رچرڈ گرینل اور عمران خان۔۔۔! اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  Dec 19, 2024

یہ صاحب یعنی رچرڈ گرینل نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معتمد ترین احباب میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکی چناؤ کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گرینل سیکریٹری خارجہ کی سیٹ کے لیے بھی فیورٹ تھے، قرعہ البتہ مارکو روبیو کے نام نکلا۔

اب انہیں ٹرمپ سرکار نے خصوصی مشنز کا ایلچی مقرر کیا ہے۔ ان کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ یہ دنیا کے سرگرم علاقوں یا ممالک کے لیے کام کریں گے بالخصوص وینزویلا اور شمالی کوریا۔

یہ ٹرمپ کے پہلے دور میں انٹیلی جنس چیف رہ چکے اور خارجہ پالیسی کے ماہرین میں سے ایک ہیں۔ اس دور میں یہ جرمنی میں امریکی سفیر بھی رہے۔ ریپبلکن جماعت کے کٹر داعی گرینل جارج بش کے دورِ حکومت میں  امریکی سرکار کے ترجمان کے طور پر اقوام متحدہ میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔

بھلے وقتوں میں یہ ٹرمپ کے ناقد بھی ہوا کرتے تھے لیکن پھر قربتیں بڑھیں اور یہ ٹرمپ کے مریدین میں شمار ہوتے ہوتے معتمد ترین کی فہرست میں ایک ہوئے، اسی قربت کے ہنگام انہوں نے ماضی میں ٹرمپ پر کی گئی تنقید پر مبنی سوشل میڈیائی پوسٹس ڈیلیٹ بھی کیں۔

گرینل کا پاکستان اور عمران خان بارے تعارف اس وقت کُھل کر سامنے آیا جب یہ اس اہم عہدے پر تعینات نہیں ہوئے تھے۔ 25 نومبر اور ڈی چوک کے واقعات پر بلومبرگ نشریاتی ادارے نے ایک ٹویٹ کی، لکھا کہ ’پی ٹی آئی کے حامی عمران خان کی رہائی کے لیے دارالحکومت تک پہنچ گئے ہیں۔‘

اس ٹویٹ  کو ری پوسٹ کرتے ہوئے گرینل نے ایک مختصر سا پیغام بلکہ مطالبہ داغ دیا: ’ریلیز عمران خان۔‘ بس پھر کیا تھا، دنیا بھر میں پی ٹی آئی کے چاہنے والے دھڑا دھڑ اس ٹویٹ کو لے کر جذباتی ہوتے چلے گئے۔

زلفی بخاری نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا تو گرینل نے اس شکریے کو بھی ری پوسٹ کر دیا۔

پھر 26 نومبر کو موصوف نے ایک نیا ٹویٹ لکھا کہ ’پاکستان پر نظر رکھیں جہاں ان کا ٹرمپ جیسا ایک رہنما جعلی الزامات کی زد میں جیل کاٹ رہا ہے اور وہاں کے عوام امریکی سرخ لہر سے متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی انتقام پر مبنی کارروائیاں بند ہونی چاہییں۔‘

پندرہ دسمبر کو جب ان کی باقاعدہ تعیناتی کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر موصوف کی ٹائم لائن پر پاکستان اور عمران خان کی چرچا دکھائی دینے لگی۔ اس بیچ یہ دنیا بھر کے دیگر اہم موضوعات بشمول شام کی خانہ جنگی پر بھی بھر پر نظر رکھے ہوئے دکھائی دیے۔

دو روز قبل جب پاکستان کے ایک  نامور ترین نشریاتی ادارے نے ان کی تعیناتی پر ٹویٹ اور سرخی لگائی کہ ’ہم جنس پرست رچرڈ گرینل ٹرمپ کے خصوصی ایلچی مقرر۔‘

تو اسی ادارے نے پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کی جانب سے ٹرولنگ کے بعد اس سرخی کو ڈیلیٹ کیا ور از سر نو نئی سرخی نکالی، لیکن دوبارہ نشاندہی کی صورت میں ہوئی ٹرولنگ کے  جواب میں ادارے نے یہی سرخی دوبارہ جمائی تو اس کا سکرین شاٹ لے کر  گرینل نے لکھا: ’میں دوبارہ کہتا ہوں، فری عمران خان!‘

تحریک انصاف کے کارکنوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے گذشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار احتجاجی مظاہرے کیے ہیں: فوٹو اے ایف پرپاکستان کے اس مقبول اور قدیم ترین نجی نشریاتی ادارے کی سرخی پر ریان گرن نامی صحافی نے رچرڈ کی خدمت میں کچھ گزارشات کیں اور یہ بتلانے کی کوشش کی کہ یہ ادارہ امریکی مالی مدد سے مستفید ہوتا رہا ہے۔

گرینل نے فوراً اس پر تبصرہ کیا کہ ’ناٹ فار لانگ۔‘ یعنی  موصوف اپنے ان ٹویٹس کی صورت میں اپنے ارادوں کا پتہ دے رہے ہیں۔ یہ رام کہانی اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ قارئین جان سکیں کہ رچرڈ گرینل ہیں کون اور پاکستان و کپتان بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔

خاکسار کو قوی اُمید ہے کہ کپتان اور ان کی پارٹی امریکی مداخلت کے اپنے پرانے بیانیے پر قائم رہتے ہوئے اب بھی ایسی کسی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی۔ 

لیکن کیا کیجیے کہ پاکستان میں مقیم قیادت تو اس بابت سہمت دکھائی دیتی ہے مگر باہر بیٹھے جذباتی اور سوشل میڈیائی رہنما گرینل کے ٹویٹس کو لے کر کچھ زیادہ ہی ایکسایئٹڈ ہوئے پڑے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ مداخلت نہیں بلکہ حمایت ہے۔

خواجہ آصف تو کہہ چکے کہ جب کال آئے گی تب دیکھی جائی گی: فائل فوٹو اے ایف پیخارجہ امور کی باریکیاں سمجھنے والے کچھ ماہرین سے جب اس مدّعے پر بات ہوئی تو اکثریت نے یہی بتلایا کہ فی الحال پاکستان امریکہ کے ریڈار میں دور دور تک نہیں، ان کی ترجیحات چین، روس اور ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے نعروں پر عمل درآمد ہے۔

مان لیا کہ گرینل کے ابتدائی ٹویٹس ان کی ذاتی رائے تھی لیکن تعیناتی کے بعد بھی وہ تواتر کے ساتھ اپنی اسی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ’فری عمران خان‘ کی مانگ کیوں کر رہے ہیں؟

اگر گرینل کی رائے ٹرمپ سرکار کی بھی مانگ بن گئی تو امریکہ بہادر سے آئی کال کا کیا اثر ہوگا؟ خواجہ آصف تو کہہ چکے کہ جب کال آئے گی تب دیکھی جائی گی۔

وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے مالی مدد کے حصول کے لیے پاکستان کو امریکی حمایت درکار ہوا کرتی ہے۔ اس لیے امریکی اہمیت کا ادراک بھی ہے۔

مگر ایسی کوئی کال یا مانگ باقاعدہ اگر ٹرمپ سرکار کے حلف لیتے ہی منظر عام پر آتی ہے تو کیا ریاض اور ابو ظہبی ہمیں آسرا کرائیں گے یا اس کال پر لبیک کہیں گے؟

فی الحال خاکسار کا شاکی ذہن خارجہ امور کی باریکیوں اور امریکہ کے لیے پاکستان کی گرتی اہمیت کے بیچ گرینل کی ٹویٹرکاریوں پر اٹک سا گیا ہے۔ نتیجہ برآمد کرنے سے گویا قاصر ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ سرکار گرینل کی رائے پر یہ نہ کہہ دے: ’جیو اور جینے دو!‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More