ملک کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی جماعت کے اندر یہ سوال ہمیشہ ہی رہا ہے کہ شریف خاندان کے مستقبل کے تناظر میں اس کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ن لیگ کے سربراہ نواز شریف خود وزیر اعظم نہیں بن پائے لیکن اب ان کی تمام تر توجہ اپنی بیٹی مریم نواز کی پنجاب میں حکومت اور سیاست کو مضبوط کرنے پر ہے۔ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ ن یہ حکومت لے کر ایک سیاسی جوا کھیل چکی ہے اور مبصرین کے مطابق اب اس جماعت کے پاس ڈیلیور کرنے کے سوا دوسرا آپشن نہیں ہے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقاریر اور ایکس پوسٹوں میں سے وزیراعظم شہباز شریف کا نام تقریباً غائب ہوتا جا رہا ہے۔حالیہ مثال یہ ہے کہ وفاق میں شہباز شریف کی حکومت آئینی ترمیم کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے لیکن اس موضوع پر وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔پاکستان میں افراط زر کی شرح میں کمی آنے پر قومی اسمبلی میں روایتی حریف (اور اب حلیف) پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کی تعریف کی لیکن مریم نواز نے ایسی ستائش سے خود کو دور ہی رکھا ہے۔جمعرات کو معذور افراد میں ہمت کارڈز کی تقسیم کی تقریب میں مریم نواز نے یہ تو بتایا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے افراط زر چھ اعشاریہ پانچ پر پہنچا دیا ہے تاہم انہوں نے شہباز شریف کا نام نہیں لیا۔گزشتہ چند مہینوں میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شہباز شریف کی تقریر وہ واحد موقع دکھائی دیتا ہے جس پر مریم نواز نے ایک ایکس پوسٹ میں اس کی تعریف کی۔اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف بھی پنجاب کے معاملات سے مکمل طور پر علیحدہ نظر آتے ہیں۔ جب سے مریم نواز وزیراعلیٰ بنی ہیں، وہ ایک مرتبہ بھی سرکاری دورے پر لاہور آئے اور نہ ہی کسی میٹنگ کا حصہ بنے۔تو کیا مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان کوئی اندرونی مسابقت ایسا تأثر قائم کر رہی ہے؟اس سوال کے جواب میں دہائیوں سے شریف خاندان کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یہ فریم تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے مریم نواز صرف اپنے آپ پر فوکس کر رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، خاندان کے اندر ایسی کوئی سرد جنگ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتا ایک سیاسی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔‘مریم نواز نے کچھ عرصہ قبل وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ میں تقریر کی تعریف کی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)سلمان غنی نے مزید کہا کہ ’وجہ یہ ہے کہ مریم نواز کو اب اپنی شناخت چاہیے، اگر انہوں نے اپنی سیاست کو آگے لے کر جانا ہے۔ میرا خیال ہے شہباز شریف بھی اس بات کو سمجھتے ہیں، اس لیے انہوں نے پنجاب کے معاملات میں اتنی بھی دخل اندازی نہیں کی جتنی وہ سندھ اور بلوچستان کے معاملات میں کرتے ہیں۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ جس سیاسی مدوجزر میں ہے، اس میں اب اندرونی لڑائیاں معنی بھی نہیں رکھتی ہیں۔ اس خاندان کی روایت رہی ہے کہ اندر کچھ بھی ہو جائے، وہ باہر نہیں آنے پاتا۔ اور ایک خاموش معاہدے کے تحت سب اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ نواز شریف کی مکمل ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانشین مریم نواز ہی ہوں گی۔ اور وہ اس تأثر کو گہرا کرنے میں پیش پیش ہیں۔‘سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپنی الگ سے شناخت قائم کرنا ہر سیاست دان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔نواز شریف مریم نواز کی حکومت کے بعض منصوبوں کی افتتاحی تقریبات میں میں شریک ہوتے ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب حمزہ شہباز اپنے تایا کے جانشین بننے کے لیے پر تول رہے تھے اور مریم نواز ابھی سیاست میں آئی بھی نہیں تھیں، تو انہوں نے بھی اپنی کچھ خصوصیات ظاہر کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی پارٹی میں نچلی سطح پر ابھی بھی حمزہ مقبول ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ مریم نواز بھی کچھ ایسا ہی چاہ رہی ہیں کہ ان کی شناخت ان کے نام اور کام سے ہو۔ وہ ایک طرح کے مریم برانڈ پر کام کر رہی ہیں۔‘