پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے ذمہ دار ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی شہری ذاتی استعمال کے نام پر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل کر کے لائے گئے موبائل فون مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ایف بی آر اس معاملے کی روک تھام کے لیے بیرون ملک سے اپنے ساتھ سامان لانے والے شہریوں کے لیے قواعد و ضوابط میں ترامیم پر غور کر رہا ہے۔اس حوالے سے ایف بی آر نے ایک مجوزہ ترامیم پر مبنی نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا تھا جس میں بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی شہریوں کو اپنے ساتھ صرف ایک موبائل فون لانے کی اجازت دی گئی تھی تاہم ایک دن بعد ہی وہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا تھا۔اُردو نیوز نے ٹیکس ماہر اور موبائل فون کا کاروبار کرنے والے افراد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی ذاتی موبائل کے نام پر ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹیز سے بچتے ہوئے موبائل فون لا کر مقامی مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں؟ اور اگر ایسا درست ہے تو ایف بی آر کی جانب سے بیگج رولز میں ترامیم کے ذریعے بیرون ملک سے موبائل فون لانے پر کسی پابندی کی صورت میں پاکستان میں موبائل فون کی مارکیٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ذاتی استعمال کے نام پر فون لا کر مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں :ایف بی آرفیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ مختلف ممالک سے آنے والے پاکستانی شہریوں کی جانب سے ذاتی موبائل فون کے نام پر اپنے ہمراہ بڑی تعداد میں ڈیوائسز لا کر اُن کا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ایف بی آر اپنے ٹیکس ہدف کا بڑا حصہ درآمد شدہ اشیاء پر عائد ڈیوٹیز سے ہی پوری کرتا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)واضح رہے کہ ایف بی آر ذاتی استعمال کے موبائل فون پر کوئی کسٹم ڈیوٹی وصول کرنے کا مجاز نہیں ہے تاہم کمرشل بنیادوں پر درآمد کیے گئے موبائل فون پر بھاری کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔اس لیے ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ذاتی موبائل کے نام پر لائے گئے فونز کی مارکیٹ میں فروخت کے عمل کی روک تھام ضروری ہے۔ اسی مقصد کے لیے ایف بی آر بیگج رولز 2006 میں ترامیم کا ارادہ رکھتا ہے جس پر باضابطہ کام بھی کیا جا رہا ہے۔’موبائل فون لانے پر پابندی سے موبائل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو گا‘اُردو نیوز نے کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اور موبائل فون کے کاروبار سے منسلک تاجر منہاج گلفام سے سوال کیا کہ ایف بی آر کی جانب سے بیگج رولز میں ترامیم کے ذریعے شہریوں کے لیے اپنے ہمراہ موبائل فون لانے پر کسی پابندی کی صورت میں پاکستان میں موبائل فون کی مارکیٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جس کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ ’یہ ہر پاکستان شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ کسی بھی ملک سے موبائل فون خرید کر لائے اور پھر اپنی مرضی کے مطابق اُس کا استعمال کرے۔اگر اس حوالے سے وفاقی حکومت بیرون ممالک سے آنے والے شہریوں کو اپنے ہمراہ صرف ایک موبائل لانے کی اجازت دے گی تو اس سے موبائل فون کی مقامی مارکیٹ متاثر ہو گی اور قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ ہو گا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایف بی آر کو تمام تر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹیز ادا کی جائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم ایف بی آر اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کر چکے ہیں کہ آپ ایئرپورٹ پر ایک خصوصی کاؤنٹر بنائیں جہاں ایسے موبائل فون کی رجسٹریشن کی جائے تاکہ ٹیکس اور ڈیوٹیز کی ادائیگی ممکن بھی ہو۔‘ایف بی آر بیگج رولز 2006 میں ترامیم کا ارادہ رکھتا ہے جس پر باضابطہ کام بھی کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: ٹیک جوس)ماہر معیشت اور سابق وزیر مملکت ہارون شریف نے ذاتی استعمال کے نام پر بیرون ممالک سے لائے گئے موبائل فونز کی مقامی مارکیٹ میں فروخت کے معاملے پر اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ بنیادی طور پر ایف بی آر اپنے ٹیکس ہدف کا بڑا حصہ درآمد شدہ اشیاء پر عائد ڈیوٹیز سے ہی پوری کرتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آر بظاہر یہ چاہتا ہے کہ ذاتی استعمال کے نام پر کم سے کم موبائل فون پاکستان لانے کی اجازت ہو تاکہ اُن کے لیے زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹیز کا حصول ممکن ہو سکے۔ تاہم ایسے فیصلوں کی بجائے ایف بی آر کو ٹیکس کلیکشن بڑھانے کے کیے دیگر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔‘اُنہوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی شہری اپنے ہمراہ زیادہ سے زیادہ کتنے موبائل فون لا سکتے ہیں؟کیا دو یا تین موبائل فون لا کر تجارتی مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں؟ انہی سوالات کی بنیاد پر ہارون شریف نے ایف بی آر کے اس دعوے کی نفی کی ہے کہ بیرون ممالک سے ذاتی موبائل کے نام پر ٹیکس اور ڈیوٹیز سے بچتے ہوئے بڑی تعداد میں موبائل فون لائے جاتے ہیں اور پھر اُن کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔‘