’پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو آپ کے نیٹ ورک اور آلات پر کچھ مشتبہ سرگرمی ملی ہے۔ آپ کو متنبہ کیا جاتا ہے۔ آپ اس ایپلیکیشن میں اپنے نیٹ ورک کی تمام سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں۔اس درخواست كے بارے میں اينى معلومات كسى کے ساتھ شیئر نہ کریں۔‘واٹس ایپ پر یہ پیغام اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ سارہ حیدر (فرضی نام) کو موصول ہوا۔ اُنہیں جب ایک غیرملکی نمبر جس پر ایف آئی اے کے لوگو کی تصویر لگی ہوئی تھی، سے میسج ملا تو اُسے اہم قرار دیتے ہوئے ایف آئی کا ہی ایک پیغام تصور کیا۔اس کے بعد اُنہوں نے میسج کے ساتھ بھیجی گئی ایک اے پی کے فائل کھولی جس کو بھی بظاہر ایف آئی اے کے ہی طرز پر بنایا گیا تھا۔ سارہ حیدر نے فائل میں مانگی گئی معلومات اپلوڈ نہیں کیں اور صرف فائل کا جائزہ لے کر اُسے واپس بند کر دیا۔تاہم کچھ دیر بعد اُنہیں اُسی نمبر سے مسیجز موصول ہونا شروع ہو گئے جس میں اُن کی ذاتی معلومات موجود تھیں جس کی بنیاد پر اُنہیں بلیک میل کرنا شروع دیا گیا اور اُن کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگانے کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔سارہ حیدر کے مطابق اُنہیں ایک گھنٹہ مسلسل بلیک میل کیا گیا اور جب اُن کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے 25 ہزار روپے غائب ہوئے تو پھر اُس نمبر سے میسجز آنا بھی بند ہو گئے۔پاکستان میں حالیہ دنوں ایف آئی اے کے نام پر جعلی پیغامات اور نوٹس بھیج کر شہریوں کو ہراساں اور بعض کیسز میں اُن کے ساتھ مالی فراڈ کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں۔اس حوالے جب اُردو نیوز نے ایف آئی اے کے ترجمان عبدالغفور سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ ایف آئی اے کسی بھی سرکاری رابطے کا آغاز مکمل تحقیقات اور واضح طور پر شناخت شدہ کیس نمبر کے بعد کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کی طرف سے کبھی بھی حساس معلومات جیسے بینکنگ کی تفصیلات، نوٹسز یا فون کالز کے ذریعے طلب نہیں کی جاتی۔شہریوں کو ہراساں کرنے اور اُن کے ساتھ مالی فراڈ کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں (فائل فوٹو: ٹی او آئی)سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کے خیال میں ایف آئی اے کے نام پر بھی شہریوں کے ساتھ جعل سازی دیگر سائبر جرائم کی طرح ہی سائبر حملے کی ایک شکل ہے۔ شہری کسی بھی مشکوک نمبر یا پلیٹ فارم پر ذاتی معلومات دینے سے گریز کریں۔اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ایف آئی اے نے ایک آگاہی پیغام بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کے نام سے جعلی نوٹس وصول کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ نوٹس مختلف ذرائع جیسے ای میل، واٹس ایپ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔ایف آئی اے کے مطابق ان جعلی نوٹسز پر وصول کنندگان کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی جعلی تفصیلات درج ہوتی ہیں اور قانونی کارروائی کی دھمکیاں دے کر یا فوری مالی معاوضہ طلب کرکے خوفزدہ کرنے کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔بعض معاملات میں جعلی افراد تصدیق یا تعمیل کے بہانے حساس ذاتی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارہ اپنے تمام رابطوں میں عام شہریوں یا ملزمان سے سخت ترین پروٹوکول پر عمل پیرا رہتا ہے۔ان جعلی نوٹسز پر وصول کنندگان کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی جعلی تفصیلات درج ہوتی ہیں (فائل فوٹو: ٹیک جوس)ایف آئی اے نے اپنے آگاہی پیغام میں عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ اگر اس طرح کا جعلی اور مشکوک نوٹس موصول ہو تو بھیجنے والے سے رابطہ کریں نہ کوئی ذاتی معلومات فراہم کریں جبکہ شہری ایسے کسی بھی رابطے کی قانونی حیثیت کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے کی ہیلپ لائن لائن 1991 یا اپنے قریبی ایف آئی اے سرکل سے رجوع کریں۔اُردو نیوز نے ایف آئی اے کے نام پر شہریوں سے دھوکہ دہی کے معاملے پر سائبر سکیورٹی کے ماہر سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے جعل ساز ایف آئی اے کے نام پر یہ سکیم کیسے کر رہے ہیں؟سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ایف آئی اے جو کہ خود سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے کام کرتا ہے۔ اُسی کے نام پر جعل سازی شاید سائبر کرائم کی دنیا سے جڑے عناصر کے کیے قدرے آسان ہوتی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ کی طرح جعل سازوں کا مقصد صارف سے ڈیٹا کا حصول ممکن بنانا ہوتا ہے اور ایف آئی اے کے نام پر بھی پیغامات یا نوٹس بھیج کر شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’سائبر جرائم میں ملوث ملزمان بعض اوقات شہریوں کو ذاتی معلومات فراہم کرنے پر قائل کر لیتے ہیں اور کبھی کبھار صرف مشکوک لنکس یا فائلز کو کھولنے سے ہی ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے۔‘ایف آئی اے کے نام پر بھی پیغامات یا نوٹس بھیج کر شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: فری پکسز)’اے پی کے فائلز موبائل جبکہ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز میں ایگزی (ایکس ای) فائلز ایکٹیو ہو جاتی ہیں جو پس پردہ ذاتی ڈیٹا تک رسائی ممکن بنا لیتی ہیں۔‘محمد اسد الرحمان نے ایسے فراڈ سے بچنے کے لیے کسی بھی مشکوک نمبر یا پلیٹ فارم پر ذاتی معلومات فراہم کرنے سے اجتناب کرنے اور متعلقہ اداروں سے آگاہی مہم چلانے پر زور دیا ہے۔