BBCحزب اللہ لبنان کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور مسلح گروہ ہے جس کی قیام 1980 کی دہائی میں ہوا تھا
اسرائیل نے سنہ 2025 کے اواخر میں لبنان کے عسکریت پسند گروہ حزب اللہ سے منسلک ایک مالیاتی ادارے پر فضائی حملے کیے تھے۔ حزب اللہ کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے؟ مالیاتی ادارے پر کیے گئے اسرائیلی حملوں کے بعد سے یہ سوال اب دوبارہ زیر بحث ہے۔
حزب اللہ لبنان میں موجود سب سے طاقتور مسلح گروہ ہے۔ یہ لبنان کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور اور بااثر شیعہ گروہ ہے جس کی لبنان کی پارلیمان اور حکومت میں نمائندگی موجودگی ہے۔
اسرائیل اور بہت سے مغربی ممالک نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں یہ گروہ اسرائیل مخالفت کی بنیاد پر اُبھر کر سامنے آیا جبکہ لبنان میں 1975 سے 1990 کے دوران جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران حزب اللہ نے جنوبی لبنان کے حصوں پر قبضہ کر لیا۔
EPA26 نومبر 2024 کو اسرائیل نے جنوبی لبنان کے ایک شہر میں القرض الحسن کی ایک شاخ کو نشانہ بنایا تھا
اکتوبر 2024 میں اسرائیلی کی دفاعی افواج نے ’القرض الحسن‘ نامی مالیاتی ادارے کی کئی برانچز پر فضائی حملے کیے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ ’القرض الحسن‘ نامی یہ مالیاتی ادارہ حزب اللہ کی سرگرمیوں کے لیے فنڈنگ فراہم کرتا ہے۔
تاہم ’القرض الحسن‘ ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اُن کی تنظیم ایک سویلین ادارہ ہے جو ضرورت مند افراد کو قرض فراہم کرتا ہے۔
Reutersاسرائیلی حملے کے بعد بینک کے باہر بکھری دستاویزات
سنہ 2024 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران لبنان کے اُن علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جو ایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کا گڑھ قرار دیے جاتے ہیں۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کا خاتمہ جنگ بندی معاہدے کے تحت 27 نومبر 2024 کو ہوا۔ یہ معاہدہ اس وقت نافذ العمل ہوا جب لبنان کے پڑوسی ملک شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہوا۔
پے در پے پیش آنے والے ان تمام واقعات نے حزب اللہ کو ملنے والی فنڈنگ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کی اس گروپ کی صلاحیت پر بڑا اثر ڈالا ہو گا۔
بی بی سی نے اس رپورٹ میں حزب اللہ کے ذرائع آمدن اور لبنان اور دنیا بھر میں اس کے مالیاتی نیٹ ورکس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
ایرانی روابطEPAامریکہ کا دعویٰ ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب ہر سال حزب اللہ کو کروڑوں ڈالر کے فنڈز فراہم کرتا ہے
انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارا بجٹ، تنخواہیں، اخراجات، خوراک، پانی، ہتھیار اور میزائل اسلامی جمہوریہ ایران سے آتے ہیں۔‘
ایران اپنی طاقتور فوج (پاسداران انقلاب) کے ذریعے حزب اللہ کی مالی مدد کرتا ہے۔ پاسدارنِ انقلات نے ہی 1980 کی دہائی میں حزب اللہ کی تشکیل میں مدد فراہم کی تھی۔
پاسداران انقلاب ہی حزب اللہ کو جدید میزائلوں اور ڈرونز سمیت دیگر اسلحہ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
حماس کو اپنے 50 ہزار ملازمین اور اپنے خرچ کے لیے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں؟’محمد زندہ ہیں‘: حزب اللہ کا جنگجو تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے پانچ ماہ بعد کیسے زندہ برآمد ہوا؟حزب اللہ کیا ہے اور وہ عسکری لحاظ سے کتنی طاقتور ہے؟اسرائیل کی دفاعی امداد روکنے کی دھمکی کیا ٹوٹتے وعدوں پر امریکہ کے غصے کا اظہار ہے؟
سنہ 2022 میں امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اندازہ لگایا تھا کہ ایران حزب اللہ کو سالانہ 70 کروڑ ڈالر تک کے فنڈز فراہم کرتا ہے۔
ستمبر 2024 میں اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے حزب اللہ کے سابق رہنما حسن نصراللہ نے سنہ 2016 میں کی گئی اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے گروہ کو مالی مدد بنیادی طور پر ایران سے ملتی ہے۔ تاہم انھوں نے اس ضمن میں کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے تھے۔
Reutersگذشتہ سال اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان دو ماہ لڑائی جاری رہنے کے بعد جنگ بندی معاہدہ ہو گیا تھا
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئرایسٹ پالیسی کے سینیئر فیلو حنین غدر کے مطابق اگرچہ ماضی میں حزب اللہ کے بجٹ کے زیادہ تر دارومدار ایرانی فنڈنگ پر رہا ہے لیکن اب یہ گروہ تیزی سے دوسرے ذرائع آمدن پر انحصار کر رہا ہے۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران اپنے اوپر عائد عالمی پابندیوں کی وجہ سے اب اُتنی رقم حزب اللہ کو نہیں بھیج سکتا جتنی وہ ماضی میں بھیجتا تھا۔‘
حزب اللہ پر لکھی گئی کتاب ’دی گلوبل فٹ پرنٹ آف لبنان پارٹی آف گاڈ‘کے مصنف میتھیو لیوٹ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ایران سے حاصل ہونے والی آمدن کو منی لانڈرنگ سمیت متعدد غیر قانونی مالی سرگرمیوں کے ذریعے پورا کرتا ہے۔
’القرض الحسن‘ کیا ہے؟ EPAاسرائیلی حملے میں تباہ ہونے والی رہائشی عمارت کا ملبہ جس کے فرسٹ فلور پر القرض الحسن کا دفتر قائم تھا
’القرض الحسن‘ ایک ایسی مالیاتی تنظیم ہے جس پر الزام ہے کہ وہ حزب اللہ کے لیے منی لانڈرنگ کرتی ہے۔
یہ تنظیم حزب اللہ کے سوشل سروسز نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ 20 اکتوبر 2024 کو اس تنظیم کے دفاتر پر اسرائیلی فضائی حملوں سے پہلے لبنان بھر میں اس کی 30 سے زیادہ شاخیں یا برانچز تھیں۔ اس تنظیم کی برانچز زیادہ تر رہائشی عمارتوں کے فرسٹ فلور پر قائم کی گئی تھی۔
یہاں ضرورت مند افراد کو بعوض شخصی ضمانت یا سونے کے بدلے امریکی ڈالرز میں بلاسود قرضے فراہم کی جاتے تھے۔
EPAحزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ 27 ستمبر 2024 کو اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے
حسن نصراللہ نے سنہ 2021 میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں قائم ہونے کے بعد سے القرض الحسن نے 18 لاکھ لبنانی شہریوں کو 3.7 ارب ڈالرقرض کی مد میں فراہم کیے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ مجموعی طور پر تقریباً تین لاکھ افراد نے اس ادارے سے قرض کی سہولت لی ہے۔
’حزب اللہ: دی پولیٹیکل اکانومی آف لبنان پارٹی آف گاڈ‘کے مصنف جوزف داہر کے مطابق اس تنظیم یا بینک کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد عوام کو مالی مدد فراہم کرنا ہے۔
داہر کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ یہ تنظیم حزب اللہ کی غیر رسمی مالیاتی سرگرمیوں کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث ہو۔
القرض الحسن پر ہونے والے حملوں کے بعد اسرائیل نے حزب اللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس مالیاتی ادارے کو اپنی دہشت گردانہسرگرمیوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
امریکہ نے سنہ 2007 میں اس تنظیم پر یہ کہتے ہوئے پابندیاں بھی عائد کی تھیں کہ حزب اللہ اس تنظیم کو اپنی مالی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور بین الاقوامی مالیاتی نظام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
القرض الحسن کا کیا کہنا ہے؟Getty Imagesبیروت کے جنوبی مضافات میں واقع القرض الحسن کی یہ برانچ 21 اکتوبر 2024 کو ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہو گئی تھی
القرض الحسن نے حزب اللہ کے ساتھ اپنی مبینہ وابستگی سے متعلق دعوؤں کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا حزب اللہ کے مالی آپریشنز سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ ان کی تمام تر توجہ ضرورت مندوں کی خدمت پر ہے۔
اس تنظیم کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ کسی ایران سمیت کسی غیر ملکی قومیت یا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
القرض الحسن نے شفافیت اور انسانی امداد پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل اور دیگر ممالک کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات کو اپنے ادارے کے خیراتی نوعیت کے بارے میں ’غلط فہمیوں‘ کا شکار قرار دیا ہے۔
ہیکرزTeamspiderzمبینہ طور پر ہیک کیے گئے القرض الحسن کے اکاؤنٹس میں ان کے ورکرز کی تنخواہوں کی تفصیلات ہیں
اطلاعات کے مطابق دسمبر 2020 میں ’سپائیڈر زیڈ‘ نامی ایک گروپ نے القرض الحسن کے اکاؤنٹس ہیک کیے تھے، جہاں حساس معلومات کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ ان معلومات میں مبینہ قرض لینے والوں اور جمع کرنے والوں کی فہرستوں کے ساتھ ساتھ اس بینک کی شاخوں پر موجود سکیورٹی فوٹیج کی تفصیلات وغیرہ موجود تھیں۔
واشنگٹن میں قائم ’فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز‘ کا کہنا ہے کہ ہیک کی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ القرض الحسن چار لاکھ سے زیادہ اکاؤنٹس کو چلاتا ہے یا ان کا انتظام کرتا ہے اور ان اکاؤنٹس میں سے کئی کا تعلق حزب اللہ اور ایران سے ہے۔
’فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز‘ کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی حکومت سے عطیات نہیں لیتے اور خود کو غیر جانبدار قرار دیتے ہیں۔ تاہم وہ ایران اور حزب اللہ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
'ولی الفقیہ' نامی ایک اکاؤنٹ مبینہ طور پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر سے تعلق رکھتا ہے۔ ’فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز‘ کے مطابق خامنہ ای سے منسلک ادارہ جیسا کہ ’شہدا فاؤنڈیشن‘ کا ایک اکاؤنٹ بھی القرض الحسن میں موجود ہے۔
EPA
القرض الحسن نے سنہ 2020 میں اپنے اکاؤنٹس کی ’محدود‘ ہیکنگ کے واقعے کی تصدیق کی تھی تاہم اس تنظیم کا کہنا تھا کہ ہیکنگ کے بعد سامنے آنے والی سرگرمیوں اور اس تنظیم کے صارفین کی شناخت سے متعلق دعوؤں سے اختلاف کیا تھا۔
بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں القرض الحسن نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ آیا وہ خامنہ ای سے منسلک اکاؤنٹس کا انتظام سنبھالتے ہیں یا یا نہیں۔
تاہم ان کی جانب سے یہ ضرور بتایا گیا کہ اُن کے لبنانی گروپ ’شہدا فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں کیونکہ یہ فاؤنڈیشن حزب اللہ کے سماجی خدمات کے اداروں کا حصہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ بیرونی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات نہیں کرتے اور نہ ہی انھیں بیرون ملک سے ترسیلات زر یا فنڈز وصول ہوتے ہیں۔
اپنے بیان میں القرض الحسن کا مزید کہنا تھا کہ لبنان کا کوئی بھی باشندہ اس کی جانب سے فراہم کردہ قرضوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسی طرح کوئی بھی رہائشی خیراتی اور مذہبی مقاصد کے لیے اُن کے بینک میں اکاؤنٹ کھول سکتا ہے اور فنڈز جمع کروا سکتا ہے۔
افریقہ میں رابطے
’ایف ڈی ڈی‘ کے مطابق سنہ 2020 میں ہیک کی گئی دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ القرض الحسن نے لبنان سے باہر افریقہ اور جنوبی امریکہ میں مقیم افراد کے اکاؤنٹس بھی کھول رکھے تھے۔
’واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئرایسٹ پالیسی‘ سے منسلک غدر کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے بہت سے افریقی ممالک میں بہت سے کاروباری شراکت دار ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’وہ ہیروں اور فنون لطیفہ کے کاروبار سمیت ہر طرح کی صنعتوں کا حصہ ہیں۔‘
سنہ 2019 میں امریکی محکمہ خزانہ نے آرٹ کلکٹر نجم سعید احمد پر یہ الزام لگاتے ہوئے پابندی عائد کی تھی کہ وہ حزب اللہ کو سب سے زیادہ عطیہ دینے والے افراد میں ایک ہیں۔
US Department of Justiceنجم سعید احمد
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ احمد کا ہیروں کی غیرقانونی تجارت سے بھی تعلق ہے۔ اس وقت احمد کہاں ہیں یہ معلوم نہیں ہے۔
لاطینی امریکہ میں رابطے
حزب اللہ پر لاطینی امریکہ میں منشیات کی سمگلنگ سے پیسہ کمانے کا بھی الزام ہے۔
اقوام متحدہ کے تھنک ٹینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 میں وینزویلا میں ہونے والی تحقیقات میں مبینہ طور پر کروڑوں ڈالر کی منشیات کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے ایک منصوبے کا انکشاف ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق حزب اللہ کے اس منصوبے کے کولمبیا، ایف اے آر سی عسکریت پسند گروپ اور وینزویلا کے کارٹل کے ساتھ کنکشن تھا۔
Reuters اقوام متحدہ کے ایک تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے کولمبیا کے باغی گروپ FARC سے تعلقات تھے
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حزب اللہ نے ارجنٹائن، برازیل اور پیراگوئے کے سرحدی علاقوں میں اپنے قدم مضبوط کیے ہیں۔
گذشتہ چند دہائیوں کے دوران امریکی محکمہ خزانہ نے حزب اللہ کے عالمی مالیاتی نیٹ ورکس کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے ان ممالک میں مقیم متعدد افراد اور کاروباری اداروں پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔
سنہ 2023 میں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنے والے لبنانی تاجر حسن موکل کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس طرح کی پابندیاں سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اصل مقصد حزب اللہ کی معاشی بنیاد کو غیر مستحکم کرنا اور خطے میں امریکی حمایت یافتہ معاشی ماڈل کے کسی بھی متبادل کو روکنا ہے۔‘
معاہدے، سمگلنگ اور کرپٹو
اطلاعات کے مطابق حزب اللہ نے کئی دوسرے طریقوں سے بھی فنڈز حاصل کیے ہیں۔
مصنف لیویٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ گروپ لبنان میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور دیگر خدمات کے شعبوں کے ذریعے بہت زیادہ رقم کمانے میں کامیاب رہا ہے۔‘
سنہ 2021 میں لندن میں قائم چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق حزب اللہ لبنان میں کمزور مالی اعانت اور عوامی معاہدوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
کہا گیا ہے کہ حزب اللہ عوامی معاہدوں کے لیے بولی لگانے اور جیتنے کے لیے اس سے وابستہ نجی کمپنیوں کو استعمال کرتی ہے۔
اسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حزب اللہ نے شام کے سابق صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے سے قبل تک شام کے ساتھ سرحد کے پار ڈیزل اور ایندھن کی سمگلنگ کر کے ہر ماہ تقریباً 300 ملین ڈالر کمائے تھے۔
EPA’غریب آدمی کی کوکین‘ کہلانے والی کیپٹاگون لبنان کی سرحد سے متصل شام میں بڑی مقدار میں تیار کی جاتی ہے
سنہ 2023 میں بی بی سی کی ایک تحقیق میں اس گروپ کا تعلق اربوں ڈالر کی غیر قانونی کیپٹاگون منشیات کی سمگلنگ سے بتایا تھا۔
دو سال قبل حزب اللہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیپٹاگون نامی منشیات کی تیاری میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ حزب اللہ نے اسے ایک جھوٹی خبر قرار دیا تھا۔
Getty Imagesاسرائیل کے انسداد دہشت گردی فنانسنگ بیورو نے تقریباً 17 لاکھ ڈالر مالیت کی ’ٹرون‘ کرپٹو کرنسی ضبط کی
جون 2023 میں اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے حزب اللہ سے مبینہ طور پر منسلک کرپٹو کرنسیوں کو پہلی بار ضبط کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کے متعلقہ ادارے نے تقریباً 17 لاکھ ڈالر مالیت کی ٹرون کرپٹو کرنسی ضبط کی تھی جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس کا تعلق حزب اللہ اور ایران کی قدس فورس سے ہے۔
نومبر 2023 میں روئٹرز نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ’ٹرون‘ کے ترجمان ہیورڈ وانگ کے حوالے سے بتایا تھا کہ تمام ٹیکنالوجیز کو اصولی طور پر مشکوک سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وانگ نے امریکی ڈالر کی مثال دی جو کہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹرون کا اپنی ٹیکنالوجی استعمال کرنے والوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اسرائیل کی جانب سے شناخت کیے گئے گروپوں سے کوئی تعلق ہے۔
ایک سال بعد امریکی محکمہ خزانہ نے لبنان کے ایک منی ایکسچینجر پر پابندی عائد کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ حزب اللہ کو ایرانی تیل کی فروخت سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے ڈیجیٹل والٹ فراہم کر رہا ہے۔
حزب اللہ نے اس آرٹیکل پر تبصرے کرنے کے لیے بی بی نیوز عربی کی جانب سے بھیجی گئی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
حماس کو اپنے 50 ہزار ملازمین اور اپنے خرچ کے لیے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں؟’محمد زندہ ہیں‘: حزب اللہ کا جنگجو تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے پانچ ماہ بعد کیسے زندہ برآمد ہوا؟ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کا انبار: حزب اللہ کی بقا کا سوال جس کا جواب ’صرف ایران کے پاس ہے‘اسرائیل کی دفاعی امداد روکنے کی دھمکی کیا ٹوٹتے وعدوں پر امریکہ کے غصے کا اظہار ہے؟