔‘
سماجی اور جذباتی مدد کی ضرورت
تو کیا سی پی نسل در نسل منتقل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر وسیم الرحمان نے کہا کہ کچھ سیریبل پالزی کی وجوہات جنیاتی بھی ہوتی ہیں یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق ’عمومی طور پر پری میچیورٹی یا بچے کی پیدائش میں تاخیر اس کی وجہ ہو تو وہ دوسری نسل میں منتقل نہیں ہوتے۔‘
’پیدائش کے پہلے مہینوں میں اس عارضے کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جوں جوں بچے کے عمر کے ساتھ اس کی عموما چیزوں میں تاخیر ہوتی ہے مثلا تین ماہ کی عمر میں گردن کا ٹھہرنا، چھ سے آٹھ مہینے میں بیٹھنا، 12 سے 15 ماہ میں چلنا اور کچھ لفظ بولنا تو تشخیص ہوتی ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسے بچوں میں عمر بھر کی معذوری ہو۔ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں چلنے میں یا بولنے میں دشواری تھوڑی بہت ہوتی ہے اس کے علاوہ ان میں ذہانت کی کمی نہیں ہوتی۔‘
BBCڈاکٹر وسیم الرحمان اس کی آگاہی، سماجی اور جذباتی سپورٹ پر زور دیتے ہیں ’نارمل کے قریب تک بہتری‘
ڈاکٹر وسیم الرحمان کہتے ہیں کہ اب طبی ماہرین کی سفارشات ہیں کہ وہ بچے جو سی پی کی شدت کا شکار ہو کر ہاتھوں اور پیروں میں معذوری کا شکار ہوتے ہوں ان کو سی پی چیئر میں بٹھا کر اس کے ساتھ کھیلنے اور بات چیت کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان کے مطابق ’دیکھا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بھی بہتری آتی ہے تو اس لیے جو اس سے متاثرہ بچے ہیں ان کے لیے ہمت نہیں ہارنی اور ان کی تھیراپی کے ساتھ ساتھ انھیں سماجی اور جذباتی سپورٹ دینی ہے تاکہ ان میں اعتماد بڑھے۔‘
ان کے مطابق ’سی پی کے کچھ کیسز میں معمولی سی آرتھوپیڈک سرجریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاتھ پاؤں کا ٹیڑھا ہو جانا یا بیلینسگ نہ ہونے پر مخصوص بریسز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر وسیم الرحمان کہتے ہیں کہ ’سی پی سے متاثر کچھ بچے منھہ سے رال آنے کے باعث چبانے اور نگلنے کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں تو اس کے لیے بھی سپیچ تھیراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے چیزیں رفتہ رفتہ بہتر ہو جاتی ہیں اور نارمل کے قریب تک بہتری آ سکتی ہے۔‘
اے ڈی ایچ ڈی: وہ ذہنی بیماری جس میں ’10 منٹ سے زیادہ بیٹھ کر کام نہیں ہوتا‘سرویکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین سے جڑے مفروضوں کی حقیقت: ’پیریڈز ڈسٹرب نہیں ہوں گے اور بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بہتر ہو گی‘ بریسٹ کینسر: علامات، تشخیص اور طریقہ علاجکہیں آپ کے بچے بے جا پابندیوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تو نہیں؟آٹزم اور ماہواری: ’میں جسمانی اور ذہنی تکلیف میں فرق نہیں کر سکتی‘آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین: ’سب سے مشکل اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ شاید میرا بیٹا مجھے ماں نہیں بلا سکتا‘