قرطبہ کی لبنیٰ ’ایک غلام کنیز‘ جو اپنی ذہانت سے اموی خلیفہ کی قابلِ اعتماد مشیر بنیں

بی بی سی اردو  |  Mar 09, 2025

بی بی سی کی سیریز ’سنہرا اسلامی دور‘ (750 سے 1258) کی اس قسط میں ہم ’قرطبہ کی لبنیٰ‘ کی زندگی پر روشنی ڈالیں گے جن کا ذکر تاریخ کی دستاویزات میں کئی بار ملتا ہے۔ کسی ایک روایت میں وہ شاہی کتب خانے کی ماہرِ کتب تھیں، تو دوسری میں وہ خلیفہ الحکم الثانی کی نجی سیکرٹری کے طور پر سامنے آتی ہیں۔۔۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں وہ غیر معمولی ذہانت و بصیرت کی مالک خاتون تھیں جن کا اپنے وقت کے عظیم علمی و فکری حلقوں میں شمار ہوتا ہے۔

لبنیٰ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک کنیز تھیں جو غلاموں کی نسل سے پیدا ہوئیں۔

انھوں نے ایک نقل نویس کے طور پر کام شروع کیا مگر اپنی ذہانت کی بدولت محل کی لائبریری کی منتظمہ بن گئیں۔ جیسے جیسے لبنیٰ کی غیر معمولی ذہانت و بصیرت سامنے آتی گئی ان کی ترقی کا سفر بھی تیز تر ہوتا گیا اور وہ دسویں صدی کے قرطبہ میں اندلس کی اموی سلطنت کے خلیفہ الحکم الثانی کی ذاتی سیکرٹری بنیں۔

لبنیٰ کی رگوں میں شاہی خون نہیں تھا مگر پھر بھی شاہی دربار میں ان پر اعتماد کیا گیا اور اتنی بڑی ذمے داری سونپی گئی کہ وہ خلیفہ کی ذاتی سیکریٹری بنیں۔

تاریخ کی کتابوں میں انھیں ایک شاعرہ، کاتبہ اور خلیفہ الحکم الثانی کی لائبریری کی ایک اہم شخصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وہ شاہی کتب خانوں کی ماہرِ انتخاب (کتابوں کا انتخاب کرنے والا عہدہ) تھیں جنھوں نے خلیفہ کے لیے نایاب کتب کی جستجو میں دمشق، قاہرہ اور بغداد تک کا سفر کیا۔

الحکم الثانی کی نجی سیکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک غیر معمولی ریاضی دان بھی تھیں، جو جیومیٹری اور الجبرا کے پیچیدہ ترین مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتی تھیں۔ فلکیات اور سائنسی علم کے حوالے سے بھی ان کا نام سامنے آتا ہے۔۔ لبنیٰ کی ذہانت نے انھیں اپنے وقت کے اہم علمی حلقوں میں ممتاز کر دیا۔

یہاں شاید آپ سوچنے لگیں کہ یہ ایک ہی عورت ہے یا تین مختلف ہستیوں کی بات ہو رہی ہے؟ گھوم پھر کر کتابیں ڈھونڈنے والی خاتون، ایک ریاضی دان یا ایک ماہر کاپئسٹ (نقل نویس)؟

سپین میں مسلمانوں کے دور کی یہ عظیم شخصیت کون تھیں کہ الحکم الثانی پر لکھی گئی تصانیف کا مطالعہ کرنے والے لبنیٰ کے نام پر رک جاتے ہیں؟

Getty Imagesصبح اورلُبنیٰ کے درمیان کسی تعلق کا تصور کرنے کی واحد وجہ ان کی جنس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں مردوں سے بھرے اس دربار میں عورتیں تھیں اور شاید اسی لیے سہلیاں بن گئیں۔

یاد رہے الحکم الثانی قرطبہ پر راج کرنے والے دوسرے اموی خلیفہ تھے جنھوں نے 961 سے 976 عیسوی تک حکمرانی کی۔ وہ عبد الرحمٰن ثالث کی اولاد تھےجو اندلس میں اموی خلافت کے پہلا خلیفہ تھے۔

واپس آتے ہیں لبنیٰ کی طرف۔

اگر آپ اپنے ذہن میں لبنیٰ کا خاکہ بنانے کی کوشش کریں تو ایک ایسی خاتون کی شبہیہ بنے گی جو بڑی بڑی جیبوں والی لمبی جُبہ نما پوشاک پہنے۔۔۔ مسلم دنیا کے کتب خانوں میں بے نیازی سے چل رہی ہیں جہاں معمر کتاب فروش انھیں قدر کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔

مگر پلکیں جھپکنے پر وہ ایک اور روپ میں نظر آتی ہیں۔۔ ایک خاتون جو ایک مدھم چراغ کی روشنی میں تھکی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی ہے اور نفیس خطاطی میں فلسفیوں کے اقوال نقل کر رہی ہے۔۔ یہ عظیم خاتون عورت کی کم تری پر مضامین لکھنے والے فلسفیوں کے قول بھی نقل کر رہی ہے۔

اور یہ خاتون خلیفہ کی قابلِ اعتماد معتمد بھی بن چکی ہے اور اپنی ذہانت کے باعث الحکم الثانی کے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عورت ہونے کے ناطے خلیفہ کی نظروں میں لبنیٰ کی اہمیت کم تر تھی کیونکہ ان کا دربار مردوں سے بھرا ہوا تھا اور ان سب کے بیچ لبنیٰ نے اپنا مقام بنایا۔

تاہم یہاں سے سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ لبنیٰ کا دربار میں موجود اس عورت سے کیا رشتہ تھا جو نسل بڑھانے کی غرض سے خلیفہ کے بستر تک پہنچی اور جسے یا تو مجبور کیا گیا یا اس نے خود مردانہ لباس پہننے کو ترجیح دی اور فیصلہ کیا کہ اسے ایک مردانہ نام جعفر سے پکارا جائے؟

ایک ناول نگار تو لبنیٰ کے کردار یا کرداروں پر بہت کچھ تخلیق کر سکتا ہے مگر غیر افسانوی تعارف کے لیے ہمیں بارہویں صدی کے سوانح نگار ابنِ بشکوال کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو قرطبہ کی لبنیٰ کو یوں بیان کرتے ہیں: ’ایک ذہین مصنفہ، ماہرِ گرامر، شاعرہ، ریاضی میں دسترس رکھنے والی اور بےحد وسیع النظر علم کی مالک۔‘

’الحکم الثانی کے محل میں کوئی بھی لبنیٰ جتنا عالی مرتبت نہ تھا‘

الحکم الثانی کے محل میں کوئی بھی لبنیٰ جتنا عالی مرتبت نہ تھا۔

ان کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جن میں تضاد تو نہیں لیکن یہ ادھوری ضرور ہیں۔

شاعرہ، ریاضی دان، ماہر کاتبہ۔۔۔ وہ یقیناً یہ سب کام کرتی ہوں گی اور اس سے بڑھ کر بھی قابل ہوں گی کیونکہ وہ ایک ایسے دور میں جی رہی تھیں جس میں علم مخصوص دائروں میں قید نہیں تھا بلکہ ہمہ گیر تھا۔

اس دور کی لبنی کی شخِصیت کو دریافت کرنا باعثِ خوشی ہونا چاہیے لیکن ابنِ بشکوال کی تفصیل پڑھنے والے کو بےچین کر دیتی ہے ’محل میں کوئی بھی اتنا عالی مرتبت نہ تھا جتنی لبنیٰ۔۔‘ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ کیا خلیفہ بھی نہیں؟

شاید ابنِ بشکوال یہ کہہ رہے ہیں کہ لُبنیٰ قرطبہ ایک غیرمعمولی شخصیت تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ صنفی رکاوٹوں کے باوجود اس قدر مرتبہ حاصل کر سکیں۔

کسی بھی دور میں غیرمعمولی عورت کی شخصیت پیچیدہ رہی ہے۔ لیکن جب ہم کسی ایک عورت کی زیادہ تعریف و مدح سرائی کرتے ہیں تو کیا ہم لاشعوری طور پر یہ اشارہ نہیں دے رہے ہوتے کہ اگر باقی عورتیں بھی زیادہ محنت کرتیں، زیادہ ذہین ہوتیں، تو وہ بھی یہی مقام حاصل کر سکتیں تھیں؟

جب آپ تاریخ کی کتابوں میں لُبنیٰ کا نام پڑھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں خیال ابھر سکتا ہے کہ دسویں صدی کی یہ اندلسی عالمہ یقیناً ایک نایاب ہستی رہی ہوگی جس نے مردوں کے علمی حلقوں میں جگہ بنائی اور اس دور کے لوگ بھی یقیناً اس کے متعلق پرتجسسّ رہے ہوں گے۔

جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا اور مسلمان دانشوروں نے وہاں کاغذ متعارف کروایاوہ افغان شہزادی جنھیں ان کی شاعری کی وجہ سے صوفی کا درجہ ملاسنہرا اسلامی دور: امام بخاری اور ان کی علمیت پسندیالفارابی: جنھوں نے یونانی فلسفے سے اسلام سمجھانے کی کوشش کی

اسی لیے دربار میں لُبنیٰ کے لیے کسی دوست کا تصور کرنے پر ذہن میں صرف ایک مردانہ لباس پہننے والی درباری خاتون آتی ہے۔

حالانکہ یہ ناانصافی ہوگی اگر ہم یہاں یہ ذکر نہ کریں کہ الحکم الثانی کی وفات کے بعد یہی درباری خاتون ’جعفر‘ جو مردانہ لباس زیب تن کرتی تھیں، قرطبہ کی نگران بنی اور اپنے اصل نام ’صبح‘ سے جانی گئیں۔

صبح اورلُبنیٰ کے درمیان کسی تعلق کا تصور کرنے کی واحد وجہ ان کی جنس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں مردوں سے بھرے اس دربار میں عورتیں تھیں اور شاید اسی لیے سہلیاں بن گئیں۔

لیکن تحقیق کو مزید وسعت دینے پر پتا چلتا ہے کہ لُبنیٰ کی خوبیوں والی تفصیلات کسی ایک عورت پر لاگو نہیں ہوتیں۔۔۔ نہ ایک لُبنیٰ تھی، نہ تین۔ بلکہ دو تھیں۔ یعنی الحکم الثانی کے دربار میں ایک شاعرہ، ریاضی دان، کاتبہ، کتب دار اور سیکرٹری تھی، جس کا نام لُبنیٰ تھا۔

جبکہ شاہی کتب خانے کی نگران ایک اور عورت تھی جو قاہرہ، دمشق اور بغداد کے کتب فروشوں سے نادر ترین مخطوطے اکٹھے کرتی تھی اور ان کا نام فاطمہ تھا۔

جس مصنف نے فاطمہ کو اس کے نام سے محروم کر کے لُبنیٰ کے نام کا لبادہ اوڑھا دیا، اس کے لیے شاید یہ تصور کرنا ممکن ہی نہ تھا کہ الحکم ثانی کے دربار میں ایک ہی وقت میں دو عورتیں علمی اختیار کے مناصب پر فائز ہو سکتی تھیں۔

فہم کی اتنی کمی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اس دور میں ایک عورت کا عالم ہونا ایک استثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔

مگر دو اتنی قابل عورتیں؟ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ چیز اس دور کے علمی و ثقافتی ماحول کی جھلک بن جاتی اور اس کے لیے تاریخ کو دیکھنے کے زاویے کو مکمل طور پر بدلنا پڑتا۔

تو پھر اندلس کی وہ ثقافت کیا تھی؟ فاطمہ کس پس منظر سے ابھر کر سامنے آئی تھیں؟ وہ نہ تو عام عورت تھی، نہ ہی کوئی نایاب شخصیت، بلکہ ان دونوں کے بیچ کہیں موجود تھی۔

آٹھویں سے چودہویں صدی کے درمیان لکھی گئی سوانح حیات کا جائزہ لیا جائے تو اندلس کی خواتین کا مختلف حیثیتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ کبھی بطور دانشور، عالمہ، کبھی سائنسدان، تو کبھی شاعرہ، قانون پڑھانے والی معلمہ اور کبھی علم الحیات کی استاد۔

اس زمانے میں تاریخ دان خواتین تھیں، ریاضی دان، ادب اور لغت کی ماہر خواتین بھی موجود تھیں۔ ان کی تعداد کم تھی مگر وہ موجود تھیں۔

اور اس دور میں خواتین کا تعلیم حاصل کرنا کوئی نایاب چیز نہیں تھی، نہ ہی یہ صرف امیر طبقے تک محدود تھی۔۔۔ کم از کم الحکم ثانی کے دور میں تو نہیں جنھوں نے قرطبہ میں 27 مفت سکول قائم کیے۔

جب لوگ کتابوں کو جواہرات اور کنیزوں سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے

اب ذرا الحکم ثانی کے دور کی بات کرتے ہیں جب لوگ کتابوں کو جواہرات اور کنیزوں سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔

مورخ ابن سعید المغربی ایک عالم کی کہانی بیان کرتے ہیں جو ایک نایاب کتاب کی تلاش میں سرگرداں رہا مگر آخر کار ایک امیر شخص نے زیادہ بولی لگا کر وہ کتاب خرید لی۔ مایوس عالم نے اس امیر شخص سے جا کر بات کی تو جواب ملا: ’ادب کا تقاضا ہے کہ میری ذاتی لائبریری ہو اور اس کتاب کے لیے میری شیلف میں بالکل صحیح جگہ موجود ہے۔‘

اس پر عالم بے بسی سے بس یہی کہہ سکا: ’یہ کہاوت واقعی سچ ہے کہ خدا گری والے میوے انھیں ہی دیتا ہے جن کے پاس کھانے کو دانت نہ ہوں۔‘

یہ کہانی ظاہر کرتی ہے کہ ہر کتاب جمع کرنے والا علم کا قدردان نہیں ہوتا۔

لیکن یہ بھی بتاتی ہے کہ کیوں لُبنیٰ اور فاطمہ جیسی خواتین، جو شاہی کتب خانے میں کام کرتی تھیں، اتنی اعلیٰ حیثیت رکھتی تھیں۔ انھیں خلافت کے سب سے قیمتی سرمائے ’کتابوں‘ کی دیکھ بھال کا ذمہ سونپا گیا تھا۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کتابیں صرف امیروں کے لیے تھیں۔

Getty Images751 عیسوی میں چین سے باہر پہلا کاغذ بنانے والا کارخانہ ثمرقند میں قائم ہوا۔ اس ہنر کو مسلم دنیا میں مزید پھیلنے میں تقریباً سو سال اور لگے۔

درحقیقت قرطبہ میں کتابوں کی ثقافت کا فروغ ممکن ہی نہ ہوتا اگر مغرب (شمالی افریقہ) میں کاغذ بنانے کے کارخانے نہ بنتے۔

چینیوں نے دوسری صدی قبل مسیح میں کاغذ بنانے کا فن سیکھ لیا تھا، مگر اس علم کو دنیا بھر میں پھیلنے میں تقریباً ایک ہزار سال لگے۔

751 عیسوی میں چین سے باہر پہلا کاغذ بنانے والا کارخانہ ثمرقند میں قائم ہوا۔ اس ہنر کو مسلم دنیا میں مزید پھیلنے میں تقریباً سو سال اور لگے۔

نویں صدی کے آغاز میں عراق نے ثمرقند کی پیروی کی، پھر شام اور مصر میں کاغذ کے کارخانے قائم ہوئے۔

دسوی صدی تک شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا کاغذ اندلس اور سپین تک پہنچ چکا تھا۔

1035 تک مغرب (مراکش اور دیگر علاقوں) میں کاغذ اتنا عام ہو چکا تھا کہ قاہرہ کی مارکیٹوں میں کھجوروں کی پیکنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔

مہنگے اور نایاب چرمی کاغذ (ویلَم) کے دن ختم ہو چکے تھے۔ کاغذ کی عام دستیابی کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ کتابیں اب صرف امیروں تک محدود نہیں رہیں،

بلکہ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ کتابوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور الفاظ کو اس بات کا ثبوت نہیں دینا پڑتا تھا کہ وہ لکھے جانے کے لائق ہیں یا نہیں۔

کتابوں سے بھرے اس دور میں لبنیٰ اور فاطمہ پروان چڑھیں۔

کیا کاغذ کی یہ وسیع تر دستیابی کسی اور دور میں اتنی آسانی سے ممکن ہو سکتی تھی جتنی کہ خلیفہ الحکم ثانی کے دور میں؟ ان کی ذاتی لائبریری جسے ’کتب خانہ علم‘ کہا جاتا تھا اس میں چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں اور ان کی فہرست 44 سے زیادہ جلدوں پر پھیلی ہوئی تھی۔

الحکم ثانی صرف موجودہ علمی خزانے کو جمع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ خود بھی علمی دنیا میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔

ان کے دور میں یونانی اور لاطینی زبانوں کے کئی کلاسیکی علمی ذخائر عربی میں ترجمہ کیے گئے اور اندلس سمیت اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں سے سکالروں کو دربار میں مدعو کیا تاکہ علم کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

الحکم الثانی کو ایک عالم خلیفہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے علم اور ثقافت کو فروغ دیا اور ہسپانیہ میں ایک علمی ورثہ چھوڑا۔

قرطبہ کے خلافتی دور کی خواتین کاتب جن میں بعض غلام بھی شامل تھیںGetty Imagesایک روایت کے مطابق لبنیٰ جب باہر نکلتیں اور قرطبہ کی گلیوں میں گھومتیں تو ان کے پیچھے چلتے بچے ریاضی کے پہاڑے دہرا رہے ہوتے تھے۔ وہ ان بچوں کو ریاضی پڑھایا کرتی تھی۔

ایک روایت کے مطابق لبنیٰ جب باہر نکلتیں اور قرطبہ کی گلیوں میں گھومتیں تو ان کے پیچھے چلتے بچے ریاضی کے پہاڑے دہرا رہے ہوتے تھے۔ وہ ان بچوں کو ریاضی پڑھایا کرتی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان کے پاس اس کام کے لیے وقت ہوتا تھا؟

الحکم ثانی نے سائنسی علوم کی بے شمار کتابیں منگوائیں اور ان میں ریاضی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔

لبنیٰ جو شاہی دربار کی ماہر ریاضی دان اور کاتب تھیں، یقیناً اقلیدس، ارشمیدس، ابو کامل اور دیگر نامور علمی شخصیات کے کاموں پر توجہ دیتی ہوں گی۔

یہاں رک کر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’کاتب‘ ہونے کا اصل مطلب کیا تھا؟

یہ لقب اکثر قرطبہ کے خلافتی دور میں خواتین کے ساتھ جُڑا ملتا ہے جن میں بعض غلام بھی تھیں۔

ان میں سے کئی خواتین شاید محض خطاطی کا کام کرتی تھیں، لیکن ان کا کام صرف خوبصورت الفاظ لکھنا تھا۔۔۔ اس کے لیے ذہین ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

یہ خاص طور پر ان 170 خواتین پر صادق آتا ہے جو مشرقی قرطبہ کے ایک ہی محلے میں مسجد کے لیے کوفی رسم الخط میں قرآن نقل کرنے پر مامور تھیں۔

لیکن الحکم ثانی کے دربار میں اعلیٰ سطح پر کتابوں پر کام کرنے والی خواتین (جیسا کہ لبنیٰ) کے لیے یہ کام کہیں زیادہ مشکل تھا۔

قرطبہ کے کاتب وہ لوگ تھے جو علمی شاہکاروں سے سب سے زیادہ قریب ہوتے تھے کیونکہ وہ انھیں اپنے ہاتھوں سے نقل کرتے تھے۔

اس میں حیرت کی بات نہیں کہ ان میں سے کئی نہ صرف کتابوں کے حاشیے پر نوٹ لکھتے بلکہ ان پر تبصرے بھی کرتے تھے۔

لیکن جیسا کہ ابن الحسین الفری کی مثال سے واضح ہوتا ہے ان کا کام صرف حاشیہ نویسی تک محدود نہیں تھا۔ خیال رہے ابن الحسین الفری ’کتاب العین‘ کے کاتب تھے اور یہ عربی زبان کی پہلی لغت تھی۔

جب الحکم ثانی نے پوچھا کہ ’کتاب العین‘ کی نقل کے دوران اس میں کیا نیا شامل کیا گیا ہے تو ابن الحسین الفری نے جواب دیا کہ انھوں نے اور ان کے معاون نے اس لغت میں 5863 نئے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ یہ صرف ایک کاتب کا جواب ہی نہیں، بلکہ خود خلیفہ کا سوال ہمیں بتاتا ہے کہ لبنیٰ جیسے اعلیٰ درجے کے کاتبوں کا اصل کردار کیا تھا۔

Getty Imagesکئی خواتین شاید محض خطاطی کا کام کرتی تھیں، لیکن ان کا کام صرف خوبصورت الفاظ لکھنا تھا۔۔۔ اس کے لیے ذہین ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ خاص طور پر ان 170 خواتین پر صادق آتا ہے جو مشرقی قرطبہ کے ایک ہی محلے میں مسجد کے لیے کوفی رسم الخط میں قرآن نقل کرنے پر مامور تھیں۔

اب لبنیٰ کی تصویر صاف نظر آنے لگی ہے۔

وہ محل کی شاہی بستی مدینہ الزہرا کی گلیوں میں چلتی نظر آتی ہیں۔ یہ بستی قرطبہ کے مضافات میں واقع ہے۔

بچے لبنیٰ کے پیچھے چل رہے ہیں اور ریاضی کے پہاڑے دہرا رہے ہیں جو لبنیٰ نے ہی انھیں سکھائے ہیں۔ چلتے چلتے وہ محل کے اس حصے تک پہنچ جاتی ہیں جہاں صرف اہلِ علم اور اہلِ مرتبہ کو داخلے کی اجازت ہے۔

لبنیٰ کو ہاتھی دانت اور آبنوس سے مزین محل کے دروازے متاثر نہیں کرتے بلکہ وہ اسلامی باغات کے خوبصورت جیومیٹری والے ڈیزائنز میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

لیکن ان کی منزل باغ نہیں کتب خانہ ہے اور وہ بے جھجک، اعتماد کے ساتھ وہاں قدم رکھتی ہیں۔

آج فاطمہ واپس آنے والی ہے۔۔ جی ہاں وہی فاطمہ جو دنیا کے بڑے بڑے علمی مراکز۔۔ قاہرہ، دمشق، بغداد سے نادر کتابیں خرید کر لاتی ہے۔

آج ’دار العلم‘ یعنی شاہی کتب خانہ اس خواب کی تعبیر کے قریب تر ہو جائے گا جس کے مطابق یہاں انسانی فکر کا ہر اہم خزانہ محفوظ ہو۔

لیکن کچھ خیالات ابھی کتابوں میں لکھے نہیں گئے اور وہ لبنیٰ کے ذہن میں موجود ہیں جو کسی نئے تصور، کسی نئی فکر کے سامنے آتے ہی ابھرنے لگتے ہیں۔

یہ خیالات بعض اوقات کسی کتاب کے حاشیے میں نوٹ کی صورت درج ملتے ہیں۔۔۔ کیونکہ کبھی کبھار یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ارسطو یا اقلیدس کی کسی بات میں رد و بدل کیا جائے تاکہ غلط نظریات دنیا میں نہ پھیلیں۔

سوچیے اس دور میں ایک ذہین عورت بن کر ایسی جگہ میں رہنا کیسی خوش نصیبی ہو گی۔

سنہرا اسلامی دور: امام بخاری اور ان کی علمیت پسندیوہ افغان شہزادی جنھیں ان کی شاعری کی وجہ سے صوفی کا درجہ ملاسنہرا اسلامی دور: امام بخاری اور ان کی علمیت پسندیجب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا اور مسلمان دانشوروں نے وہاں کاغذ متعارف کروایاشیشہ گری کا فن، جسے اسلامی دور میں عروج ملا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More