روایت شکن ڈونلڈ ٹرمپ 2025 کو تاریخی سال بنانے کی راہ پر کیسے گامزن ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

EPA

تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو کبھی کبھار ایسے ادوار یا سال آتے ہیں جن کے دوران رونما ہونی والی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کے بنیادی خدوخال بدل جاتے ہیں۔

تاریخی طور پر سنہ 1968 وہ سال تھا جب دُنیا میں متعدد پریشان کُن واقعات رونما ہوئے جیسا کہ چیکوسلواکیہ پر سوویت یونین کا حملہ، پھر پیرس فسادات اور اُس کے بعد امریکہ میں ویتنام جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہرے۔

یا اگر سنہ 1989 کی بات کی جائے تو اُس سال بھی دُنیا نے تشدد کی ایک نئی اور انتہائی پریشان کُن لہر کا سامنا کیا جب چین میں ’تیانمن قتل عام‘ کے نتیجے میں سینکڑوں مظاہرین پر تشدد ہوا، پھر دیوار برلن کا انہدام اور سوویت سلطنت کا خاتمہ بھی اِسی سال میں ہوا تھا۔

یہ تمام واقعات میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھے۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ سنہ 2025 کے ابتدائی سات ہفتے ہی ہمیں بہت کُچھ سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں ہونے والے فیصلے ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اس سال کا ذکر بھی تاریخ میں ضرور کیا جائے گیا۔

اور اِس کی بنیادی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔

Getty Images1968 میں امریکہ میں ویتنام جنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے دوران امریکہ میں 13 صدرو آئے ہیں۔ ان 13 امریکی صدور میں سے ہر ایک نے امریکہ کے اِن اہم جغرافیائی سیاسی اصولوں پر کچھ نہ کچھ توجہ ضرور دی کہ امریکہ کی اپنی سلامتی کا انحصار یورپی ممالک کو روس سے اور ایشیا کے غیر کمیونسٹ ممالک کو چین سے بچانے پر ہے۔

مگر اب اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے اس نقطہ نظر اور اہم جغرافیائی سیاسی اصول کو ترک کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مفادات کو ہر چیز پر ترجیح دیں گے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کو ٹرمپ کی اس پالیسی کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟

Getty Images1989 میں دیوار برلن کے انہدام کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا

اور درحقیقت یہ سب کچھ امریکہ کے دوست اور اتحادی ممالک، خاص کر یورپی ممالک، کے لیے بھی مشکل صورتحال ہے۔ اور اس مشکل صورتحال کو ٹرمپ کی اپنی شخصیت نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جدید دور میں کسی بھی امریکی صدر، حتیٰ کہ رچرڈ نکسن نے بھی، اپنی ذاتی خصوصیات اور شخصیت کو ٹرمپ کی طرح امریکہ کی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا تھا۔

ایک ریٹائرڈ امریکی سفارتکار نے فرانس کے خود ساختہ سن کنگ کا حوالہ دیتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ’وہ بالکل لوئس 14 کی طرح ہیں۔‘

ٹرمپ کے اس طرح کے ناقدین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ ایک حیرت انگیز اور حیران کر دینے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ نتیجتاً ان کے ارد گرد موجود افراد اور اُن کی حکومت اور انتظامیہ کے قریبی لوگ جیسا کہ ایلون مسک اور جے ڈی وینس شاید یہ سوچتے ہیں کہ اُن کے عہدے جاری رہنے کا انحصار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ وہ ٹرمپ کی کتنی تعریف کرتے ہیں اور اُن کے خیالات کی کتنی حمایت کرتے ہیں۔

ریاض کے بند کمرے کی غیرمعمولی تصویر اور وہ ’سفارتی دھماکہ‘ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاپوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیںپوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیاشوہر سے 50 منٹ ’ملاقات‘ کے لیے 50 گھنٹے سفر: وہ خواتین جنھیں اپنی شادی بچانے کے لیے میدان جنگ کا رُخ کرنا پڑتا ہے

جب صدر ٹرمپ بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کرپٹ یعنی بدعنوان ہیں تو ایلون مسک اُن کی اِسی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’زیلنسکی کو یوکرین کے عوام حقیر سمجھتے ہیں اور وہ یوکرینی فوجیوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں شاید آج کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ٹرمپ کو یہ رائے دے کہ ’جنابِ صدر، شاید آپ کو اس بیان سے پیچھے ہٹنے پر غور کرنا چاہیے یا ایسی بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔‘

ٹرمپ کے بطور صدر گزشتہ دور کو دیکھتے ہوئے ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ ٹرمپ کے ارد گرد موجود ہر شخص جانتا ہے کہ وہ (صدر ٹرمپ) اختلاف رائے سے کتنی نفرت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے ووٹرز صدق دل سے اُن کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں۔

Getty Imagesصدر ٹرمپ بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی بدعنوان ہیں

انھوں نے ’ایسٹر‘ کے تہوار تک یوکرین کی جنگ کو روکنے کا عہد کیا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ صدر ولادیمیر پوتن جنگ کے خاتمے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ بالکل درست ہیں۔ یوکرین کے مشرقی حصے میں موجود روسی افواج آہستہ آہستہ واپس پسپا ہو رہی ہیں۔ یہاں روسیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور اگر یہ عمل جاری رہا تو روس کو اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں پوتن کی حکومت بھی غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔

امن قائم کرنے کے لیے اس وقت ٹرمپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ روس کو اپنے حق میں بہتر لگ رہا ہے۔

ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت کے دوران قومی سلامتی کے مشیر رہنے والے جان بولٹن نے گذشتہ روز کہا تھا کہ جب انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے امن منصوبے کے بارے میں سُنا تو کریملن میں جشن کا سماں تھا، یہ یقینی طور پر ایک تاریخی لمحے کی طرح محسوس ہوا نہ صرف ماسکو میں بلکہ دنیا بھر میں۔

پوتن نے واضح طور پر اس خیال کی بھی حمایت کی ہے کہ ٹرمپ واقعی 2020 کے انتخابات جیت گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سچ نہ ہو لیکن صدر پوتن جانتے ہیں کہ ٹرمپ ہر اس شخص کی حمایت کرتے ہیں جو ان کے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے۔

مگر ٹرمپ اور ان کے ارد گرد کے لوگ یوکرین کے صدر زیلنسکی کے اتنے سخت خلاف کیوں ہیں؟ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ وہ وہ کام نہیں کر رہے جو انھوں نے کہا تھا جیسا کہ مذاکرات کی میز پر واپس آنا اور یوکرین کی اہم معدنیات تک امریکی رسائی کے حوالے سے امریکہ سے معاہدہ کرنا۔

اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ زیلنسکی امریکہ، روس اور یوکرین کی تینوں کڑیوں میں سب سے کمزور کڑی ہیں اور انھیں اس طرح دبایا جا سکتا ہے: یعنی زیلنسکی پر جتنا زیادہ دباؤ ڈالا جائے گا اتنا ہی جلد امن معاہدہ ہو جائے گا۔

Getty Imagesروس کی شرائط پر یوکرین میں امن قائم کرنا امریکہ کے لیے بالکل نئی بات ہو گی

صدر ٹرمپ کم از کم عوامی سطح پر کبھی بھی کسی معاہدے کی تفصیلات میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ اُن کے لیے اہمیت کا حامل ہے، بھلے ہی یوکرین اور اُس کے اتحادیوں کا خیال ہو کہ یہ واضح طور پر غیر منصفانہ ہے اور اس سے روس کی جانب سے مستقبل میں دوبارہ جنگ شروع کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

ایسے برطانوی اور جرمن سفارتکار جنھیں میں جانتا ہوں وہ ٹرمپ کی جانب سے روس کو مذاکرات کی میز پر لانے کے طریقہ کار پر مشتعل ہیں۔ اُن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’اُن کے ہاتھ میں دو اہم کارڈز تھے۔‘ پہلا کارڈ روس کی تنہائی تھی۔ پوتن نے امریکہ کے ساتھ بات چیت میں خود کو شامل کرنے کے لیے بہت سی رعایتیں دی ہوں گی اور ایسا نہیں کہ صرف ٹرمپ نے ہی کسی رعایت پر اصرار کیا ہو گا۔ انھوں نے تو بس انھیں سامنے آنے اور بات کرنے کا ایک موقع دیا ہے۔

سفارت کار کا کہنا تھا کہ دوسرا کارڈ یا وجہ اس بات پر زور دینا تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔ ٹرمپ اس بارے میں بات کر سکتے تھے اور پوتن سے ہر قسم کے معاہدوں پر دستخط لے سکتے تھے۔ یورپی مُمالک میں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی بغیر کسی پیشگی شرط کے اپنے دونوں کارڈز کا استعمال کر لیا ہے۔

تاہم امریکی سیاست کا تجربہ رکھنے والے کچھ یورپی سفارتکار اپنی حکومتوں بتا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے اس ’عظیم الشان بادشاہت کے دور‘ میں ان کی بات کو ٹال دینے والے مشیر اپنی جگہ کھو دیں گے۔

ٹرمپ کے پاس اس وقت کانگریس اور قدامت پسند سپریم کورٹ کا کنٹرول ہے لیکن صرف 20 ماہ کے اندر نومبر 2026 میں امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہوں گے۔

Getty Imagesصدر ٹرمپ کم از کم عوامی سطح پر کبھی بھی کسی معاہدے کی تفصیلات میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کرتے ہیں

ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکہ میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور ٹرمپ کے موجودہ دور میں ابھی سے لوگوں میں بے چینی پائی جانے لگی ہے۔

اگر وہ ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول کھو دیتے ہیں تو اس وقت اُن کے پاس ہر منصوبے اور پالیسی کو آگے بڑھانے کی طاقت، چاہے وہ کتنی ہی متنازع کیوں نہ ہو، کم ہو جائے گی۔

لیکن اگلے سال اور آٹھ مہینوں میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کی توسیع پسندانہ عزائم یعنی بڑے سے بڑے علاقے پر حکومت کرنے کی خواہش، چین کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین سیاسی اور معاشی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو جائے گی۔

روس کی شرائط پر یوکرین میں امن قائم کرنا امریکہ کے لیے بالکل نئی بات ہو گی۔ سنہ 1945 کے بعد سے ہونے والے مذاکرات کی اکثریتی نشستوں میں روس کو امریکہ کی معاشی اور فوجی طاقت کی وجہ سے اپنا راستہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اب صدر پوتن، جنھوں نے تین سال قبل یوکرین پر حملہ کرنے کا مہنگا اور مُشکل فیصلہ کیا تھا، اس سے چھٹکارا حاصل کرنے اور خوشحال ہونے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو 2025 کو واقعی تاریحی طور پر یاد رکھا جائے گا اور یہ بھی ایک ایسا وقت ہو گا کہ جب دنیا کی تاریخ بدل جائے گی اور کچھ بھی دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہو گا۔

پوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیںریاض کے بند کمرے کی غیرمعمولی تصویر اور وہ ’سفارتی دھماکہ‘ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاپوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیایوکرین کو جوہری ہتھیار تلف کرنے پر پچھتاوا: ’ہم نادان تھے جو ان پر اعتبار کر بیٹھے‘یوکرین کے صدر روس کے خلاف ’یورپ کی فوج‘ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟شوہر سے 50 منٹ ’ملاقات‘ کے لیے 50 گھنٹے سفر: وہ خواتین جنھیں اپنی شادی بچانے کے لیے میدان جنگ کا رُخ کرنا پڑتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More