مہاکمبھ: مقدس پانی میں نہانے والی خواتین کی ویڈیوز دو سے تین ہزار میں ٹیلیگرام پر فروخت، ’مذہبی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Feb 28, 2025

Getty Imagesمہا کمبھ میں نہانے والی خواتین کی ویڈیوز ٹیلی گرام پر فروخت ہو رہی ہیں

انڈیا میں مہا کمبھ کے دوران بڑی تعداد میں عقیدت مندوں نے سنگم میں غسل کیا جن میاں خواتین کی بھی کافی تعداد موجود تھی۔

حال ہی میں کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لڑکیوں اور خواتین کے نہانے اور کپڑے بدلنے کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئیں۔

ایسی ویڈیوزسماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، ایکس اور یوٹیوب پر دستیاب تھیں۔ یہی نہیں، یہ ویڈیوز کئی ٹیلی گرام چینلز پر فروخت ہو رہی تھیں۔

میڈیا رپورٹس میں یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے اس پر کارروائی کی اور کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

اس پورے معاملے نے ایک بار پھر آن لائن پلیٹ فارم پر خواتین کی پرائیویسی اور ان کی حفاظت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔

ادھر گجرات سے بھی ایک چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے۔

گجرات کے راجکوٹ کے ایک میٹرنٹی کلینک سے خواتین کی ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں اور ٹیلی گرام چینلز پر فروخت کی جا رہی تھیں۔

بی بی سی کے پاس دو ٹیلی گرام گروپس کے سکرین شارٹس بھی ہیں جن میں سی سی ٹی وی سے لی گئی خواتین کی تصاویر شیئر کی گئی ہیں۔

ان تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ مکمل ویڈیو کس سے خریدی جا سکتی ہے۔

ان ٹیلی گرام چینلز پر ناصرف مہا کمبھ بلکہ دیگر کئی مذہبی تہواروں کے دوران نہانے والی خواتین کی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کی گئیں۔

ویڈیوز دو ہزار سے تین ہزار روپے میں فروخت ہو رہی تھیںGetty Imagesمہا کمبھ میں نہانے والی خواتین کی ویڈیو ٹیلی گرام پر دو ہزار سے تین ہزار روپے میں فروخت ہو رہی تھیں۔

پولیس کے مطابق مہا کمبھ میں نہانے والی خواتین کی ویڈیوز سوشل میڈیا ایپ ٹیلی گرام پر فروخت کی جا رہی تھیں۔

یہ ویڈیوز فیس بک پر مہاکمبھ گنگا سنا پریاگراج کے عنوان کے ساتھ اپ لوڈ کی گئی تھیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ویڈیوز دو ہزار سے تین ہزار روپے میں فروخت ہو رہی تھیں۔

خواتین کے ویڈیو بیچنے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اتر پردیش پولیس نے اس معاملے میں کارروائی کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق یوپی پولیس نے کہا ہے کہ اس معاملے میں انھوں نے انسٹاگرام اکاؤنٹس اور کچھ ٹیلی گرام چینلز کے خلاف کارروائی کی ہے۔

یوپی پولیس نے کہا ہے کہ ’یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب سوشل میڈیا مانیٹرنگ ٹیم نے دیکھا کہ مہا کمبھ میں خواتین کے نہانے اور کپڑے بدلنے کی ویڈیوز کچھ پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔ جو ان کی پرائیویسی اور وقار کی خلاف ورزی ہے۔

انڈیا میں مسلم خواتین کی جعلی نیلامی کے الزام میں ایک خاتون کی گرفتاریانڈیا میں مسلم خواتین کی زندگیاں متاثر کرنے والا ’بھگوا لو ٹریپ‘: ’انھوں نے الزام لگایا کہ میرا ہندو مردوں کے ساتھ رشتہ ہے‘’آپ کی تصاویر لیک ہو گئی ہیں‘: ٹیلی گرام پر ڈیپ فیک کی خفیہ دنیا جس نے خواتین اور بچوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیاسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘مذہبی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں

فروری میں اتر پردیش پولیس نے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کے خلاف بھی خاتون عقیدت مندوں کی ویڈیوز پوسٹ کرنے پر مقدمہ درج کیا۔ ایک اور معاملے میں 19 فروری کو کچھ ٹیلی گرام چینلز کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

دونوں معاملے پریاگ راج کے کمبھ میلہ کوتوالی پولیس سٹیشن میں درج کیے گئے ہیں۔

اتر پردیش پولیس نے اس معاملے پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مہا کمبھ میں نہانے والی خواتین عقیدت مندوں کی فحش ویڈیوز اپ لوڈ کرنے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی ویڈیوز بیچنے کی اطلاع ملنے پر فوری طور پر ایسے 17 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی اور کمبھ میلہ پولیس ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کر رہی ہے۔‘

بی بی سی نے کمبھ میں جانے والی خاتون سے بھی بات کی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ کمبھ میں نہانے والی خواتین کی تصاویر فروخت ہو رہی ہیں تو انھیں یہ بات بہت بری لگی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ عورت کی عزت کا سوال ہے، اگر نہانے کی ایسی تصویریں بازار میں بکتی ہیں تو اس سے خواتین کی بدنامی ہوتی ہے، یہ سب ایسی مذہبی تقریبات میں نہیں ہونا چاہیے، اگر ان جگہوں پر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہم دوسری جگہوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔‘

میٹرنٹی ہوم کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہیک کر لی گئی Getty Imagesگجرات کے راجکوٹ میں میٹرنٹی ہوم کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہیک کر لی گئی۔

گجرات کے راجکوٹ کے ایک کلینک میں چیک اپ کے لیے گئی خواتین مریضوں کی ویڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔ یہ ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی تھیں اور ٹیلی گرام پر فروخت کی جارہی تھیں۔

گجرات پولیس میں اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (سائبر کرائم) ہاردک ماکاڈیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ویڈیوز ایک میٹرنٹی ہوم کے سی سی ٹی وی کو ہیک کرکے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کی گئیں۔ ان ویڈیوز کی تفصیل میں ایک ٹیلی گرام چینل کا لنک شامل کیا گیا ہے۔‘

ہاردک ماکاڈیا نے یہ بھی بتایا کہ کسی نے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ایکس پر ٹیگ کیا تھا اور اس اکاؤنٹ کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی تھی۔

جب اس نے ویڈیو کی چھان بین کی تو اس نے مریض اور ڈاکٹر کو گجراتی میں بات کرتے دیکھا جس کے بعد ان کی ٹیم نے تمام معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہاس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ایک شخص کی تلاش جاری ہے۔ یہ سبھی ٹیلی گرام چینلز کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہیکنگ کے ذریعے تمام ویڈیوز کا گٹھ جوڑ بنایا تھا۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس معاملے میں دو ہیکرز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس نوعیت کے کیس پہلے بھی منظر عام پر آ چکے ہیںGetty Imagesبہت سے ماہرین نفسیات کے مطابق خواتین پر غلبہ حاصل کرنے کی مردوں کی سوچ کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور اس سے قبل بھی مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی جیسے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔

جولائی 2021 میں ’سلی ڈیلز‘ اور 2022 میں ’بلی بائی‘ نامی آن لائن بولی کے واقعات پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ یہ بولی اوپن سورس ایپ ’گٹ ہب‘ پر ہو رہی تھی۔

اس ایپ پر مسلم خواتین کی تصاویر کو ان کی اجازت کے بغیر تبدیل کرکے آن لائن پوسٹ کیا جارہا تھا۔

’سلی ڈیلز‘ کیس میں دہلی پولیس نے مدھیہ پردیش کے اندور سے 25 سالہ ویب ڈیزائنر اومکاریشور ٹھاکر کو گرفتار کیا تھا۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اومکاریشور ٹھاکر نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے یہ ایپ مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے بنائی تھی۔ ٹھاکر نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ ایکس پر ایک گروپ کا حصہ تھے جو مسلم خواتین کو ٹرول کرنے میں ملوث تھا۔

وہیں بلی بائی ایپ کیس میں ممبئی پولیس نے تین لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے دو لوگ اتراکھنڈ کے تھے اور ایک نوجوان کو بنگلورو سے حراست میں لیا گیا تھا۔

لیکن مارچ 2022 میں ان دونوں معاملوں میں ملوث ملزمان کو دہلی کی ایک عدالت سے انسانی بنیادوں پر ضمانت مل گئی۔

’کہیں نہ کہیں ایسے واقعات کی وجہ صرف پیسہ کمانا ہے‘

ہا کمبھ اور گجرات کے واقعات نے کئی سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔

سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر نمیش جی نےبی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئےکہا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صنفی کردار معاشرے میں اپنی جڑیں زیادہ مضبوطی سے پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے عورتوں پر غلبہ پانے والے مردوں کی سوچ کو حوصلہ مل رہا ہے۔‘

’ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ آسانی سے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ایسے واقعات کی وجہ صرف پیسہ کمانا ہے۔‘

ڈاکٹر دیسائی نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے جرائم کے لیے کوئی سخت قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف نہیں ہے۔

اس معاملے پر ماہر نفسیات کرشمہ مہرا کا کہنا تھا کہ ’معاشرے میں عورت کو ایک شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس ذہنیت کے ساتھ مرد خواتین کے ساتھ اپنے برتاؤ کو درست سمجھتے ہیں اور معاشرے میں مردوں کے اس رویے کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کئی بار خواتین کو مردوں کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مرد خواتین کے تئیں حساسیت پیدا نہیں کر پاتے ہیں۔‘

سابق سی آئی اے افسر کو 30 برس قید کی سزا: ’ریمنڈ خواتین کو اپنی سرکاری رہائش گاہ پر جھانسہ دے کر بلاتے‘انڈیا میں مسلم خواتین کی جعلی نیلامی کے الزام میں ایک خاتون کی گرفتاریمنی پور: خواتین کی برہنہ پریڈ کے واقعے کے چار ملزمان گرفتار، وزیراعلیٰ کا مجرمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ’آپ کی تصاویر لیک ہو گئی ہیں‘: ٹیلی گرام پر ڈیپ فیک کی خفیہ دنیا جس نے خواتین اور بچوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیاانڈیا میں مسلم خواتین کی زندگیاں متاثر کرنے والا ’بھگوا لو ٹریپ‘: ’انھوں نے الزام لگایا کہ میرا ہندو مردوں کے ساتھ رشتہ ہے‘’اپنی تصویر کے ساتھ ’برائے فروخت‘ لکھا دیکھ کر میں پریشان ہو گئی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More