سکوٹر بم، ’جنگی مچھر اور روسی ہٹ لسٹ‘: ماسکو میں ایک جنرل کا قتل اور یوکرین کی ’موساد جیسی کارروائیاں‘

بی بی سی اردو  |  Dec 19, 2024

EPAلیفٹیننٹ جنرل ایگور کیریلوف منگل کے روز ایک رہائشی عمارت کے باہر موجود تھے، جب ایک الیکٹرک سکوٹر میں نصب ایک دھماکہ خیز ڈیوائس پھٹ گئی

یوکرین کے سکیورٹی اور انٹیلیجنس حکام نے بی بی سی نیوز کی یوکرین سروس سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے خفیہ ایجنٹ روسی فوج اور اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جو ’ہر جگہ ہو رہی ہیں جہاں بھی یوکرین کے دشمن موجود ہیں۔‘

جن علاقوں میں یہ خفیہ کارروائیاں روسی فوجی حکام کو نشانہ بنا رہی ہیں ان میں یوکرین کے مقبوضہ علاقوں سمیت روس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرزمین بھی شامل ہے۔

یہ معاملہ حال ہی میں روس کے لیفٹینینٹ جنرل ایگور کیریلوف کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا جن کو ایک ایسے خفیہ بارودی مواد کی مدد سے نشانہ بنایا گیا جو ایک سکوٹر میں نصب کیا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ایگور کیریلوف منگل کے روز ایک رہائشی عمارت کے باہر موجود تھے، جب ایک الیکٹرک سکوٹر میں نصب ایک دھماکہ خیز ڈیوائس پھٹ گئی۔

یوکرین کی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کے ذرائع نے ایگور کیریلوف پر جنگی جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایگور کیریلوف ہی اس کارروائی کا ’اصل ہدف‘ تھے۔ روس کی سکیورٹی سروس نے ایک 29 سالہ ازبک شہری کو اس ہلاکت کے سلسلے میں گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔

عسکری امور کے ماہر ایوان سٹوپاک، جو یوکرین کی سکیورٹی سروس ایس بی یو کے سابق افسر ہیں، کا ماننا ہے کہ یہ کارروائی ’حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارروائی جیسی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین کی خفیہ ایجنسی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ جنرل ایگور کو گولی مارنی ہے، زہر دینا ہے یا دھماکے میں ہلاک کرنا ہے۔‘ یاد رہے کہ یوکرین کے حکام نے اب تک سرکاری طور پر اس واقعے پر باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔

ٹارگٹ کی فہرست Russian Ministry of Defenceلیفٹیننٹ جنرل ایگور کیریلوف روسی نیوکلیئر، بائیولوجیکل، کیمیکل ڈیفینس افواج (این بی سی) کے سربراہ تھے

ایوان سٹوپاک کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کے خلاف روسی جارحیت میں شامل ہر وہ شخص جو منصوبہ بندی تک میں شامل ہے ایس بی یو کا ہدف ہو سکتا ہے۔‘

یوکرین کی انٹیلیجنس سروس جی یو آر کی جانب سے شائع ہونے والی ایک ایسی ہی فہرست میں روسی جنرل اور روسی فضائیہ کے افسران شامل ہیں جو یوکرین پر فضائی حملوں میں شامل ہیں۔

تاہم خفیہ سروس جب کسی کو ہدف بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس بات پر غور کرتی ہے کہ اس شخصیت کی اہمیت کتنی ہے اور ان تک کیسے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ایوان سٹوپاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ پیشہ ورانہ مہارت سے ہونے والی کارروائی ہوتی ہے۔ ایسا کام ایک فرد نہیں بلکہ گروہ کرتا ہے۔ ان کو یہ جاننا ہوتا ہے کہ جنرل مسلح ہے، ان کے ساتھ کون ہے، کیا روس کی خفیہ ایجنسی ان کا پیچھا کر رہی ہے۔‘

ماسکو کی گلیوں میں ایسی کارروائی سے قبل دھماکہ خیز مواد کے ساتھ پکڑے جانے یا پھر ویڈیو کیمروں کی نظر میں آنے کا خطرہبھی موجود ہوتا ہے جبکہ ایجنٹ کو محفوظ اور تیز انخلا کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار ایسے ہی آپریشن کے انچارج ایجنٹ نے مجھے بتایا تھا کہ جب ایسی کارروائی کے لیے کسی کو بھیجا جاتا ہے تو 20 منٹ تین دن کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔‘

جنرل ایگور: ’سکوٹر میں نصب باردوی مواد‘ کی مدد سے روس کی جوہری ڈیفنس فورس کے ’بدنام‘ سربراہ کو کیسے ہلاک کیا گیا؟نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاںلبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کیسے بنی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟انٹیلیجنس اور غلط معلومات

لیفٹیننٹ جنرل ایگور کیریلوف، جو نیوکلیئر، بائیولوجیکل، کیمیکل ڈیفینس افواج (این بی سی) کے سربراہ تھے، بطور ہدف کافی اہم تھے۔

سوموار کے دن ایس بی یو نے 54 سالہ جنرل ایگور پر الزام عائد کیا کہ وہ ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر استعمال کے ذمہ دار تھے۔ سکیورٹی سروس نے دعوی کیا کہ جنرل ایگور کی قیادت میں روس نے 48 سے زیادہ مواقع پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔

اکتوبر میں برطانیہ نے بھی جنرل ایگور پر پابندی عائد کر دی تھی اور کہا تھا کہ وہ یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی کر رہے ہیں اور ’کریملن کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘ روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

جنرل ایگور کی جانب سے یوکرین کے خلاف جنگ کے بعد سے غلط معلومات پھیلانے کی ایک بڑی مہم کا بھی آغاز کیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں ان کی شہرت کی وجہ ان کے الزامات ہیں کہ مغربی ممالک روس کے خلاف غیر روایتی بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنرل ایگور نے دعوی کیا کہ ’امریکی محکمہ دفاع، یعنی پنٹاگون، ایسے چھوٹے جانور استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس بی جیسے امراض روس میں پھیلا سکیں اور جنگی مچھروں کی مدد سے روسی شہریوں کو بیمار کرنے والے وائرس پھیلاںے کی کوشش کا الزام بھی لگایا گیا۔‘

انھوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ زہریلا مواد استعال کر کے روس پر الزام لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ انھوں نے ایسے بے بنیاد بیانات دیے جن کے مطابق امریکہ مختلف ممالک میں لیبارٹریاں بنا رہا ہے۔

ان کی جانب سے الزامات لگانے کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔ روس کی فوج کا کوئی اور جنرل صحافیوں سے اتنی زیادہ بات چیت نہیں کرتا تھا۔ ہلاکت کے دن بھی جنرل ایگور کی ایک میڈیا بریفنگ ہونے والی تھی۔

Reutersاکتوبر میں برطانیہ نے بھی جنرل ایگور پر پابندی عائد کر دی تھی اور کہا تھا کہ وہ یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی کر رہے ہیںصدر پوتن کو پہنچنے والی چوٹ

یوکرین کی سکیورٹی سروسز کی جانب سے روس کے دارالحکومت میں ایسی کارروائی کی ذمہ داری لیے جانے سے ان کا اعتماد واضح ہوتا ہے کہ ان کے ایجنٹوں کے پاس انخلا کے محفوظ راستے موجود ہیں۔

عام طور پر خفیہ ایجنسیاں ایسی کارروائیوں کے بعد ذمہ داری قبول کرنے میں اتنی جلدی نہیں کرتی ہیں تاکہ ان کے ایجنٹوں کو خطرہ نہ ہو۔

تاہم روس میں وزارت دفاع کے اہم اجلاس کے ایک ہی دن بعد، جس میں صدر پوتن اور وزیر دفاع نے یوکرین میں فتح کے بارے میں بات کی، جنرل ایگور کی ہلاکت ایک بڑی چوٹ ہے۔

ایک ہی دن بعد صدر پوتن نے اپنے سالانہ ٹی وی شو میں روسی شہریوں کو یقین دلانا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور مغربی پابندیاں ملک کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔

یوکرین کے سابق انٹیلیجنس افسر نے کہا کہ ’جنرل ایگور کی ہلاکت سے محاذ جنگ پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن صدر پوتن کے دعوؤں پر سوال ضرور اٹھیں گے اور یوکرین کے خلاف انتقامی کارروائیاں بڑھ سکتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ روس کی تعلقات عامہ کی جنگ میں بڑی شکست ہے کیوں کہ میں تصور کر سکتا ہوں کہ روسی خفیہ ایجنسیوں اور ان کے اعلیٰ حکام کی راتوں کی نیند برباد ہو گئی ہو گی اور ان کے باس ان سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہوں گے کہ یہ ماسکو میں کیسے ممکن ہوا۔‘

Read moreجنرل ایگور: ’سکوٹر میں نصب باردوی مواد‘ کی مدد سے روس کی جوہری ڈیفنس فورس کے ’بدنام‘ سربراہ کو کیسے ہلاک کیا گیا؟یوکرین جنگ: کرائے کے روسی جنگجو جن کو یوکرین میں ’پکنک کی دعوت‘ ملیروس میں یوکرین جنگ کے دوران سینیئر جنرلز گرفتار کیوں کیے جا رہے ہیں؟یوکرین کیسے وجود میں آیا اور روس کے ساتھ اس کا تنازع کتنا قدیم ہے؟لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More