Getty Imagesفائل فوٹو
گذشتہ چند سالوں کے دوران برطانیہ میں ’گرومنگ گینگز‘ خبروں پر چھائے ہوئے ہیں اور ہر کچھ ماہ کے بعد ان گروہوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر منظرِ عام پر آ جاتی ہے تاہم ان خبروں کی وجہ سے ایک ایسا تاثر تقویت پکڑ چکا ہے جو برطانیہ میں موجود پاکستانی نژاد کمیونٹی کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔
ماضی میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے وہاں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی کو گرومنگ گینگز سے جوڑ کر ایک مخصوص بیانیے کا سامنا ہے، جس میں پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کو مسئلے کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
گرومنگ گینگز سے مراد وہ گروہ ہیں جو دھوکے، زبردستی اور جذباتی لگاؤ کے ذریعے کم عمر بچوں کے جنسی استحصال اور ریپ جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کا کہنا ہے کہ اس الزام کی وجہ سے پوری پاکستانی کمیونٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن اگر اس مسئلے کو ذرا قریب سے دیکھیں تو حقائق کچھ اور ہیں۔
اعداد و شمار اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گرومنگ گینگز کا مسئلہ صرف پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں سے نہیں جڑا ہوا بلکہ 2023 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بچوں سے ریپکرنے والے گروپس میں سے 83 فیصد ملزمان سفید فام تھے۔
سنہ 2025 میں ایلون مسک کی گرومنگ گینگز سے جڑی ٹویٹس کے بعد یہ سمجھنے کے لیے کہ برطانیہ میں مقیمپاکستانی کمیونٹی ایک بار پھر کس طرح متاثر ہو رہی ہے، بی بی سی نے ان قصبوں اور شہروں کا رخ کیا جہاں یہ سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے چل رہا ہے۔
BBCروچڈیل کے رہائشی امتیاز احمد کہتے ہیں کہ ’قصور ہمارا بھی ہے ہم اپنا دفاع کرنے کے بجائے شرمندہ ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں‘گرومنگ گینگز سے منسلک کا مسئلہ شروع کب ہوا؟
یہ سب برطانیہ کے علاقوں روچڈیل، رودرہیم اور ٹیلفورڈ کے تین انتہائی بدنام زمانہ گرومنگ گینگ کیسز کے آغاز سے شروع ہوا۔
ایک حکومتی جائزہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ روچڈیل میں کم عمر لڑکیاں ایک طویل عرصے تک بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے گرومنگ گینگ کے رحم و کرم پر تھیں کیونکہ پولیس کے سینیئر افسران اس کی کھوج لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔
اس سے پہلے برطانیہ کے شہر لیورپول کی کراؤن کورٹ نے سنہ 2012 میں روچڈیل سے تعلق رکھنے والے نو افراد کے گروہ کو کم عمر لڑکیوں سے جنسی فعل کرنے کے جرم میں انھیں چار سے 19 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ان افراد پر الزام تھا کہ انھوں نے کم عمر لڑکیوں کو اس کام کے لیے تیار کیا۔ وہ ان کم عمر لڑکیوں کو شراب اور منشیات مہیا کرتے تھے اور پھر انھیں ہوس مٹانے کے لیے نہ صرف خود استعمال کرتے بلکہ ان لڑکیوں کو بطور تحفہ دوسرے افراد کو بھی پیش کرتے تھے۔
اس کے بعد ان کیسز میں سے ایک میں روچڈیل کے ایک گرومنگ گینگ سے منسلک پانچ افراد کو دو نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ’گھناؤنا استحصال‘ کرنے پر 2023 میں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان میں چار پاکستانی نژاد افراد بھی شامل تھے۔
ان لڑکیوں کو شراب، بھنگ اور ایکسٹسی کی گولیاں دے کر مدہوش کیا جاتا اور پھر ان پر جنسی تشدد کیا جاتا۔ ان لڑکیوں کو گاڑیوں، پبلک پارکس اور روچڈیل کے فلیٹس اور گھروں میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم 2023 کے آغاز میں برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے بار بار ایسے بیانات دیے تھے کہ ملک میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔
جس کے بعد برطانیہ میں درجنوں مسلم تنظیموں نے رشی سونک کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر داخلہ کا بیان 'نسل پرستی پر مبنی اور سماج کو منقسم کرنے والا ہے۔'
2023 میں برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ 'گرومنگ گینگز' کے متاثرین کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔
حکومت نے گرومنگ گینگز کے موضوع پر مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے کی یقین دہانی کروائی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مشتبہ افراد انصاف سے بچنے کے راستے کے طور پر ’ثقافتی یا نسلی حساسیت کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔‘
تازہ اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟
نیشنل پولیس چیف کونسل (این پی سی سی) کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 میں گروپس کے طور پر آپریٹ کرنے والے ریپ کے تمام مشتبہ افراد میں سے 83 فیصد سفید فام تھے۔
یہاں یہ بات بتانا اہم ہے کہ یہ اعداد و شمار محدود ہیں کیونکہ 2023 میں صرف 34 فیصد مجرمان نے اپنی نسلی معلومات درج کی تھیں۔
نیشنل پولیس چیف کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جنوری 2023 میں کوکاڈ ڈیٹا سیٹ کے تعارف نے پہلی بار ہمیں گروپ کی بنیاد پر بچوں کے جنسی استحصال اور استحصال کی نوعیت اور پیمانے کو سمجھنےمیں مدد دی ہے۔نتائج ان خطرات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو پہلے نامعلوم تھے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ ان سے مؤثر طریقے سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔
’اگرچہ بچوں کے جنسی استحصال اور استحصال کے جرائم میں گروہوں کے جرائم کی بہت کم تعداد پولیس کو رپورٹ کی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جرائم کی نوعیت کے نتیجے میں متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کو ہونے والے نقصان کو دیکھتے ہوئے یہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔‘
نیشنل پولیس چیف کونسل کی رپوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجرموں کا تعاقب ہمیشہ پولیس کی ترجیح رہے گی۔ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام گروہوں کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے بارے میں حقائق کو سمجھیں اور اس بات کو تسلیم کریں کہ یہ بہت سی جگہوں پر اور بہت سی برادریوں میں ہوتا ہے۔‘
یہ ڈیٹا ہونے کے باوجود کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں ایک غلط تاثر قائم ہو گیا ہے جو مسلسل متعصبانہ رویّوں کو ہوا دے رہا ہے۔
برطانیہ میں سیکس گرومنگ: الزام صرف برطانوی پاکستانیوں پر کیوں؟روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟Getty Images'مسئلہ کسی ایک نسل کا نہیں'
ڈیٹا بھی یہی ظاہر کرتا ہے اور ماہرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ یہ ایک نسل پر مبنی مسئلہ ہے ہی نہیں اور گرومنگ گینگز کے مسئلے کو نسل سے جوڑنا نہ صرف غلط ہے بلکہ خطرناک بھی کیونکہ اس سے نہ صرف متعصبانہ رویّوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کئی لوگ اور تنظیمیں اسے اپنے نقصان دہ ایجنڈوں اور مقاصد کے لیے استعمال بھی کرتی ہیں۔
برطانیہ کے علاقے روچڈیل کے رہائشی امتیاز احمد جو کمرشل پراپرٹی کا کام کرتے ہیں نے اس سارے سکینڈل کے ایک بار پھر زیرِ بحث آنے اور پاکستانیوں کے لیے پیدا ہونے والے مشکلات کے بارے میں بی بی سی سے بات کی۔
امتیاز احمد برطانیہ میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایلون مسک کی ٹویٹس کے بعد پاکستانیوں کی سوشل میڈیا پر بدنامی کے پیچھے ایک مقصد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بار پاکستانیوں کو بلا وجہ قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب سیاسی مقاصد کا حصہ ہے۔‘
انھوں نے کہا ’یہ بدنامی بہت بڑی ہے۔ 15 سال پہلے کی بدنامی تو تھی ہی لیکن اس بات کو دوبارہ اٹھایا گیا اور بڑے پیمانے پر اچھالا گیا۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ یہ ہماری پاکستانی کمیونٹی کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہم سب جنسی حملہ آور ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے یہ بدنامی ہٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کمیونٹی کا دفاع کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے کیسز کی وجہ سے’ہم آج بھی شرمندہ ہیں۔ ہم بہت محنتی ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں۔ قصور ہمارا بھی ہے ہم اپنا دفاع کرنے کے بجائے شرمندہ ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں اپنا دفاعنہیں کر رہے تو یہ قصور وار ہیں۔ حالیہ رپوٹس نے ثابت کیا ہے کہ یہ مسلمانوں کا یا پاکستانیوں کا نہیں بلکہ وسیع تر سماجی مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گرومنگ کیسز کے حوالے سے پاکستانی کمیونٹی کو بدنام کیے جانے سے فوری اور دیرپا دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔
’ایک تو منھ پر بُرا بھلا کہہ دیا جاتا ہے۔ ہمیں بظاہر تو برا بھلا نہیں کہا جاتا لیکن اب ہمیں اپنے گاہکوں کو قائل کرنا پڑتا ہے، اپنی دیانتداری ثابت کرنا پڑتی ہے۔ کاروبار کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔‘
BBCغلام احمد کہتے ہیں 'میں جب ڈرائیو کرتا ہوں تو سڑکوں پر لوگ کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس سب کا اثر تو ہوتا ہے'
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد محمد ندیم الطاف کے لیے بھی یہ بدنامی مشکلات لے کر آئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب گروومنگ کا معاملہ شروع ہوا۔ تو یہ ہم سب کے لیے بہت شاکنگ تھا۔ ہمارے خاندان بہت متاثر ہوئے۔ برطانوی دوستوں کا رویّہ بدل گیا، وہ ہم سے کترانے لگے۔‘
نئی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ دوبارہ جب سے ابھرا ہے۔ ہمارے بچے جو بڑے ہو گئے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمیں کیوں الزام دیا جا رہا ہے۔‘
’میں جب ڈرائیو کرتا ہوں تو سڑکوں پر لوگ کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس سب کا اثر تو ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب اس کا سدِ باب ہونا چاہیے۔
ندیم الطاف کا کہنا تھا کہ ’ہمارے سیاستدانوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو بات کرنی چاہیے کہ یہ ہم نہیں ہیں۔ چند لوگوں کی وجہ سے ہمیں ٹارگٹ نہ کریں۔ ہر چند سالوں بعد یہ مسئلہ اجاگر ہو جاتا ہے اور ہمیں شرمندہ کیا جاتا ہے۔ پولیس، کونسل اور متعلقہ اداروں کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ اور یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔‘
وہ بھی محض چند کیسز کی وجہ سے پوری پاکستانی کمیونٹی کو نشانہ بنائے جانے پر نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا تھا جو بمشکل وقت کے ساتھ ساتھ نارمل ہوا تھا۔ اب ڈر ہے کہ پھر سے رویوں میں تبدیلی نہ آ جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’برے لوگ کسی بھی کمیونٹی میں ہو سکتے ہیں اس لیے کسی ایک نسل کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو سماجی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔'
غلام احمد برطانیہ میں ایک مقامی ویلفیئر سوسائٹی کے نمائندہ اور ٹیسکسی ڈرائیورہیں وہ کہتے ہیں کہ 'جرم کسی بھی کمیونٹی کا فرد کرے قابلِ مذمت ہے۔ان معاملات کی وجہ سے ہمارے بچوں کے لیے حالات اور رویے خراب ہو سکتے ہیں۔ کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔'
انھوں نے بتایا کہ کسی کا ذاتی فعل پوری کمیونٹی یا نسل کا ترجمان نہیں اور انھوں نے اپنے طور پر اس تاثر کو ایک بار زائل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایک بار ایک کسٹمر نے گرومنگ کو پاکستانی کلچر سے جوڑنے کی کوشش کی تو میں نے انھیں بتایا کہ یہ سب کرنے والے یہیں پلے بڑھے ہیں اور پاکستانی کلچر اس سے کہیں مختلف ہے۔‘
لیکن اس سکینڈل کے باعث ہونے والے اثرات جلد زائل ہوتے نظر نہیں آتے۔
بقول غلام احمد ’اب لوگ ٹیکسی بک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں ایشین نہیں چاہیے۔‘
روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟برطانیہ میں سیکس گرومنگ: الزام صرف برطانوی پاکستانیوں پر کیوں؟نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘’بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے زیادہ تر پاکستانی‘