انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک 60 سالہ شخص تامل ناڈو میں گذشتہ 20 سال سے جبری مشقت پر کام کر رہے تھے۔
ان کی جبری مشقت اور اسیری کی یہ داستان آج سے 20 برس قبل اس وقت شروع ہوئی جب وہ سفر کے دوران چائے پینے کے لیے ٹرین سے اترے تھے۔
تاہم اب انھیں 20 سال بعد تلاش کر کے جبری مشقت اور اسیری سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ مگر اس سب میں ان کی دل دہلا دینے والی کہانی سامنے آئی ہے۔
اپا راؤ، جو آندھرا پردیش کے رہنے والے ہیں گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سیوا گنگا ضلع کے علاقے میں بنا کسی اجرت کے بکریوں کے چرواہے کا کام کر رہے تھے۔
اپا راؤ تقریباً 20 سال پہلے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پڈوچیری (اس وقت پانڈیچیری) جا رہے تھے۔ وہ چائے پینے کے لیے ایک سٹیشن پر ٹرین سے اترے۔ ٹرین ان کے واپس آنے سے پہلے ہی روانہ ہو چکی تھی۔ اور یوں وہ وہیں رہ گئے۔
ٹرین کا چھوٹ جانا ان کے زندگی کا بدقسمت ترین واقعہ بن گیا اور وہ اس کے بعد وہاں سے کسی طرح تعلقہ کالیاکوئل پہنچے جہاں انھیں جبری مشقت کرنا پڑی۔
انھیں کیسے رہائی دلوائی گئی
ریاستی محکمہ لیبر کے ضلعی افسران نے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے معمول کے معائنہ کے دوران اپا راؤ کو بکریاں چراتے ہوئے پایا۔
ان سے پوچھ گچھ کرنے پر پتا چلا کہ اپا راؤ آندھرا پردیش سے آئے تھے اور گذشتہ20 سال سے زیادہ عرصے سے یہاں بکریاں چرا رہے ہیں۔ اوراس عرصے کے دوران وہ کبھی اپنے گاؤں واپس نہیں جا سکے تھے۔
محکمہ لیبر کے اسسٹنٹ کمشنر ادیموتھو کے مطابق اپا راؤ کی حالت معلوم ہونے کے بعد فوری طور پر ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ادیموتھو نے کہا کہ 'ہم نے اس سے پہلے بھی اس علاقے میں بہت سے لوگوں کو غلامی سے آزاد کروایا ہے۔ ہم کچھ معلومات کی بنیاد پر تفتیش کر رہے تھے کہ آیا اس صورت حال میں کوئی اور بھی موجود ہے۔'
'اس دوران ہم نے اپا راؤ کو بکریاں چراتے ہوئے دیکھا۔ پوچھ گچھ کے دوران وہ کبھی تامل اور کبھی تیلگو کے لہجے میں بات کر رہے تھے۔'
تحقیقات اور قانونی کارروائی
افسران نے اپا راؤ کو بچایا اور ان کے مالک انا دورئی کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔ ابتدائی پوچھ گچھ سے پتہ چلتا ہے کہ آپا راؤ 20 سال سے زیادہ عرصے سے بغیر کسی تنخواہ کے ایک جبری مزدوری کرنے والے کے طور پر بکریاں چرا رہے تھے۔
انا دورائی کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا اور اس کے خلاف لیبر ابالیشن ایکٹ 1976 اور پی این ایس 143 (انسانی سمگلنگ سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 370) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
تاہم بعدازں اینادورئی کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔
غلامی میں زندگی اور آبائی شہر واپس جانے کی خواہش
اپا راؤ نے کبھی اپنے مالک سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ انھیں گاؤں واپس آنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ دوسری جانب ان کے مالک نے انھیں رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنی سنگین حالت کے باوجود اپا راؤ اپنے آبائی شہر واپس آنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔
جب اپا راؤ سے تفتیش کے دوران پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ بکریوں کو چروانے کےکام پر واپس آنا چاہتے ہیں تو انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
اسسٹنٹ کمشنر آف لیبر ویلفیر اڈیموتھو نے کہا کہ 'تحقیقات کے دوران انا دورئی سے پوچھا گیا کہ کیا اپا راؤ کام پر واپس آنا چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا نہیں۔ جب اپا راؤ کو بچایا گیا تو ان کے کپڑے اور سامان اسی جگہ موجود تھے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اپا راؤ نے کہا کہ وہ وہ سامان لینے کے لیے بھی وہاں نہیں جانا چاہتے تھے۔'
بات کرنے میں مشکل
اپا راؤ اس وقت مدورائی کے ایک نرسنگ ہوم میں زیر علاج ہیں اور انھیں بات چیت کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ تمل اور تیلگو کے لہجے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی کی کچھ کہانیاں شیئر کیں۔
انھوں نے بتایا کہ گاؤں میں ان کی بیوی بیٹا اور بیٹی ہیں۔ وہ گاؤں میں چاول کاشت کرتے تھے۔ برسوں کی تنہائی اور سماجی رابطے کی کمی نے ان کی گفتگو اور بولنےکی روانی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
نرسنگ ہوم کی ہاؤس سپرنٹنڈنٹ انالکشمی نے کہا کہ 'وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن وہ واضح طور پر بات نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ جب آندھرا پردیش کے کچھ عہدیداروں نے ان سے رابطہ کیا تو وہ واضح الفاظ میں تیلگو میں بات نہیں کر سکے۔'
'بھیڑ بکریاں چرانے کے دوران ان کا بیرونی دنیا سے بہت کم رابطہ ہوا تھا۔ اسی لیے ان کی بول چال بھی کم رہی ہو گی۔ وہ یہاں بھی خاموش رہتے ہیں اور کسی سے بات نہیں کرتے۔'
خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کی کوشش
آندھرا پردیش میں اپا راؤ کے خاندان کا پتہ لگانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن جگہ کے ناموں اور ضلع کی تقسیم میں تضاد کی وجہ سے یہ کام مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی سمگلنگ کا مقدمہ لڑنے والے وکیل ایم راجہ نے کہا کہ اپا راؤ کی تفصیلات کے ساتھ ان کی تصویر کا اعلان مقامی اخبار میں کیا گیا ہے۔
محکمہ لیبر کے عہدیداروں نے بتایا کہ اپا راؤ کے بتائے گئے مقامات کے نام اور وہاں کے اصل نام مختلف ہیں۔ مزید برآں انھوں نے جس ضلع کا ذکر کیا وہ اس وقت دو ڈویژنوں میں تقسیم ہے۔
پچھلے کئی سالوں میں علاقے میں ہونے والی پیشرفت اور تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے خاندان کی تلاش پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اب وہ ضلع آندھرا پردیش اور اڑیسہ کی سرحد پر واقع ہے۔
ایم راجہ نے کہا کہ 'اپا راؤ نے جس جگہ کا ذکر کیا ہے وہ اڑیسہ کی سرحد پر واقع ہے۔ انھوں نے جن علاقوں کا ذکر کیا ہے وہ اب بہت ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ علاقے آندھرا پردیش میں ہیں یا اڑیسہ میں۔ آندھرا پردیش کے حکام کو بھی اطلاع دی گئی ہے اور وہ بھی اپا راؤ کے خاندان کی تلاش کر رہے ہیں۔'
قانونی اور مالی معاونت
جبری مشقت سے بچائے گئے افراد کو لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اپا راؤ کو 30 ہزار روپے کی امدادی رقم ملنے والی ہے۔ اگر ان کا مالک قصوروار پایا جاتا ہے تو وہ معاوضہ بھی وصول کر سکتے ہیں۔ انا دورئی کی جانب سے اپا راؤ کو تنخواہ کی مد میں آٹھ لاکھ 26 ہزار کی ادائیگی ابھی باقی ہے۔ اس رقم کی وصولی کے لیے ضلعی انتظامیہ اقدامات کر رہی ہے۔
اس کیس میں مدراس ہائی کورٹ کے وکیل ایم راجہ نے کہا کہ 'انا دورائی اپنے علاقے کا ایک بااثر شخص ہے، اس نے گاؤں والوں سے کہا ہے کہ وہ اپا راؤ کو کپڑے اور کھانا دینے کے لیے تیار ہے لیکن پیسے نہیں ہیں۔ اپا راؤ نے گاؤں کے کچھ نوجوانوں سے شکایت کی کہ انا دورائی نے ان سے جو کام لیا اس کے لیے انھیں معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ نوجوانوں نے یہ اطلاع علاقے میں کام کرنے والی رضاکار تنظیم اور سرکاری افسران کو دی۔'
شیواگنگا ضلع میں 2018 سے 34 لوگوں کو جبری مشقت سے بچایا گیا ہے جو جبری مزدوروں کے موجودہ مسئلے اور اس سے نمٹنے کی کوششوں کو اجاگر کرتا ہے۔
ایم راجہ نے کہا کہ 'اس طرح کے واقعات میں بڑا چیلنج قانون کی مناسب دفعات کے تحت مقدمات کا اندراج کرنا ہے۔'
'ڈی جی پی نے 2017 میں ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جبری مشقتکے معاملات میں نہ صرف پریوینشن آف بانڈڈ لیبر ایکٹ کی دفعات شامل ہونی چاہئیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے جرم کے لیے دفعہ 143 (آئی پی سی 370) بھی شامل ہونا چاہیے۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'بہت سے معاملات میں اس دفعہ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ جبری مشقت کے خاتمے کے قانون میں زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ اگر انسانی سمگلنگ سے متعلق دفعہ کو بھی مقدمے میں شامل کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ سزا دس سال ہو سکتی ہے۔ اپا راؤ کے کیس میں بھی اس دفعہ کو بعد میں ہی شامل کیا گیا تھا۔