امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ گوانتانامو بے میں قید ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے دو ملزمان نے بالی میں 2002 میں ہونے والے دھماکوں سے متعلق الزامات کا اعتراف کر لیا ہے جبکہ مبینہ سرغنہ کے خلاف گواہی دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے جس کے بعد انہیں واپس اپنے ملک منتقل کر دیا گیا ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کو کینیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو واپس اپنے ملک منتقل کیا گیا ہے جو گزشتہ 17 سال سے بغیر کسی الزام کے گوانتانامو میں قید تھا۔پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ محمد فارق بن امین اور محمد ناظر بن لیپ نے کئی سال حمبلی نامی شخص کے ساتھ کام کیا جو القاعدہ سے وابستہ جماعت جامع اسلامیہ کے انڈونیشیا میں رہنما تھے۔ ان دونوں افراد پر 12 اکتوبر 2002 کو بالی میں ہونے والے دھماکوں کے بعد حمبلی کو فرار کروانے کا بھی الزام ہے۔پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں افراد نے سازش میں ملوث ہونے اور دیگر الزامات کا اعتراف جنوری میں کیا تھا جبکہ ان کی گواہی سامنے آنے کے بعد انہیں اپنے ملک منتقل کیا گیا ہے جو مبینہ ماسٹر مائنڈ حمبل کے خلاف مستقبل میں استعمال کی جائے گی۔انسیپ نورجمان جو حمبل کے نام سے جانے جاتے ہیں بالی دھماکوں اور دیگر حملوں کے الزامات میں گوانتانامو بے میں قید ہیں اور جنوری میں ان کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہو گا۔ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی منتقلی کے بعد گوانتانامو بے میں زیرِ حراست قیدیوں کی تعداد 27 رہ گئی ہے۔محمد ناظر بن لیپ کے ٹیکساس میں وکیل برائین بوفارڈ نے آسٹریلین میڈیا کو بتایا کہ فی الحال یہ معلوم نہیں کہ ان کے مؤکل کو ملیشیا کے حکام کی جانب سے کب رہا کیا جائے گا۔بالی دھماکوں میں ہلاک ہونے والے 202 افراد میں سے 88 کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ حادثے کے متاثرین نے ان افراد کی رہائی کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ بغیر الزامات کے قید متعدد افراد کی حراست کو ختم کیا جائے بالخصوص ایسے وقت پر جب نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانامو بے کے حوالے سے اپنے ارادوں کو واضح نہیں کیا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری بیان میں کہا ہے کہ ’امریکی حکومت کی جانب سے بغیر الزام کے غیرمعینہ مدت تک زیر حراست رکھنے کے گھناؤنے عمل کا ذمہ دار ہمیشہ صدر بائیڈن کو ٹھہرایا جائے گا۔‘