ایم ڈی ایم اے: وہ پارٹی ڈرگ جس نے نووا فیسٹیول پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی متاثرین کو’صدمے سے بچایا‘

بی بی سی اردو  |  Mar 09, 2025

Getty Images

جب سات اکتوبر 2023 کی صبح ہوئی تو غزہ کی سرحد کے قریب نووا میوزک فیسٹیول میں جانے والے کئی لوگ غیر قانونی پارٹی ڈرگز جیسے ایم ڈی ایم اے یا ایل ایس ڈی کے نشے میں مبتلا تھے۔ اسی صبح حماس کے مسلح افراد نے اس مقام پر حملہ کر دیا تھا۔

اس حملے میں زندہ بچنے والے متاثرین کے ساتھ نیورو سائنسدانوں نے کام کیا۔ انھیں ایسے ابتدائی اشارے ملے ہیں کہ نشہ آور گولیاں ایم ڈی ایم اے (جنھیں ایکسٹیسی یا مولی بھی کہا جاتا ہے) نے متاثرین کو صدمے سے بچانے میں مدد کی اور انھیں نفسیاتی تحفظ حاصل ہوا۔

یہ ابتدائی نتائج ہیں جن کا آئندہ مہینوں کے دوران جائزہ لیا جائے گا اور پھر ان کی اشاعت کی جائے گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حماس کے حملے کے دوران اور بعد کے مہینوں میں اِن منشیات نے مثبت ذہنی اثر چھوڑا۔

یہ تحقیق اسرائیل کی حیفا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی۔ اس تحقیق نے ایم ڈی ایم اے کو نفسیاتی صدمات کے لیے استعمال کرنے میں سائنسدانوں کی دلچسپی بڑھائی۔

خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب اس ضمن میں سائنسدانوں نے بڑے پیمانے پر صدمہ پہنچانے والے کسی ایسے واقعے پر تحقیق کی ہے جہاں کئی لوگ نشے میں دھت تھے۔

حماس کے مسلح افراد نے اس حملے میں 360 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو اغوا کیا تھا۔ اس مقام پر جاری میوزک فیسٹیول میں قریب 3500 لوگ شریک تھے۔

نووا حملے پر تحقیق سے ماہرین نفسیات کو کیا پتا چلا؟

اس مطالعے کے سربراہ پروفیسر رائے سالامون نے کہا کہ ’ایل ایس ڈی یا ایم ڈی ایم اے کا استعمال کرنے کے بعد کئی لوگ گھنٹوں تک اپنے دوستوں کی لاشوں تلے چھپے رہے تھے۔‘

’یہ بات ہوتی ہے کہ ایسی منشیات دماغ میں لچک پیدا کرتی ہیں اور دماغ تبدیلی کو بہتر انداز میں برداشت کر پاتا ہے۔ تو اگر آپ ایک بھیانک صورتحال میں یہ دماغی لچک پا لیں تو کیا ہوگا؟ اس کے مثبت اثرات ہوں گے یا منفی؟‘

اس تحقیق میں فیسٹیول میں شریک 650 سے زیادہ متاثرین کے نفسیاتی ردعمل کی جانچ کی گئی۔ اس کے مطابق حملے سے قبل دو تہائی لوگوں نے ایم ڈی ایم اے، ایل ایس ڈی، بھنگ یا سائلو سائبن کا استعمال کیا تھا۔ سائلو سائبن سے مراد وہ مرکب ہے جو نشہ آور مشروب میں پایا جاتا ہے۔

پروفیسر سالامون کے مطابق مطالعے میں معلوم ہوا کہ ’سب سے زیادہ تحفظ ایم ڈی ایم اے، خاص کر وہ ایم ڈی ایم اے جس میں ملاوٹ نہیں تھی، نے فراہم کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ایم ڈی ایم اے کا نشہ کیا تھا انھوں نے حملے کے بعد پہلے پانچ ماہ تک ذہنی طور پر صدمے کو بہتر انداز میں جھیلا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب صدمے کے اثرات زیادہ محسوس کیے گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ بہتر سو پا رہے تھے، انھیں کم ذہنی تناؤ کا سامنا تھا۔ وہ ایسے لوگوں سے بہتر حالت میں تھے جنھوں نے کوئی نشہ نہیں کیا تھا۔‘

ٹیم کا خیال ہے کہ اِن پارٹی ڈرگز نے متاثرین میں اوکسیٹوسن جیسے ہارمونز کو متحرک کیا۔ اس سے حملے سے بچنے والوں میں بھائی چارے کو فروغ ملا اور ان میں ڈر کم ہونے میں مدد ملی۔

ان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ بظاہر متاثرین جب گھر واپس آئے تو انھوں نے کھلے دل سے خاندان اور دوستوں کی محبت اور حمایت کو قبول کیا۔

واضح ہے کہ یہ تحقیق حملے میں بچنے والوں تک محدود ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخد کرنا مشکل ہے کہ آیا بعض منشیات متاثرین کی مدد کا باعث بنے یا خود کو بچانے میں رکاوٹ بنے۔

لیکن محققین کو ایسے کئی متاثرین ملے، جیسے میکل اوہانا، جنھیں یقین ہے کہ ان منشیات نے حملے کے صدمے کو برداشت کرنے میں مدد کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے اس نے میری جان بچائی کیونکہ میں نشے میں دھت تھی، جیسے میں اصل دنیا میں نہیں تھی کیونکہ عام انسان ایسی چیزیں نہیں دیکھ سکتے، یہ نارمل نہیں۔‘

انھیں لگتا ہے کہ پارٹی ڈرگ کے بغیر وہ شاید ایک ہی جگہ جم جاتیں یا زمین پر گِر جاتیں اور ماری جاتیں یا انھیں مسلح افراد اغوا کر لیتے۔

BBCجب سات اکتوبر 2023 کی صبح ہوئی تو غزہ کی سرحد کے قریب نووا میوزک فیسٹیول میں جانے والے کئی لوگ غیر قانونی پارٹی ڈرگز جیسے ایم ڈی ایم اے یا ایل ایس ڈی کے نشے میں مبتلا تھےیہ ابتدائی نتائج کتنے اہم ہیں؟

مختلف ممالک میں ماہرین نے آزمائشی طور پر صدمے یعنی پوسٹ ٹرامیٹک ٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے علاج کے لیے ایم ڈی ایم اے کے تجربات کیے ہیں۔ صرف آسٹریلیا نے اس کی علاج کی غرض میں منظوری دی۔

امریکہ ان ملکوں میں شامل ہے جس نے اسے مسترد کیا۔ امریکی ادارے ایف ڈی اے نے ان مطالعوں کے ڈیزائن پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ایسے علاج کے طویل مدتی فوائد نہیں اور اس میں دل کے امراض، انجری یا استحصال جیسے ممکنہ خطرات جڑے ہیں۔

ایم ڈی ایم اے برطانیہ میں کلاس اے ڈرگ مانا جاتا ہے اور اسے جگر، گردے اور امراض قلب سے جوڑا جاتا ہے۔

اسرائیل میں بھی ایم ڈی ایم اے غیر قانونی ہے۔ ماہرِ نفسیات اسے صرف آزمائشی طور پر اپنی تحقیق کے لیے مریضوں پر استعمال کر سکتے ہیں۔

اس تحقیق کے ابتدائی نتائج پر اسرائیل کے دیگر نفسیاتی ماہرین نے بھی نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اینا ہارووڈ گراس کہتی ہیں کہ ان جیسے تھراپسٹ کے لیے یہ ابتدائی نتائج ’بہت اہم‘ ہیں۔

وہ اس وقت اسرائیلی فوج میں صدمے سے بچنے کے لیے ایم ڈی ایم اے کے استعمال کا تجربہ کر رہی ہیں۔ انھیں اخلاقی تشویش تھی کہ آیا جنگ کے دوران اپنے کلائنٹس کو ایسی کمزور نفسیاتی حالت میں مبتلا کرنا درست ہوگا۔

وہ کہتی ہیں کہ جنگ کے شروع میں ’ہم نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم یہ کر پائیں گے۔ کیا ہم لوگوں کو ایم ڈی ایم اے دے سکتے ہیں جب فضائی حملے کے سائرن بجنے کا خطرہ ہے۔ یہ ممکنہ طور پر انھیں دوبارہ صدمے میں مبتلا کر سکتا ہے۔‘

’اس تحقیق نے ہمیں بتایا کہ اگر تھراپی کے دوران بھی صدمے کا باعث بننے والا واقعہ رونما ہو تو اس سے نمٹنے میں ایم ڈی ایم اے مدد فراہم کر سکتی ہے۔‘

سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں ’مکمل ناکامی‘ سے متعلق اسرائیلی فوج کی پہلی رپورٹ میں کیا اعترافات کیے گئے ہیں؟’ناحل عوز‘: محفوظ سمجھا جانے والا اسرائیلی فوجی اڈہ حماس کے ہاتھوں چھ گھنٹے تک کیسے یرغمال بنا رہا؟وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہحماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیا

ڈاکٹر ہاروڈ گراس کا کہنا ہے کہ ایم ڈی ایم اے سے علاج کے ابتدائی اشارے حوصلہ افزا ہیں، یہاں تک کہ پی ٹی ایس ڈی والے سابق فوجیوں میں بھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے تھراپی سے متعلق ’قواعد‘ کے بارے میں پرانے مفروضوں بھی ختم ہوتے ہیں۔ جیسے خاص طور پر تھراپی سیشن کا دورانیہ، جنھیں ایم ڈی ایم اے کے زیر اثر افراد کے ساتھ کام کرتے وقت ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر ہاروڈ گراس نے مجھے بتایا کہ ’مثال کے طور پر ایک مریض اور ایک تھراپسٹ کے ساتھ 50 منٹ کے سیشنز سے متعلق ہماری سوچ تبدیل ہوئی۔ تھراپی کرنے کا نیا طریقہ یہ ہے کہ دو تھراپسٹ ہوں اور آٹھ گھنٹے تک طویل تھراپی سیشن ہوں۔ وہ (تھراپسٹ) اب لوگوں کو وقت دے رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ لمبا فارمیٹ اب زیادہ مثبت نتائج دے رہا ہے، حتیٰ کہ ایسے مریضوں میں بھی کامیابی کی شرح 40 فیصد ہے جو ایم ڈی ایم اے نہیں لے رہے۔‘

EPAحماس کے مسلح افراد نے اس حملے میں 360 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو اغوا کیا تھا۔ اس مقام پر جاری میوزک فیسٹیول میں قریب 3500 لوگ شریک تھے

یروشلم میں ہرزوگ ہسپتال کے سائیکو ٹراما سینٹر کے بانی ڈائریکٹرڈینی بروم کہتے ہیں کہ ’سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیلی سوسائٹی کا صدمے اور ٹراما کی جانب نقطہ نظر تبدیل ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہے کہ جیسے ہم کسی پہلے صدمے سے گزر رہے ہیں جبکہ میں نے یہاں جنگیں دیکھی ہیں۔ میں نے بہت سے دہشتگردانہ حملے دیکھے ہیں اور لوگوں نے کہا کہ ہمیں یہاں ٹراما نظر نہیں آتا۔‘

’اور پھر اچانک سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ اب ہر کوئی ٹراما کا شکار ہے اور سب کو ہی علاج کی ضرورت ہے۔ یہ غلط نقطہ نظر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو چیز ٹوٹی، وہ تحفظ کا احساس ہے، جس کے بارے میں بہت سے یہودیوں کو یقین تھا کہ اسرائیل انھیں یہ تحفظ فراہم کرے گا۔‘

ڈینی بروم کے مطابق ان حملوں نے ایک اجتماعی صدمے کا پردہ فاش کیا، جو ہولوکاسٹ اور نسلوں سے ہونے والے ظلم سے منسلک ہے۔

بہت سے متاثرین کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد وہ اب تک نارمل زندگی میں واپس جانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

ماہر نفسیات ویرد ایٹزمون کہتی ہیں کہ ’ہماری تاریخ قتل عام سے بھری پڑی ہے۔ اسرائیل میں ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اب ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ ہم ان صدموں پر کام کریں، جن کا پہلے علاج نہیں ہوا۔‘

اجتماعی ٹراما، دماغ کو ماؤف کرنے والی منشیات، جنسی حملے، یرغمالی، بچ جانے والے، لاشوں کو جمع کرنے والے، زخمی اور سوگواران۔۔۔ اسرائیل میں ٹراما کے حوالے سے کام کرنے ماہرین کو اب ایسے کئی لوگوں کو دیکھنا پڑ رہا ہے جو ان سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

ذہنی صحت سے متعلق یہ چیلنج غزہ میں بھی نظر آتا ہے، جہاں کئی ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے، زخمی ہوئے یا پھر بے گھر ہو گئے اور جہاں گہرے صدمے سے دوچار آبادی کی مدد کے لیے بہت کم وسائل ہی موجود ہیں۔

غزہ میں جنگ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد شروع ہوئی اور جنوری میں چھ ہفتے کے لیے عارضی جنگ بندی کی گئی جس میں حماس کی جانب سے یرغمالی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو ان فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا، جو اسرائیل کی جیلوں میں تھے۔

یہ جنگ بندی گذشتہ ہفتے ختم ہو گئی لیکن 59 اسرائیلی یرغمالی ابھی بھی حماس کے پاس ہیں۔ غزہ کے بہت سے شہری اپنا سامان باندھے دوبارہ جنگ شروع ہونے کے منتظر ہیں۔

اس حملے میں بچ جانے والی میکل اوہانا کہتی ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ وہ محسوس کرتی ہیں لوگ ان سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس حملے کو پیچھے چھوڑ آئی ہیں تاہم وہ ابھی بھی اس سے خود کو متاثر سمجھتی ہیں۔

’میں اسی طرح صبح اٹھتی ہوں اور اسی طرح سو جاتی ہوں اور لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے۔‘

’ہم اسی طرح ہر دن گزارتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمارے ملک نے شروع کے کچھ ماہ ہماری مدد کی لیکن اب ایک برس بعد وہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے۔ اب آپ کو کام اور زندگی میں واپس جانا ہو گا لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔‘

اورن روزنفیلڈ اور ناؤمی شربیل بال کی اضافی رپورٹنگ

وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہحماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیاسات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں ’مکمل ناکامی‘ سے متعلق اسرائیلی فوج کی پہلی رپورٹ میں کیا اعترافات کیے گئے ہیں؟’ناحل عوز‘: محفوظ سمجھا جانے والا اسرائیلی فوجی اڈہ حماس کے ہاتھوں چھ گھنٹے تک کیسے یرغمال بنا رہا؟حماس کی 15 ماہ طویل قید سے رہائی پانے والی اسرائیلی یرغمالی خواتین نے اپنے اہلخانہ کو کیا بتایاحماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More