’ہم ایسے جدا ہوئے جیسے تاریخی قدم اٹھانے والے ہوں‘: دنیا کی نظروں سے اوجھل رہنے والا وہ نقشہ جو مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا وعدہ لے کر آیا تھا

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

BBCایہود اولمرٹ نے 2008 میں دو ریاستی حل پیش کیا تھا

’آنے والے 50 برسوں میں آپ کو ایک بھی ایسا اسرائیلی رہنما نہیں ملے گا جو آپ کو وہ تجویز دے جو میں آپ کے سامنے ابھی پیش کر رہا ہوں۔‘

’اس پر دستخط کریں، اس پر دستخطکریں اور آئیں تاریخ بدل دیں۔‘

یہ سنہ 2008 کی بات ہے۔ اسرائیل کے اُس وقت کے وزیراعظم ایہود اولمرٹ ایک فلسطینی رہنما کو اُس معاہدے کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اس کی مدد سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

اس معاہدے میں دو ریاستی حل تجویز کیا گیا تھا جو ایک ایسی بات ہے جو آج کے دور میں ہوتی ناممکن نظر آتی ہے۔

اگر اس مجوزہ معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا تو اس کے تحت مقبوضہ غربِ اردن کے 94 فیصد سے زیادہ رقبے پر ایک فلسطینی ریاست قائم کی جانی تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم اولمرٹ نے اس ضمن میں جو نقشہ تیار کیا تھا وہ اب تقریباً اساطیری حیثیت رکھتا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران اس نقشے کی مختلف تشریحات سامنے آئی ہیں لیکن سابق وزیراعظم اولمرٹ نے کبھی میڈیا کے سامنے اسے پیش نہیں کیا۔

مطلب یہ کہ انھوں نے اب تک تو ایسا نہیں کیا تھا۔

BBCاولمرٹ کے منصوبے میں بیت المقدس کے پیچیدہ مسئلے کا مجوزہ حل بھی شامل تھا

تاہم 24 فروری کو آئی پلیئر پر ریلیز ہونے والی فلم ساز نورما پرسی کی دستاویزی فلم ’اِن اسرائیل اینڈ دی پیلسٹینئنز: دی روڈ ٹو سیونتھ اکتوبر‘ میں سابق وزیراعظم اولمرٹ نے پہلی مرتبہ یہ نقشہ دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 16 ستمبر 2008 کو بیت المقدس میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو یہ نقشہ دکھایا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے اس نقشے کو میڈیا کے سامنے لایا ہوں۔‘

اس نقشے میں تفصیل سے مغربی کنارے کا وہ 4.9 فیصد علاقہ دکھایا گیا ہے جس کے فلسطینی ریاست کے قیام کے عوض اسرائیل کے ساتھ الحاق کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

اس کے تحت یہودی آباد کاروں کے بڑے بلاکس قائم کرنے کی تجویز تھی۔

سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اس کے بدلے میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے اسرائیل کے ساتھ ملحقہ چند علاقوں کو چھوڑنا تھا۔

اس تجویز کے تحت دونوں فلسطینی علاقوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک سرنگ یا سڑک کے ذریعے جوڑا جانا تھا۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس پر ماضی میں بھی کئی بار بات ہو چکی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں اولمرٹ نے یہ بھی بتایا کہ ان کی اس تجویز پر فلسطینی رہنما محمود عباس نے کیسے ردِعمل دیا تھا۔

سابق اسرائیلی وزیراعظم کے مطابق انھوں نے کہا ’وزیراعظم، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ بہت، بہت، بہت سنجیدہ ہے۔‘

اہم بات یہ ہے کہ اولمرٹ کے منصوبے میں بیت المقدس کے پیچیدہ مسئلے کا مجوزہ حل بھی شامل تھا۔

اس منصوبے کے تحت ہر فریق شہر کے کسی بھی حصے کو اپنا اپنا دارالحکومت قرار دے سکتے تھے جبکہ غزہ کے مقدس علاقے، بشمول پرانا شہر، وہاں واقع مذہبی مقامات اور ان سے ملحقہ علاقوں کو اسرائیل، فلسطین، سعودی عرب، اُردن اور امریکہ کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کیا جانا تھا۔

یہودی بستیوں کے لیے اس نقشے کے مضمرات بہت زیادہ ہوتے۔

اگر اس منصوبے پر عمل درآمد ہوتا تو مغربی کنارے اور وادئِ اردن میں پھیلی ہوئی درجنوں کمیونٹیز کو نکال لیا جاتا۔

جب سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے چند ہزار یہودی آباد کاروں کو زبردستی نکالا تو اسے اسرائیلی دائیں بازو والوں نے ایک قومی صدمہ قرار دیا تھا۔

مغربی کنارے کے بیشتر علاقوں کو خالی کروانا ایک لامحدود چیلنج تھا جس میں دسیوں ہزاروں آباد کار شامل ہوتے جبکہ تشدد کا حقیقی خطرہ بھی موجود رہتا۔

لیکن امتحان کا یہ مرحلہ کبھی نہیں آیا۔

وہ گاؤں جو اسرائیل نے 200 مرتبہ تباہ کیا مگر آج بھی آباد ہےمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہاسرائیل کا قیام کیسے اور کیوں عمل میں آیا اور غزہ کے ساتھ اِس کے تنازع کی تاریخ کیا ہے؟غزہ کی تقسیم اور فلسطینی ریاست: مصر اور عرب دنیا کا منصوبہ جس کا دارومدار حماس کے مستقبل پر ہو گا

ملاقات کے اختتام پر اولمرٹ نے نقشے کی نقل محمود عباس کو دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اس کے لیے انھیں اس پر دستخط کرنا ہوں گے۔

اس پر عباس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ انھیں اپنے ماہرین کو نقشہ دکھانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ یقین کے ساتھ یہ سمجھ سکیں کہ یہ کیا پیشکش ہے۔

اولمرٹ کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے اگلے دن نقشوں کے ماہرین کے اجلاس پر اتفاق کیا۔ ان کے مطابق ’ہم ایسے جدا ہوئے جیسے ہم ایک تاریخی قدم اٹھانے والے ہوں۔‘

وہ اجلاس کبھی نہیں ہوا۔

صدر محمود عباس کے چیف آف سٹاف رفیق حسینی اس رات بیت المقدس سے نکلتے ہوئے گاڑی کا ماحول یاد کرتے ہیں۔

وہ فلم میں بتاتے ہیں ’یقیناً، ہم ہنسے‘۔

فلسطینیوں کا خیال تھا کہ یہ منصوبہ ناقابلِ عمل ہے۔ اولمرٹ، بدعنوانی کے سکینڈل میں پھنسنے کے بعد، پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ مستعفی ہونے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

حسینی کا کہنا ہے کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اولمرٹ، چاہے وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔۔۔ ان کے اقتدار کا آخری وقت آ چکا تھا اور اس لیے اس منصوبے کا کچھ بننے والا نہیں تھا۔‘

غزہ کی صورتحال نے بھی معاملات کو پیچیدہ بنا دیا۔ حماس کے زیر اثر علاقے سے کئی مہینوں کے راکٹ حملوں کے بعد، اولمرٹ نے دسمبر کے آخر میں ایک بڑے اسرائیلی حملے، آپریشن کاسٹ لیڈ کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں تین ہفتے تک شدید لڑائی جاری رہی۔

لیکن اولمرٹ نے مجھے بتایا کہ محمود عباس کے لیے معاہدے پر دستخط کرنا ’عقلمندانہ عمل‘ ہوتا۔ پھر، اگر مستقبل کے اسرائیلی وزیر اعظم اسے منسوخ کرنے کی کوشش کرتے تو ’وہ دنیا سے کہہ سکتے تھے کہ اس کی ناکامی کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔‘

BBCصدر محمود عباس کے چیف آف سٹاف رفیق حسینی کے مطابق فلسطینیوں کے خیال میں یہ منصوبہ ناقابلِ عمل تھا

اس کے بعد فروری میں اسرائیلی انتخابات ہوئے۔ لیکود پارٹی کے بنیامن نتن یاہو، جو فلسطینی ریاست کے کھلے مخالف تھے، وزیراعظم بن گئے۔

اولمرٹ کا منصوبہ اور نقشہ کہیں دور رہ گیا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی عباس کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن اس کے بعد سے ان کا منصوبہ اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کے ضائع ہو جانے والے مواقع کی ایک طویل فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

1973 میں، سابق اسرائیلی سفارت کار، ایبا ایبان نے طنز کیا کہ فلسطینی ’کبھی بھی موقع ضائع کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتے‘۔

یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے اسرائیلی حکام نے اس کے بعد آنے والے برسوں میں اکثر دہرایا ہے۔

لیکن دنیا اس سے زیادہ پیچیدہ ہے، خاص طور پر جب سے دونوں فریقوں نے 1993 میں تاریخی اوسلو معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے درمیان وائٹ ہاؤس کے لان میں مصافحے کے ذریعے جس امن عمل کا آغاز ہوا، اس میں حقیقی امید کے لمحات تھے مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی۔

وجوہات پیچیدہ ہیں اور ایک دوسرے پر عائد کرنے کے لیے کافی الزامات ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ اس عمل کے لیے صحیح طریقے سے کبھی صف بندی کی ہی نہیں گئی تھی۔

میں نے 24 سال پہلے پہلی بار اس غیر مناسب صف بندی کا مشاہدہ کیا تھا۔

جنوری 2001 میں، مصری تفریحی مقام تبا میں، اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں نے ایک بار پھر ایک معاہدے کا خاکہ دیکھا۔

فلسطینی وفد کے ایک رکن نے رومال پر ایک کھردرا نقشہ کھینچا اور مجھے بتایا کہ، وہ پہلی بار ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے کھردرے خاکے دیکھ رہے ہیں۔

لیکن یہ بات چیت غیر متعلقہ تھی جو مغربی کنارے اور غزہ کی ان سڑکوں پر تشدد کے باعث ختم ہو گئی، جہاں اس سے پہلے ستمبر میں دوسری فلسطینی بغاوت، یا ’انتفادہ‘ کا آغاز ہوا تھا۔

ایک بار پھر، اسرائیل میں سیاسی تبدیلی کا عمل جاری تھا۔ وزیراعظم ایہود باراک پہلے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔ ایریل شیرون نے انھیں چند ہفتوں بعد باآسانی شکست دی۔

آٹھ سال بعد اولمرٹ کے نقشے کی طرح نیپکن پر موجود نقشہ بتا رہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔

ٹرمپ کا غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ کا منصوبہ: ’یہ پلان کام نہیں کرے گا لیکن اس کوشش کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں‘ خفیہ ایجنٹس کی مخبری کے بعد ڈرون حملہ: جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا امریکی منصوبہ کیسے مکمل ہوا؟’قیدیوں کا سردار‘: اسرائیلی جیل میں 45 سال گزارنے والے نائل البرغوثی جنھیں رہا کیے جانے کا امکان ہےاہلام تمیمی کون ہیں اور امریکہ اُن کی حوالگی کے لیے اُردن پر کیوں دباؤ ڈالتا ہے؟فون کال، حماس کی حکمت عملی اور خصوصی ہیلی کاپٹر: اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا آپریشن جس میں ’کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘گولان: ’مقدس رومانس کی سرزمین‘ اور ’پناہ کا شہر‘ جس پر حکمرانی ہر سلطنت کا خواب رہا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More