دنیا بھر میں کاروبار کی دنیا بھی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے فیس بک، انسٹاگرام اور گوگل ایڈز کا استعمال کرتے ہیں۔یہ تشہر کا سب سے آسان طریقۂ کار ہے کہ گھر بیٹھے سوشل میڈیا پر اپنا ایک پیج بنائیں اور اُس پر اپنے کاروبار سے متعلق معلومات فراہم کرتے رہیں۔پاکستان میں بھی پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے کاروبار کرنے والوں کی بہتات ہوئی ہے تاہم ایسے افراد خاص طور پر چھوٹے درجے کا کاروبار کرنے والوں کو پاکستان کی گِرتی ہوئی معیشت اور ڈالر کی اُڑان نے بھی بڑی حد تک متاثر کیا ہے۔
حکومتی پالیسیوں کے باعث پاکستان سے باہر ڈالر بھیجنا چاہے وہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے، ایک مشکل ترین عمل ہے۔
سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے کے لیے آپ کو کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ فیس بک جیسی کمپنیاں اپ کے کریڈٹ کارڈ سے اپنی تشہیر کی رقم کی خود بخود کٹوتی کرتی ہیں اور آپ کا اشتہار ان لوگوں تک پہنچتا ہے جن تک آپ اپنی مصنوعات پہنچانا چاہتے ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں بڑی تعداد میں شروع ہونے والے کاروبار اب دباؤ کا شکار نظر آ رہے ہیں بلکہ کئی افراد کو تو اپنے کاروبار بند کرنا پڑے۔انہی میں سے ایک لاہور کے رہائشی باسط اعجاز ہیں جنہوں نے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی مصنوعات کا ایک آن لائن بزنس شروع کیا تھا جسے دو مہینے قبل وہ بند کر چکے ہیں۔اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’میں گذشتہ چار سال سے ایک چھوٹا سا کاروبار کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے گھر میں ہی ایک چھوٹا سا وئیر ہاؤس بنایا ہوا تھا اور میں شاہ عالمی سے کچن میں استعمال ہونے والے منفرد برتن اور مصنوعات خریدتا تھا۔ میرا کاروبار ٹھیک چل رہا تھا۔‘باسط اعجاز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’لیکن پھر صورتحال یہ ہو گئی کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے میں فیس بک کو ان اشتہارات کے پیسے دیتا تھا تو سال کے آخر میں حساب کتاب کرنے پر معلوم پڑتا کہ میری 40 فیصد آمدن تو ان اشتہارات میں چلی جاتی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’منافع تو دور کی بات اگر کسی بھی وجہ سے پیمنٹ لیٹ ہو جائے اور اشتہار بند ہو جائیں تو آرڈر آنا بھی بند ہو جاتے تھے۔‘پاکستان میں بھی پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے کاروبار کرنے والوں کی بہتات ہوئی ہے (فوٹو: فری پک)انہوں نے کہا کہ ’صرف یہی نہیں کہ اشتہارات کی مد میں بے انتہا پیسہ لگ رہا ہے، اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اگر آپ نے 100 ڈالر یا 200 ڈالر فیس بک کو دیے ہیں تو جب وہ ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو اس پر تین سے چار طرح کے ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے۔‘باسط اعجاز نے بتایا کہ ’ان ٹیکسوں میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، انٹرنیشنل ٹرانزیکشن ٹیکس اور بھی چھوٹے چھوٹے ٹیکس شامل ہیں تو آپ کو 10 سے 15 ڈالر اوپر دینا پڑتے ہیں۔ اشتہارات کی خطیر رقم کے باعث مجھے اس کاروبار کو بند کرنا پڑا۔‘کچھ ایسی ہی کہانی قمر الزمان کی بھی ہے جنہوں نے 2015 سے آن لائن کاروبار کا اغاز کیا۔ ان کے تین آن لائن سٹور چل رہے تھے جن میں سے دو بند کرنا پڑے۔قمر الزمان نے اپنے کاروبار کے حوالے سے بتایا کہ 2015 سے 2019 تک یہ ایک بڑا منافع بخش کاروبار تھا۔ تشہیر کا جو بجٹ رکھتے تھے اس کے مطابق آرڈرز آتے تھے۔’یہی وجہ تھی کہ میں نے ایک سے تین سٹور بنا لیے لیکن اس کے بعد کورونا وائرس کی وباء سے جو صورتحال ہوئی، پاکستان کی معیشت تو ایک طرف سوشل میڈیا کی کمپنیوں نے بھی اپنے الگورتھم بہت تبدیل کر لیے اور اب وہ بھی پیسہ بنانے کی مشینیں بن چکی ہیں۔‘قمر الزمان سمجھتے ہیں کہ ’چونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹارگٹڈ مارکیٹنگ کرتے ہیں اس لیے انہیں بہت اچھے طریقے سے پتہ ہے کہ جو سامان میں فروخت کرنا ہے اُسے خریدنے والا کون کہاں بیٹھا ہوا ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’اگر میں زیادہ پیسے فیس بک کو دیتا چلا جاؤں گا تو وہ اسی تناسب سے میرے گاہکوں کو میرے اشتہار دکھاتا رہے گا۔ زیادہ پیسے زیادہ گاہک کم پیسے کم کا فارمولا چل رہا ہے۔‘بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے فیس بک، انسٹاگرام اور گوگل ایڈز کا استعمال کرتے ہیں (فوٹو: لیٹر مارکیٹنگ پلہیٹ فارم)انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے چار کریڈٹ ریکارڈ بند ہو چکے ہیں اور میں اس وقت مقروض ہوں کیونکہ جتنا پیسہ تشہیر کی مد میں دے چکا ہوں اتنی ریکوری نہیں ہوئی۔ حکومت الگ سے پیسے لے رہی ہے اور اشتہاری کمپنیاں الگ۔ اب تو لگتا ہے کہ کاروبار کرنے کی آزادی ہی چھین لی گئی ہے۔‘خیال رہے کہ کورونا وائرس کے بعد پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث حکومت نے ایسی پالیسیاں جاری کی ہیں جن کے ذریعے ڈالر کو ملک سے باہر بھیجنا چاہے وہ کسی بھی مد میں ہو ایک مشکل کام ہے۔ایک تو نقد ڈالر لینا انتہائی مشکل ہے اور دوسرا اگر آپ اپنے کریڈٹ کارڈ سے بیرونی دنیا کو پیمنٹس کرتے ہیں تو اس پہ کئی طرح کے ٹیکس عائد ہیں۔ای کامرس کے ماہر اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو تربیت دینے والے ثاقب اظہر کہتے ہیں کہ ’اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا آن لائن انٹرپرینیور جو ای کامرس کر رہا ہے اور بیٹھے بیٹھے انویسٹمنٹ کر کے آن لائن سٹور کے ذریعے سوشل میڈیا کے بل پر اپنا کاروبار چلا رہا ہے اس کے لیے حالات بہت مشکل ہیں۔‘ان کے خیال میں اس صورتحال کا براہ راست تعلق پاکستان کی معیشت سے ہے۔ ’کہیں بھی اتنا ٹیکس عائد نہیں ہے۔ اس لیے ہم تو لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر آپ ای کامرس بزنس میں ہیں تو اس ماڈل کو تبدیل کریں اور ڈراپ شپنگ کی طرف جائیں۔‘ثاقب اظہر نے ڈراپ شپنگ کے حوالے سے بتایا کہ ’اس کے ذریعے آپ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے ایک ملک سے آرڈر لے کر دوسرے ملک سے مصنوعات کو اس آرڈر کی جگہ پر بھیجتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ایمازون سمیت بڑی کمپنیاں اس میں شامل ہیں۔ کچھ ایسی صورتیں ہیں جن میں انٹرنیشنل اکاؤنٹ بنائے جا سکتے ہیں تو آپ پاکستان کے ساتھ صرف اسی وقت ٹرانزیکشن کریں جب آپ نے ڈالر پاکستان میں لے کر آنا ہو۔ پاکستان سے ڈالر باہر لے کر جانا ابھی اگلے کچھ وقت تک تو بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔‘تو کیا پاکستان سے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم بار بھیجنے پر عائد ٹیکسوں میں کبھی جھوٹ بھی ہوگی، اس سوال کے جواب میں ترجمان سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس سٹیٹ بینک کی طرف سے نہیں لگے گا۔’فائنانس بل کے ذریعے وزارت خزانہ ان ٹیکسز کو عائد کرتی ہے تو جیسے حکومت کی معاشی پالیسیاں تبدیل ہوں گی تو کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشن پر لگائے گئے ٹیکس میں ردّ و بدل بھی ہوگا۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘