Jack Garland, BBC Newsپولینڈ کی جانب سے 2022 میں لگائی گئی ساڑھے پانچ میٹر اونچی باڑ کو عبور کرنے کے لیے تارکینِ وطن سیڑھیوں اور وائر کٹر کا استعمال کرتے ہیں۔
دیوت (فرضی نام) کا تعلق ایتھیوپیا سے ہے۔
میری ان سے ملاقات پولینڈ کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک میں واقع ایک پرسکون پارک میں ہوئی۔ وہ شرمیلے ہیں اور نرم لہجے میں بات کرتے ہیں۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ جبری فوجی بھرتی سے بچنے کے لیے اپنے گھر سے بھاگے اور انسانی سمگلرز کو تقریباً سات ہزار ڈالرز ادا کیے جنھوں نے ان کی روس اور بیلاروس کے راستے پولینڈ تک سفر میں مدد کی۔
وہ ان دسیوں ہزار لوگوں میں سے ایک ہے جو 2021 کے بعد سے غیرقانونی طور پر بیلاروس پولینڈ سرحد عبور کر چکے ہیں۔
Jack Garland, BBC Newsدیوت پولینڈ میں رہنا چاہتے ہیں جب کہ دوگر تارکین وطن جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوئی ہے وہ برطانیہ پہنچنا چاہتے ہیں۔
اس سرحد کے آرپار پھیلا ہوا جنگل اس قدیم جنگل کی آخری باقیات میں سے ایک ہے جو کبھی یورپ بھر میں پھیلا ہوا تھا۔
بیالوویزا نامی جنگل یونیسکو کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور ایک ماحولیاتی طور پر محفوظ علاقہ ہے لیکن اسے اب لوگ یورپی یونین کے ممالک تک رسائی کے لیے غیر قانونی راستے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اس جنگل میں تقریباً 120 میل طویل باڑ نصب ہے - جسے پولش حکومت نے 2022 میں اپنی اور وسیع تر یورپ کی سرحد کو مضبوط کرنے کی کوشش میں بنایا تھا۔
Jack Garland, BBC Newsسنہ 2024 میں بیلاروس سے پولینڈ میں داخل ہونے کی تقریباً 30 ہزار مرتبہ کوششیں کی گئیں۔
پولش سرحدی محافظ دن رات پیدل اور ہموی اور بکتر بند گاڑیوں میں سرحد پر گشت کرتے ہیں اور ڈرونز کی مدد سے فضائی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
سرکاری وردی میں ملبوس بارڈر فورس کے افسر، میشل بورا مجھے پانچ میٹر سے زیادہ بلند باڑ کے ساتھ ساتھ لے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہمیں سمگلرز سے ایک قدم آگے ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے دشمنوں سے ایک قدم آگے رہنا چاہیے۔‘
بورا اپنے بیلاروسی ہم منصبوں کو بھی ان دشمنوں میں شامل کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’(بیلاروس) کی طرف موجود گارڈز غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
’وہ انھیں وہ مقامات دکھاتے ہیں جہاں سے وہ اس سرحد کو غیرقانونی طور پر عبور کر سکتے ہیں۔ وہ انھیں سیڑھی اور تار کاٹنے کے اوزار جیسا ضروری سامان دیتے ہیں۔‘
لیکن پولش حکام پر تارکین وطن کے ساتھ غیر قانونی سلوک کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
دسمبر 2024 میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق پولش حکام ’غیر قانونی طور پر اور بعض اوقات پرتشدد طریقے سے، لوگوں کی حفاظت کی ضروریات کو مدِ نظر رکھے بغیر انھیں واپس بیلاروس بھیجنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
Jack Garland, BBC Newsپولش سرحدی پولیس نے بارڈر پر نفری بڑھادی ہے۔ وہ ڈرونز کے علاوہ پیدل اور بکتر بند گاریوں پر گشت کرتے ہیں۔
بیلاروس میں 2020 کے بدنامِ زمانہ انتخابات کے بعد یورپ کی جانب سے سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ اس پر بیلاروس کے رہنما، الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا کہ اگر تارکین وطن - جو اکثر مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے آ رہے ہوتے ہیں، غیر قانونی طور پر پولینڈ کی سرحد کی طرف جاتے ہیں تو وہ مداخلت نہیں کریں گے۔
لوکاشینکو نے 2021 میں بی بی سی کو بتایا، ’میں نے انھیں (یورپی یونین) کہا کہ میں تارکین وطن کو سرحد پر گرفتار نہیں کروں گا، انھیں سرحد پر نہیں روکوں گا، اور اگر وہ آتے رہتے ہیں تو میں بھی انھیں نہیں روکوں گا، کیونکہ وہ میرے ملک نہیں آ رہے، وہ آپ کے پاس جا رہے ہیں۔‘
لیکن یہ صرف ایک ’لیسیز فیئر‘ (یعنی لوگوں کو اپنی مرضی چلانے دینے والا) طرزِ عمل نہیں۔ بیلاروس پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے تارکین وطن کو یورپ میں داخلے کے لیے اس راستے کو استعمال کرنے کے لیے فعال طور پر ترغیب دی۔
2021 میں، لوکاشینکو کی حکومت کے زیرانتظام چلنے والی ایک ٹریول ایجنسی پر یورپی یونین نے سرحد پر تارکین وطن کے بہاؤ میں سہولت فراہم کرنے کے الزام پر پابندی لگائی تھی۔
بی بی سی نے ایسے شواہد دیکھے ہیں کہ اس ٹریول ایجنسی نے 2021 میں بیلاروسی وزارت خارجہ کو متعدد عراقیوں کے لیے شکار کی غرض سے سیاحتی ویزوں کے لیے درخواست دی تھی جن میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے۔
یہ ویزا لوگوں کو بیلاروس میں بیالوویزا جنگل کے ماحولیاتی طور پر محفوظ علاقوں میں رہنے کا قانونی حق دیتا ہے، جو پولینڈ کے بہت قریب واقع ہیں۔
Jack Garland, BBC NewsThe ongoing migrant crisis is causing the biodiversity of the Bialowieza Forest to change.
بیلاروسی بارڈر حکام نے تارکین وطن کو سرحد پار کرنے میں فعال طور پر مدد کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے اور بی بی سی کو سرحد کی حفاظت سے متعلق امور پر ماضی میں دیے گئے بیانات کا حوالہ دیا ہے۔
’جب سے تارکینِ وطن کی آمد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ریاستی سرحدی کمیٹی نے بارہا یورپی یونین کے ممالک کی توجہ تعمیری بات چیت کی ضرورت کی طرف مبذول کرائی ہے اور سرحد پار تعاون کے معطل منصوبوں بشمول غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے سے متعلق ترتیب دیے گئے منصوبوں کو ’فعال کرنے‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔‘
’بدقسمتی سے، تعمیری بات چیت میں شامل ہونے کے بجائے، یورپی یونین کے ممالک نے سرحدی عسکریت پسندی، تصادم اور سرحدی تعاون کے مسائل کو نظر انداز کرنے کا راستہ چنا ہے۔ آج، وہ نقل مکانی کے ابھرتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بنیاد پرست طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘
سمندری مچھلیوں کی خوراک بننے والے پاکستانیوں کے نامکشتی حادثے میں 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق: انسانی سمگلر اپنے ’شکار‘ کو پہلے لیبیا کیوں بھیجتے ہیں؟غیرقانونی انڈین تارکین وطن کی امریکہ بدری: چھ ماہ کا خطرناک سفر، لاکھوں کا خرچہ اور امریکی فوجی طیارے میں ہتھکڑیوں میں واپسی’مرد پہلے مدد کی پیشکش کرتے، پھر مجھ سے اور میری نوعمر بیٹیوں سے جنسی تعلق کا مطالبہ کرتے‘پولینڈ اور بیلاروس کے سرحدی تعلقات
تارکین وطن کی آمد میں اضافے کے نتیجے میں دونوں طرف سرحد کی نگرانی کرنے والوں کے درمیان تعلقات ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئے ہیں۔
بورا کہتے ہیں، ’کچھ سال قبل تک… ہم ان سے بات کرتے، ایک ساتھ سگریٹ پیا کرتے تھے۔ اب ہم صرف ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘
پولینڈ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کے باوجود، 2024 میں سرحد پار کرنے کی تقریباً 30,000 کوششیں ہوئیں۔ 2021 میں بحران کے آغاز کے بعد سے یہ ریکارڈ کی گئی دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اور ان میں سے کامیاب ہونے والے بہت سے افراد جب پولینڈ پہنچتے ہیں تو ان کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔
Jack Garland, BBC Newsاولگا ایک ایسی چیریٹی کے لیے بطور رضار کار کام کرتی ہیں جو پولینڈ میں پہنچنے والے تارکین وطن کی مدد کرتی ہے۔’بھاگنے کی کوشش کریں تو وہ آپ کے پیچھے کتے چھوڑ دیتے ہیں‘
جنگل کافی گھنا اور خطرناک ہے۔ ساڑھے پانچ میٹر اونچی خاردار باڑ کا مطلب ہے کہ لگنے والی چوٹیں گہری ہوں گی۔
وی آر مانیٹرنگ گروپ کے مطابق سرحد پار کرتے ہوئے 89 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تارکین وطن کا کہنا ہے کہ بیلاروسی گارڈز باڑ عبور کرنے کے درکار ضروری سامان تو فراہم کرتے ہیں لیکن ان کی جانب سے کتے چھوڑنا معمول کی بات ہے کیونکہ سرحدی محافظوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان افراد کو جلد از جلد اپنے علاقے سے باہر دھکیل دیں۔
موسم سرما میں حالات خاص طور پر مشکل ہوتے ہیں۔ ہائپوتھرمیا اور فراسٹ بائٹ ہونا عام بات ہے۔
دیوت بتاتے ہیں، ’اگر آپ بھاگیں گے تو وہ آپ کے پیچھے کتا چھوڑ دیں گے۔‘
’میں نے لوگوں کی گردن اور ٹانگوں پر [کتوں کے] کاٹنے کے نشانات سیکھے ہیں۔‘
اولگا ایک خیراتی ادارے کے لیے کام کرتی ہے جو نئے آنے والوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے جنگل میں جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے ان میں سے اکثر خوفزدہ ہوتے ہیں اور انھیں طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
’انھیں باڑ کے تیز دھاڑ کی وجہ سے کافی چوٹیں آتی ہیں۔ بعض اوقات باڑ سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے ان کے بازو، ٹانگیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔‘
ہماری اولگا سے ملاقات اس خیراتی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔
ایک قریبی گاؤں کے مضافات میں واقع تین کمروں پر مشتمل یہ چھوٹی سی عمارت مقامی آبادی کے ایک رکن نے عطیہ کی ہے۔
وہ اپنے مقام کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں ان لوگوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے جو تارکینِ وطن کی آمد پر کافی نالاں ہیں۔
پوری عمارت سامان سے بھری پڑی ہے۔ گرم کپڑے، خوراک، پٹیاں اور فرسٹ ایڈ کٹس کےڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کونے میں دو سنگل بیڈ ہیں جہاں رضاکار اگر وقت ہو تو آرام کر لیتے ہیں۔
مدد کے لیے کالیں دن یا رات کے کسی بھی وقت آسکتی ہیں اور آنے والے لوگوں میں ہر طرح کے افراد شامل ہوتے ہیں۔
’زیادہ تر اب (سردیوں میں) آنے والے نوجوان ہوتے ہیں۔ لیکن ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں تقریباً نصف تعداد لرکیوں کی تھی، نوجوان لڑکیاں۔ ان میں سے بہت سی نوعمر تھیں۔‘
جہاں تک ممکن ہوتا ہے، یہ ادارہ تارکینِ وطن کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرتا ہے اور جو افراد ان کی بات سننے کے لیے راضی ہوتے ہیں، انھیں پناہ حاصل کرنے کے متعلق مشورہ بھی کا مشورہ فراہم کرتا ہے۔
Jack Garland, BBC Newsمیٹیوز سیمورا 20 سال سے زائد عرصے سے بطور فارسٹ رینجر کام کر رہے ہیں
دریں اثنا، جنگل میں لگنے والی آگ اور وہاں سے گزرنے والے تارکینِ وطن کی جانب سے پیچھے چھوڑے گئے کوڑے کی وجہ سے بیالوویزا کے جانوروں کا رویہ بدل رہا ہے۔
انسانی خوشبو سے بچنے کی کوشش میں، یورپی بائسن کے ریوڑ اب جنگل کے ان حصوں میں جا رہے ہیں جنھیں وہ پہلے نظر انداز کرتے تھے۔
بڑھتی ہوئی تعداد اپنے ساتھ اجنبی پرجاتیوں کوبھی لاتی ہے جنھیں ہٹانے کے لیے جنگلات کے ماہرین کو کام کرنا پڑتا ہے۔
میٹیوز سیمورا 20 سال سے زائد عرصے سے بطور فارسٹ رینجر کام کر رہے ہیں اور ان کیپوری زندگی بیالوویزا میں گزری ہے۔ جب ہم گھنے جنگل میں برف سے ڈھکے پل پر سے گزر رہے تھے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ کام کے دوران انھیں اکثر تارکین وطن دکھائی دیتے ہیں اور بیلاروس کی جانب سے کارروائی نہ کیے جانے پر وہ پریشان ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’اگر (بیلاروس) لوگوں کو ان حیاتیاتی محفوظ علاقوں میں جانے کی اجازت دیتا رہا تو اس سے بیالوویزا جنگل کے مسائل بڑھیں گے۔‘
Jack Garland, BBC Newsموسم سرما میں حالات خاص طور پر کافی مشکل ہو سکتے ہیں اور بہت سے تارکین وطن ہائپوتھرمیا میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔
تاہم، بہت سے لوگوں کے لیے یہ یورپ کے دوسرے ممالک کے سفر دوران آنے والا ایک وقتی پڑاؤ ہے۔
اور جب تک غیر قانونی ہجرت کے اس کاروبار کو بیلاروس کے سیاسی کھیل سے فائدہ ہوتا رہے گا، یہ بحران یورپ کی سرحدوں پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔
دیوت نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی سفر کے دوران کئی دوسرے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کی منزل برطانیہ ہے۔ تاہم انھوں نے پولینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے اور ان کا کیس چل رہا ہے۔
’میں بس محفوظ رہنا چاہتا ہوں۔ اسی لیے یہاں رہ رہا ہوں۔‘
بھوک، پیاس اور سمندر میں پھینکے جانے کا خوف: پاکستانی تارکین وطن کے لاوارث کشتی پر گزرے 13 دنایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیںانڈین خاندان کا امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر آخری سفر: ’یہاں سب کی آنکھوں میں باہر جانے کے خواب ہیں‘’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفرشامی بچے کا یورپ پہنچنے کے لیے 11 برس تک سفر: ’میری بس ہو گئی، میں بہت تھک چکا ہوں‘یونانی کوسٹ گارڈز پر تارکینِ وطن کو بحیرہِ روم میں پھینکنے کا الزام: ’انھوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارتے سُنا مگر مدد نہیں کی‘