امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ جوہری معاملے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام پر ’تعمیری‘ بات چیت کے لیے تیار ہے۔پریس بریفنگ کے دوران نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’امریکہ عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور پاکستان اس میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ تاہم، ہم پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں خدشات کے حوالے سے مؤقف واضح اور مستقل ہے۔‘جمعرات کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے جاری بیان میں واضح کیا تھا کہ پاکستان کی سٹریٹیجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع اور جنوبی ایشیا کے خطے میں امن و استحکام کو قائم رکھنا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام میں مبینہ معاونت فراہم کرنے والے چار اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
پاکستان جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے، امریکہ
دوسری جانب امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کو تیار کر رہا ہے جس سے جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور جو امریکہ کے لیے ’ابھرتا ہوا خطرہ‘ بن رہا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے بات کرتے ہوئے، جان فائنر نے کہا کہ پاکستان نے ’طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل سسٹم سے لے کر آلات تک جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی بہت زیادہ تگ و دو کی ہے، جو اس کو بڑی راکٹ موٹرز کی ٹیسٹنگ کے قابل بنا سکتا ہے۔‘امریکی عہدیدار نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو ممکنہ خطرہ قرار دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیانہوں نے کہا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ’پاکستان جنوبی ایشیا سے باہر اور امریکہ کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔‘نائب قومی سلامتی کے مشیر کے حیران کن انکشاف نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کس حد تک خراب ہو چکے ہیں۔اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوا ہے کہ کیا پاکستان کے لیے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگراموں سے جڑے مقاصد کی سمت تبدیل ہو گئی ہے جو دراصل انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے حاصل کیے گئے تھے۔انہوں نے روس، شمالی کوریا اور چین کا نام لیتے ہوئے کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایسے ممالک کی تعداد بہت کم ہے جو امریکی سرزمین تک پہنچ سکتے ہیں اور جو امریکہ کے حریف بھی ہیں۔جان فائنر نے مزید کہا کہ ’واضح طور پر، ہمارے لیے پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور تناظر میں دیکھنا مشکل ہے۔‘قومی سلامتی کے نائب مشیر کے بیان سے ایک دن قبل امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام سے وابستہ چار اداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔امریکہ کی جانب سے پابندیاں افسوسناک اور متعصبانہ ہیں، پاکستانپاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کو افسوسناک اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ حالیہ پابندیاں امن و سلامتی کے مقصد کے مترادف ہیں اور ایسی پالیسیوں کی ہمارے خطے اور دیگر علاقوں کے سٹریٹیجک استحکام کے لیے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔پاکستان نے کہا ہے کہ سٹریٹیجک صلاحیتوں کا مقصد خودمختاری کا دفاع ہے۔ فوٹو: اے پی پی’پاکستان کا سٹریٹیجک پروگرام ایک مقدس امانت ہے جو اس کے 24 کروڑ عوام کی جانب سے قیادت کو سونپا گیا ہے۔ اس امانت کے تقدس کو سیاسی منظرنامے میں انتہائی اعلیٰ مقام دیا گیا ہے اور جس پر سمجھوتا ممکن نہیں ہے۔‘
امریکہ نے جن اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں اسلام آباد کا قومی ترقیاتی کمپلیکس (این ڈی سی) اور کراچی میں قائم تین نجی کمرشل کمپنیاں شامل ہیں۔